شیکسپئر کے معروف ڈرامہ King Lear کا مرکزی کردار پے در پےحادثات اور اتفاقات سے رنجیدہ ہو کر یہ شکوہ کرتا ہے کہ
More Sinned against than sinning
(مجھ سے جس قدر غلطیاں ہوئی ہیں اس سے زیادہ مجھے گنہگار بنا دیا گیا ہے)
اسلامی جمعیت طلبہ پر میں جب بھی کرم فرماؤں کے تبصرے اور تنقید سے گزرتا ہوں تو نہ جانے کیوں مجھے بار بار کنگ لیئر کی یہ خودکلامی یاد آجاتی ہے۔ اختلافِ رائے اور تنقید ایک صحت مند معاشرے اور فرد کی علامت ہے، اس کی جڑیں مذہب میں بھی ہیں اور سیکولر طرز فکر میں بھی۔ تنقید کی بھی جانا چاہیے اور اسے سُننے کی ہمت بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تاہم اسے نہ تو فیشن کے طور پر لینا چاہیے کہ توا جب گرم ہو جائے تو ہر کوئی اسے اچھا موقع جانتے ہوئے اپنی روٹیاں لگانا شروع کردے۔ دوسری طرف اُن لوگوں کو بھی تحمل اور دانش کا دامن نہیں چھوڑ دینا چاہیے جن پر تنقید کی جارہی ہو۔
جمعیت کسی بھی انسانی تنظیم کی طرح کمزوریوں سے مبرا نہیں، جس کا اعتراف اور اصلاح، دونوں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے، جماعت کی طرح جمعیت کا اندرونی احتسابی نظام بھی مثالی ہے، اور اس کی مثال کسی اور طلبہ تنظیم میں کیا، ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں بھی نہیں ہے۔ اس کی تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں۔ سوشل میڈیا پر حال ہی میں شائع ہونے والے مضامین پر ایک اجمالی سی نظر ڈالنے سے چند چیزیں جو ابھر کر سامنے آتی ہیں، ذیل کی سطور میں ان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
(1) جمعیت اور جامعہ پنجاب کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کی پہچان چلے آرہے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ میڈیا سنٹر اور پنجاب کی قدیم ترین جامعہ ہونے کے حوالے سے یہاں ہونے والے واقعات کی اپنی ایک اہمیت ہے، مگر آپ جب بھی کسی پارٹی، تنظیم، معاشرے اور گروہ کے متعلق اپنا ایک تصور (perception) بنانا چاہیں تو انصاف کے کم از کم قرینے تو متعین کرنے ہوں گے۔ پاکستان کے بیس کروڑ افراد کے رجحانات و میلانات کو جاننے کے لیے عوامی سرویز کا اہتمام کرنے والے پروفیشنل ادارے بھی شہری، دیہاتی، مرد و زن پر مشتمل سماجی و معاشی پیمانہ مقرر کر کے ایک اوسط نکالتے ہیں۔ محض ایک حلقہ انتخاب، لسانی پس منظر اور علاقائی وابستگی کی بنیاد پر اگر رائے عامہ کو جانچنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کی پذیرائی بہرحال محدود ہی رہے گی۔ جمعیت جامعہ پنجاب کے علاوہ پاکستان کی متعدد جامعات اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں متحرک بھی ہے، پورے ادارے یا تنظیم کے متعلق رائے قائم کرنے کے لیے بہرحال اہل علم کو ایک بڑا sample لینا ہوگا، اُس صورت میں اُن کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔
