ہوم << تھیلیسیمیا، ایک آزمائش - توقیر ماگرے

تھیلیسیمیا، ایک آزمائش - توقیر ماگرے

توقیر ماگرے کہتے ہیں کہ اگر کسی چیز کی قدر جاننی ہو تو اس سے جانیں جس کے پاس وہ چیز نہ ہو۔ ایسی چیزیں جن کی قدر کرنے میں کسی قسم کی کسر نہیں اٹھا رکھی جاسکتی ان میں صحت بھی شامل ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی اس بارے میں ایک خوبصورت حدیث مبارکہ بھی ہے جس میں بیماری سے پہلے کے زمانے یعنی تندرستی کو غنیمت کے طور پر گنوایا گیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا سکتا کہ شعبہ طب نے جس رفتار سے ترقی کی ہے، اس سے دگنی تیزی سے نئی نئی بیماریاں سامنے آئی ہیں۔
1925ٰء میں امریکا کے ایک ماہر امراض اطفال پروفیسر بینٹن کولی نے ایک مرض تشخیص کیا جسے بعد میں آنے والے محقیقین نے تھیلیسیمیا کا نام دیا۔ تھیلیسیمیا دراصل ایک جین (Gene) کی تبدیلی ہے جس کے باعث انسانی جسم میں خون بنانے کا نظام مفلوج ہوجاتا ہے۔ تھیلیسیمیا ایک موروثی مسئلہ ہے جو کہ والدین سے اولاد میں منتقل ہوتا ہے، اس کے علاوہ تھیلیسیمیا کے پھیلاؤ کا کوئی ذریعہ نہیں۔
2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں تقریباّّ 208 ملین لوگ تھیلیسیمیا سے متاثر ہیں۔ عموما ابتدائی عمر میں ہی تھیلیسیمیا سے متاثر ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چل جاتا ہے، اس لیے اس تعداد میں اکثریت بچوں کی ہے۔ پاکستان میں ہر سال 5 سے 7 ہزار تھیلیسیمیا کے کیس رجسٹر ہوتے ہیں۔
اب تک کی طب کی دنیا کی ترقی کے مطابق Bone marrow transplant ہی تھیلیسیمیا کا کامیاب علاج ہے جو کہ انتہائی مہنگا ہے۔ زیادہ تر مریض معاشی طور پر اتنے مستحکم نہیں ہوتے کہ وہ اس علاج کے خرچے اٹھاسکیں۔ ان متاثرہ بچوں کی سانسیں چلاتے رہنے کا جو دوسرا اور واحد راستہ ہے وہ خون کی منتقلی کا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق اگر کسی ملک کی آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ بھی باقاعدگی سے خون کا عطیہ کرتا ہے تو اس ملک میں ہنگامی صورتحال کے علاوہ فوری طور پر کسی شخص کی جان خون کی عدم دستیابی کی بناء پر نہیں جاتی۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں خون عطیہ کرنے والوں کی شرح اعشایہ تین فیصد سے بھی کم ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے ہاں تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کی اوسطا عمر بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
چند مہینے ایک طبی فلاحی ادارے میں کام کرنے کے بعد صحیح معنوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ان بچوں کی زندگی کس قدر اذیت میں گذرتی ہے۔ بلاشبہ یہ بچے پورے معاشرے کےلیے ایک آزمائش ہیں۔ ہمارے ہاں انسانی ہمدردی کے ناطے از خود خون عطیہ کرنے کا رجحان بہت کم اور مایوس کن ہے۔ زیادہ تر مریضوں کو خون کی منتقلی کے وقت قریبی رشتہ داروں یا دوست و احباب کی جانب ہی دیکھنا پڑتا ہے۔ ان والدین کی دلی کیفیت کا اندازہ لگائیں جن کی گود میں ان کے جگر کا ٹکڑا دم توڑ رہا ہو اور ان کو پورے معاشرے میں کوئی ایک بھی ایسا فرد نہ ملے جو اپنا تھوڑا سا خون عطیہ کرکے ان کے بچے کے چہرے پر ایک بار پھر زندگی بکھیر سکے۔ اگر آپ صاحب اولاد ہیں تو ان والدین کی کیفیت کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ خون عطیہ کرنے سے شاید ان میں خون کی کمی پیدا ہوجائے گی، جبکہ حقیقت میں خون عطیہ نہ کرنے کی واحد وجہ کم علمی اور آگہی میں کمی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ساری عمر یہ بات سمجھتے ہی نہیں کہ ایک بار خون عطیہ کرلینے سے جسمانی طور پر بھی کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو خون عطیہ کرنے پر آمادہ کرلے تو ان مریضوں کی مشکلات میں کافی کمی کرسکتے ہیں۔
اگر اللہ نے آپ کو تندرست اور صحت مند جسم دیا ہے تو خدارا باقاعدگی سے خون عطیہ کیجیے، یہ آپ کے جسم کا صدقہ بھی ہے۔ ہر چار مہینے بعد صرف ایک مرتبہ یہ نیک عمل کرکے آپ تین معصوموں کی زندگیاں بچاسکتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انسانیت کی خدمت کرنے میں لگے رہیں کیونکہ ہمارا دین بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے:
”جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے تمام انسانیت کو زندگی بخش دی۔“ (القرآن)

Comments

Click here to post a comment