ہوم << ہاتھی اور شیر کی لڑائی-حامد میر

ہاتھی اور شیر کی لڑائی-حامد میر

hamid_mir1
جنگ کی باتیں کرنا، جنگ میں دشمن کو نیست و نابود کر دینے کے دعوے کرنا اور اس کی آئندہ نسلوں کو سبق سکھا دینے کے نعرے لگانا بہت آسان ہے۔ ایک دفعہ جنگ شروع ہو جائے تو پھر اسے جاری رکھنا اور جیتنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جنگ صرف دو ممالک کی فوج کے درمیان نہیں بلکہ دو ممالک کی ٹیکنالوجی کے درمیان ہوتی ہے۔ جذبوں اور ہمت و بہادری کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اگر دشمن کی فوج کا سائز آپ سے بڑا ہو، دشمن پوری دنیا میں سافٹ ویئر ایکسپورٹ کرنے کا دعویدار ہو، دنیا کی واحد سپر پاور دشمن کی پشت پر کھڑی ہو تو دشمن کے مقابلے کے لئے بہادری کے ساتھ ساتھ حکمت و دانائی کی بھی ضرورت ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے اوڑی میں بھارتی فوج کے ایک مرکز پر حملے کے بعد سے بھارت میں پاکستان کو سبق سکھا دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا نے اپنی قوم میں اتنا جنگی جنون پھیلا دیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستان کے خلاف ایک ہزار سال تک جنگ کرنے کا اعلان کرنا پڑ گیا۔ پاکستان میں کچھ لوگ مودی کے اس اعلان کا یہ مطلب نکال رہے ہیں کہ مودی کے خیال میں پاکستان اگلے ایک ہزار سال تک قائم رہے گا۔ یقیناً یہ مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے لیکن مودی جیسے موذی دشمن کے ایک ایک لفظ کا چار مختلف سمتوں سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک ہزار سال تک جنگ کا مطلب یہ بھی ہے کہ بھارت کی جنگ صرف پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ ایک نظریئے کے ساتھ ہے۔ پاکستان کو اسلام کے نام پر بنایا گیا۔
مودی کی جنگ پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے خلاف ہو گی۔ مودی جس نظریئے پر یقین رکھتا ہے اس نظریئے کے تحت پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال اکھنڈ بھارت کا حصہ ہیں۔ آج ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کے باعث افغانستان اور بنگلہ دیش کے حکمران مودی کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن اکھنڈ بھارت کے نظریئے پر یقین رکھنے والے افغانستان اور بنگلہ دیش کے وجود کو بھارت ماتا کی جغرافیائی حدود میں شامل کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی اتحادی انتہاء پسند ہندو تنظیمیں اس خطے کے ہر مسلمان، مسیحی، سکھ اور بدھ مت کے پیروکار کو زبردستی ہندو بنانے پر یقین رکھتی ہیں بلکہ دلت اور آدی واسی ہندوئوں کی بھی دشمن ہیں۔ بی جے پی کے نظریے کی بنیاد نفرت ہے۔ محبت اور امن بی جے پی کی موت ہے اس لئے اگر مودی یہ کہے کہ آئو مل کر غربت کے خلاف جنگ کریں تو قطعاً یہ مت سمجھئے کہ وہ جنگ سے بھاگ رہا ہے۔ وہ صرف دھوکہ دے رہا ہے۔ مودی نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو کشمیر سے دور رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران نواز شریف کی طرف سے کشمیر حریت پسند برہان وانی کے ذکر نے مودی کے دل و دماغ میں آگ لگا دی ہے۔ کشمیر پر پاکستان کے غیر لچکدار رویئے کے بعد مودی ہر صورت میں پاکستان کو نقصان پہنچائے گا لیکن اس کی کوشش یہ ہو گی کہ جنگ میں پہل کا الزام بھارت پر نہیں بلکہ پاکستان پر آئے اس لئے پاکستان کو جنگ کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے لیکن ایسا تاثر نہ دیا جائے کہ پاکستان جنگ میں پہل کر رہا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ بھارت اور پاکستان میں تنازع کی اصل وجہ جموں و کشمیر کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر کشمیریوں اور پاکستان کا مقدمہ قانونی، اخلاقی، سیاسی اور سفارتی وجوہات کی بناء پر بہت مضبوط ہے لہٰذا ہمیں یہ مقدمہ بڑی ذہانت، بہادری اور مستقل مزاجی کے ساتھ لڑنا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی طاقت کشمیریوں کی جدوجہد، ان کا عزم و استقلال اور قربانیاں ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ بھارت سے نجات چاہتے ہیں لہٰذا پاکستان کو سیاسی و سفارتی محاذ پر اپنی برتری قائم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خدا نخواستہ جنگ ہو گئی تو کشمیری پاکستان کے ساتھ کھڑے رہیں گے، اللہ کی مدد سے ہم یہ جنگ جیت بھی گئے تو نقصان اتنا زیادہ ہو گا کہ ہم کئی دہائیاں پیچھے چلے جائیں گے اس لئے بار بار یہ عرض کر رہا ہوں کہ پاکستان کی سرزمین سے کسی کو ایسی غلطی کرنے کی اجازت نہ دی جائے کہ جنگ کا الزام پاکستان پر آئے۔ جنگ سے نفرت کا یہ مطلب نہیں کہ میں جنگ سے ڈرتا ہوں۔ مجھے جنگ سے نفرت اس لئے ہے کہ میں نے بطور صحافی جنگ کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنگ کے دوران جب بھی موت کو اپنے سامنے کھڑے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنکھیں بھی ڈالیں لیکن میری آنکھوں نے جنگ زدہ علاقوں میں جو تباہی دیکھی ہے وہ میں بار بار نہیں دیکھنا چاہتا۔ چیچنیا کے شہر گروزنی کی تباہی و ویرانی کا یہ خاکسار عینی شاہد ہے۔ چیچن عسکریت پسندوں نے روسی فوج کے خلاف جس جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا اس کی آج کے دور میں مثال تلاش نہیں کی جا سکتی لیکن ان کے جذبے اور ہمت روس کی فوجی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکی اور پورے کا پورا گروزنی شہر کھنڈر بن گیا اور اس کھنڈر میں گھومتے ہوئے میں اپنے ساتھی کیمرہ مین حمران الیگذنڈر سے چھپ چھپ کر رویا کرتا تھا۔ اسرائیل اور لبنان کی جنگ کے دوران تین ہفتے تک روزانہ مجھے جنگی طیاروں کی بمباری میں معصوم اور بے گناہ افراد کی موت کے مناظر دیکھنے پڑے، عراق اور افغانستان کے جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کی لاشوں پر روتی مائوں کو میں نہیں بھلا سکتا، مقبوضہ فلسطین کے شہر غزہ کا کیمرہ مین احمد مجھے کبھی نہ بھولے گا جو خان یونس کے علاقے میں تین فلسطینی بچے میرے پاس لایا۔ ان بچوں کی خواہش تھی کہ وہ اسرائیلی ٹینکوں پر پتھر ماریں اور میں کچھ دور کھڑا ہو کر ان کی فلم بنائوں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ فلسطینی پتھروں سے اسرائیل کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ میں نے یہ کام کرنے سے معذرت کی تو اگلے دن احمد ایک ترک صحافی کے ساتھ یہ کام کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ دور کیوں جائیں۔ اپنے شمالی وزیرستان کے متاثرین کو دیکھ لیں جو ابھی تک بڑی تعداد میں بے گھر ہیں۔ شمالی وزیرستان کے تباہ حال بازار اور گلیاں دیکھ کر مجھے سری لنکا کے شہر جافنا کی تباہی یاد آتی ہے جہاں فوج نے تامل ٹائیگرز کو شکست دے دی لیکن انسانیت ہار گئی تھی۔ آئزن ہاور دوسری جنگ عظیم کی فاتح افواج کا کمانڈر تھا لیکن فاتح ہونے کے باوجود اس نے کہا تھا کہ وہ جنگ سے نفرت کرتا ہے کیونکہ جنگ تباہی لاتی ہے۔ پاکستان کو ہر صورت میں کشمیریوں کے ساتھ کھڑے رہنا ہے اور ان کا مقدمہ بھی لڑنا ہے لیکن جنگ سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے اور اگر جنگ شروع ہو جائے تو پھر بے جگری سے لڑنا ہو گا۔ میں فتح یا موت پر یقین رکھتا ہوں۔ ہتھیار پھینکنے پر یقین نہیں رکھتا۔ اگر جنگ ہوئی تو پاکستان کا مقابلہ صرف بھارت سے نہیں بلکہ امریکہ سے بھی ہو گا جو افغانستان کے راستے ڈبل گیم کرے گا۔ بھارت اور پاکستان کی جنگ ہاتھی اور شیر کی لڑائی جیسی ہو گی۔ ہاتھی کی جسامت اور طاقت زیادہ ہوتی ہے لہٰذا شیر بڑی حکمت سے ہاتھی کا مقابلہ کرتا ہے اور ہاتھی کی جسامت کو اس کی کمزوری بنا دیتا ہے۔ اس لڑائی میں اکثر نتیجہ نہیں نکلتا۔ کبھی کبھی شیر جیت جاتا ہے لیکن ہاتھی کو شاذونادر ہی کامیابی ملتی ہے اسی لئے ہمیں شیر بننا ہو گا۔

Comments

Click here to post a comment