(2) چلیے جامعہ پنجاب کو ہی’’آلۂ مقیاس حرارت‘‘ قرار دے لیتے ہیں۔ کیا جمعیت کا وجود اس ادارے میں محض تشدد، دباؤ، خوف کا مرہون منت ہے۔ دور کیوں جائیے، گذشتہ کم از کم 8 سال سے تو جمعیت مبینہ طور پر کسی تعلیمی اسٹیبلشمنٹ کی ’بی‘ ٹیم بھی نہیں رہی۔ جمعیت کے سو سے زائد افراد کے تعلیمی کیریئر کو جامعہ کی انضباطی کارروائیوں کے ذریعے داؤ پر لگا دیا گیا۔ موجودہ دہشت گردی کی لہر سے بہت پہلے جامعہ کے تحفظ کے نام پر سکیورٹی کی فوج ظفر موج سے لے کر جامعہ کے چاروں اطراف دیوار بھی چنوانے تک کون سا کام ایسا ہے جو محض اس لیے کیاگیا کہ جمعیت کو ملنے والی بقول شخصے بیرونی کمک کو روکا جاسکے۔ عمران خان کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے تناظر میں باقاعدہ یونی ورسٹی انتظامیہ کی سرپرستی میں ایک تنظیم کو پروان چڑھایاگیا۔ ایک معروف تجزیہ نگار نے اُن دنوں قوم کو یہ نوید سنائی تھی کہ پنجاب یونی ورسٹی میں جمعیت کی تجہیز و تکفین کا وقت اب آن پہنچا ہے۔
(3) اسلامی جمعیت طلبہ سمیت کوئی بھی انسانی اجتماعیت غلطیوں، کمزوریوں اور فروگذاشتوں سے مبرّا نہیں ہوسکتی۔ نہ ہی جمعیت نے کبھی اس کا دعویٰ کیاہے۔ عین ممکن ہے کہ عمل اور ردِ عمل، حالات کے دباؤ یا جبر میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ نوجوانوں سے ایسا عمل سرزد ہوگیا ہو جو قابل گرفت بھی ہو اور ناپسندیدہ بھی۔ مگر اسے کبھی بھی تنظیم کی عمومی تائید حاصل نہیں ہوئی۔ ہمیں خوشی ہوگی کہ جمعیت کے خلاف قلم برداشتہ اہل قلم اپنی تنقید اور مکالمہ کو اُس متعین واقعہ تک محدود رکھیں۔ اعتراض اُس وقت ہوتا ہے جب ایسے اصحاب تاریخ، شواہد اور قرائن سب کو بیک وقت پسِ پشت ڈالتے ہوئے جمعیت کی ایسی تصویر پینٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(4) جامعہ پنجاب میں جمعیت کی موجودگی اب سالوں سے بڑھ کر دہائیوں کو عبور کرچکی ہے۔ اس تعلیمی ادارے نے جمہوریت، سول آمریت، فوجی مارشل لاء، ایمرجنسی اور بےآئینی جیسے سارے ادوار اپنے اوپر گزارے ہیں۔ اس عرصہ میں وہ سال بھی گزرے ہیں جب جنوبی ایشیا کی اس باوقار جامعہ کو اہل علم و نظر کی سرپرستی حاصل ہوئی اور ایسے دور بھی یہاں در آئے جب ’’شاہ کے مصاحب‘‘ یہاں کے ارباب علم و فن کے سروں پر بٹھا دیے گئے۔ جمعیت تب بھی یہاں تھی جب طلبہ نے اپنی نمائندگی کا سہرا اس کے سر باندھا اور جمعیت کے نوجوان اُس وقت بھی اس ادارے کے طلبہ و طالبات کی خدمت کے لیے چشمِ براہ تھے جب اُن سے رائے کی آزادی چھین لی گئی۔ یہ ساتھ جبر اور گھٹن کا نہیں بلکہ خدمت اور ایثار کی بنیاد پر تھا۔ جمعیت نے یہاں الیکشن ’’ایشیا سُرخ ہے‘‘ کے مقابلے میں بھی جیتا اور ’زر‘ اور ’زور‘ کے مقابلے میں بھی۔ ہمارے کرم فرماؤں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ توجیح بھی نہیں کر پا رہے کہ جمعیت حالات کے مد و جزر، نظریات کی شکست و ریخت، ملکی سیاست میں دھن اور دھاندلی کے چلن کے باوجود تعلیمی اداروں میں ابھی تک اپنا وجود کیسے برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ان کا کرب اس صورت میں اور بھی بڑھ جاتا ہے جب ان کی اپنی تنظیمیں اپنے نظریات کی تمام تر سرخی و سفیدی کے ساتھ دفن ہو گئی ہیں اور اب تعلیمی اداروں میں ان کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ یہاں ’ہم اُن کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔‘
(5) کسی معاشرے کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ وہاں اچھائی اور برائی، خوبی اور خامی کو میرٹ کے بجائے اپنے اور غیر کی بنیادوں پر تقسیم کر دیا جائے۔ مخالف کی خوبی سے اس لیے صرف نظرکرلیاجائے کہ اس کے وژن اور نظریے سے ہمیں اختلاف ہوتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ یہ ٹرینڈ مذہبی، سیکولر، سیاسی، غیرسیاسی، معاشی اور سماجی تمام دائروں میں یکساں پایا جاتا ہے مگر وہ لوگ جو علم کی زمینوں کے شناور اور قلم و قرطاس کی مقدس نسبتوں سے وابستہ ہوں، اور ان کا دعوی بھی تحمل و برداشت اور انصاف کا ہو، اگر وہ بھی واقعات کو اپنے مخصوص تصورات کی عینک سے دیکھیں اور انفرادی نجی واقعات کو پورے ادارے کے سر منڈھ دیں تو اس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ
شکوہ بےجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔
اِس پولرائزیشن نے ہمارے معاشرے کو اس طرح تتّر بتّر کر دیا ہے کہ اہل دانش جو کسی بھی معاشرے میں اتفاقِ رائے کو تقویت دینے والے اور مشترکات کو پروان چڑھانے والے ہوتے تھے، وہی قوم کو دن بدن تقسیم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ تاریخی، ملّی، حتیٰ کہ قومی سطح پر بہت ساری چیزیں طے ہونے کے باوجود ان اصحاب کی کوشش ہوتی ہے کہ یہاں سے انتشار کو برآمد کیا جائے۔ قومی تعمیر اور بہترانسانی نمونوں کو سامنے لانے کے لیے کم از کم ایجنڈے پر اتفاق کرنے کے بجائے ہر دانشور اپنی مرضی کے سورج طلوع کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
(6) جمعیت پر تنقید کیجیے۔ آپ کے نزدیک اس کے جو غلط اقدامات ہیں ان پر دلیل سے محاکمہ کیجیے، یہ آپ کا حق ہے جس کی حفاظت ملک کا آئین، ہماری شاندار روایات اور خود انسان کا اجتماعی ضمیر بھی کرتا ہے۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ وہ واحد نوجوان گروہ ہے جو گذشتہ 70 سال سے اپنے متعین ضابطے، دستور، طریق کار اور روایات کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ طلبہ انجمنوں کی بندش اور طلبہ تنظیموں کی بےتوقیری کے باوجود یہ سخت جان ثابت ہوئی ہے۔ ایک ایسی تنظیم جس کو چلانے والی کوئی خارجی قوت، بیرونی طاقت، غیر ملکی فنڈنگ، مخصوص لابی نہیں بلکہ وہ طلبہ ہیں جو خود زندگی کے سفر میں ابھی دریافت کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ایسی تنظیم جس کی قیادت ہر چند سال بعد جزوی نہیں مکمل تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایسا گروہ جس کی سیاسی و نظریاتی سمت اور وفاداری واضح ہے، مگر اس کو چلانے اور سنبھالنے کی ساری ذمہ داری انہی اَن گھڑ نوجوانوں پر ہے جس کی وہ پوری ذمہ داری قبول بھی کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی غلطیوں، کمزوریوں اور تجاوزات کو ماننے، تسلیم کرنے اور اصلاح کرنے میں انہوں نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ ان میں سے کچھ فیصلے پبلک کے سامنے بھی آئے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن پر وہ رب گواہ ہے جس کی خوشنودی کے لیے اس اجتماعیت کو قائم کیا گیا ہے۔
(7) جمعیت کے ناقدین کی طرف سے تسلسل کے ساتھ جو سب سے بڑا الزام لگایا جاتا ہے وہ تعلیمی اداروں میں تشدد اور جبر کا ہے ورنہ اس کے سخت سے سخت ناقدین بھی اس پر بداخلاقی اور بدعنوانی کا محض الزام لگانے سے پہلے بھی سو بار سوچتے ہیں۔ ایک لمحہ کے لیے انفرادی واقعات میں کبھی اور کہیں اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ جمعیت (بطور تنظیم نہیں) کے وابستگان کے ہاتھوں کچھ افراد کو ناگوار صورتحال سے گزرنا پڑا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اسے افراد کا انفرادی فعل سمجھنا چاہیے۔ بلاشبہ افراد ہی گروہوں یا جماعتوں کا امیج بناتے یا بگاڑتے ہیں مگر تنظیم نے بحیثیت کُل کبھی بھی اس کو قبول تو کیا،گوارا بھی نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ جمعیت نے علم میں آنے کے بعد ایسے کسی بھی واقعہ کو پوری چھان بین اور جانچ پرکھ سے گزارا ہے۔ جہاں توجہ سے کام چلتا ہو، سرزنش کی ہے اور جہاں تادیب کی ضرورت ہو وہاں اپنے نمایاں ذمہ داران کو بھی نہیں بخشا اور جہاں ممکن ہوا معذرت بھی کی گئی۔ اور سب سے بڑھ کر انفرادی واجتماعی سطح پر استغفار کا اہتمام بھی کیا گیا۔
کچھ منفرد واقعات کو بنیاد بنا کر جمعیت کو تشدد کا پرچارک بنا کر پیش کرنے والوں کو کراچی، کوئٹہ اور ملک کے دیگر علاقوں میں گذشتہ چند سالوں میں ہونے والے واقعات کی جھلک دکھا کر بتائیں کہ تشدد کیا ہوتا ہے اور کسے کہتے ہیں۔ وہ میڈیا جو کسی ادارے کو خاطر میں لاتا تھا نہ قدآور شخصیات کو، کس طرح ایک مخصوص سیاسی گروہ کے ہاتھوں دو دہائیوں تک یرغمال بنا رہا۔ جس شہر میں مخالفین کی ڈرل مشینوں سے لے کر دستی بموں تک سے تواضع کی گئی ہو اور شورش کاشمیری و ظفرعلی خان کے قلم کے وارث ان کا نام تک لکھنے سے گریزاں تھے۔
(8) ہمارے کچھ دانشوروں کو یہ بھی غم کھائے ہوئے ہے کہ جامعہ پنجاب میں جمعیت کی وجہ سے علمی فضا پروان نہ چڑھ سکی۔ اور تحقیقات و انکشافات کے باب میں انحطاط جمعیت کا مرہونِ منت ہے۔ علم و فکر کے سوتے جمعیت کی وجہ سے اس دانشگاہ میں خشک ہوئے پڑے ہیں۔ ہم ان سے درخواست کریں گے کہ چلیے یوں ہی سہی مگر کیا پاکستان کی باقی جامعات اور دانشگاہوں سے برٹرینڈرسل اور آئن سٹائن پیدا ہو رہے ہیں۔ اب تو گذشتہ 30 سالوں سے طلبہ کی منتخب انجمنوں پر پابندی ہے۔ تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کو غیرمعمولی اختیارات حاصل ہیں۔ دہشت گردی کا ہوّا دکھا کر خاردار تاریں اور اونچی دیواریں حائل کردی گئی ہیں۔ یونیورسٹیز کے بجٹ میں سینکڑوں گنا اضافہ کردیا گیا ہے۔ PhD's اساتذہ کی تعداد اب گننے میں نہیں آتی۔ ملکی اور غیر ملکی گرانٹ سے لے کر دنیا جہان کے شعبہ جات اور مضامین متعارف کرا کر اداروں کو خود کفالت کی طرف لے جایا جا رہاہے۔ اب تو ہمارے اداروں کو چوٹی کے اداروں میں آہی جانا چاہیے تھا مگر حالیہ اعداد و شمار کچھ اور بتاتے ہیں۔
(9) آخری بات اسلامی جمعیت طلبہ کے وابستگان بالخصوص ذمہ داران سے ہے کہ مضبوط قلعے، خارجی حملوں اور بیرونی جارحیت کا وار تو سہہ جاتے ہیں مگر یہ اندرونی کمزوری اور خلفشار ہوتا ہے۔جس سے مضبوط ترین حصار بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ بلاشبہ اس منفرد اجتماعیت پر اللہ کا ہاتھ ہے مگر اللہ کا ہاتھ بھی اُس وقت تک رہتا ہے جب تک اجتماعیت سے وابستہ افراد اپنے اصولوں پر کاربند اور انصاف کے تقاضوں سے قریب تر رہیں۔ تنقید کے ہر وار اور اختلاف کی ہر صدا کو مخالفت پر منتج نہ ہونے دیں۔ اس سے پہلے کہ دوسرے
آپ کو متوجہ کریں، اپنے معاملات کا خود بے لاگ اور بر وقت جائزہ لیں۔ خود مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں جس برتن کو صاف کرنے والے کئی ہاتھ ہوں گے، اس کی صفائی میں کوئی اشتباہ باقی نہیں رہے گا۔ جمعیت اس زوال پذیر عہد میں بھی زندگی اور جدوجہد کی ایک علامت ہے۔ حالات کو سمجھیں، زمانے کو سمجھیں اور بہترین حکمتِ عملی سے اپنے آپ کو آراستہ کریں کہ
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
(سید وقاص جعفری اسلامی جمعیت کے سابق ناظم اعلی [مرکزی صدر] ہیں)
تبصرہ لکھیے