مولانا مودودی (رح) کی ”خلافت و ملوکیت“ پر گرما گرم بحث کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ یہ موضوع جس قدر احتیاط کا متقاضی ہے، بدقسمتی سے اس کتاب میں مولانا کا انداز بیان اور تجزیہ اس احتیاط کو ملحوظ نہ رکھ سکا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں اختیار کردہ طریق تجزیہ کی بنیادی خامیوں کی طرف اشارہ کردیا جائے۔
تجدد پسندانہ تجزیے کی روش
تجدد پسندانہ رویہ فہم حقیقت میں تاریخی تسلسل کا انکار کرکے اس سے ماوراء اصولوں کو اختیار کر لینے کا دعوی و دعوت ہوتی ہے۔ یہ لازم نہیں کہ ایک شخص کی فکر کا ہر ہر پہلو ہی تجدد پسندانہ ہو، بعض پہلوئوں میں وہ روایت پسند اور بعض میں تجدد پسند رویہ اختیار کرسکتا ہے، مگر عمومی حکم اس کے مجموعی نظام فکر اور اس کے اصولوں کی بنا پر لگایا جاتا ہے۔ مولانا مودودی (رح) کی فکر کا بھی یہی حال ہے۔ چنانچہ اگر اسلامی تعلیمات کو عقائد، عبادات، معاشرتی، معاشی و سیاسی احکامات میں تقسیم کرلیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا مودودی (رح) سرسید کی طرح عقائد کی تشریح نوع کے قائل نہیں، نہ ہی وہ عبادات کی اہمیت کو کسی طور کم کرتے ہیں۔ معاشرتی و معاشی احکامات سے متعلق ان کی نمائندہ کتب ”پردہ“ و ”سود“ کو دیکھا جائے تو یہاں بھی مولانا ایک ٹھیٹ عالم کی طرز پر روایتی تعبیر اسلام کی حمایت کرتے دکھائی دیں گے۔ ان کتب میں اپنے مؤقف کے حق میں مولانا جا بجا فقہاء کے حوالے پیش کرتے دکھائی دیں گے۔ اس کے برعکس اگر آپ مولانا کی سیاسی فکر کا مطالعہ کریں تو حیران کن طور پر اس کی حمایت میں مولانا کسی مسلم سیاسی مفکر کا قول پیش نہیں کرپاتے بلکہ براہ راست قرآن و حدیث سے استدلال کرکے اصول وضع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ مولانا کی سیاسی فکر مسلم سیاسی مفکرین کی فکر کا تسلسل نہیں، اس معاملے میں وہ اسلامی تاریخ کو رد کرتے ہیں۔
جب آپ تاریخ کو رد کرتے ہیں تو خود کو معروضی طرز تجزیہ اختیار کرنے پر مجبور پاتے ہیں اور معروضیت صرف اور صرف آپ کی حاضر و موجود واقعیت (facticity) کا نام ہوتا ہے۔ چنانچہ مولانا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، سیاسی فکر میں تاریخی مسلم مفکرین کو رد کرنے کے بعد ان کے سامنے اپنے دور ہی کے سیاسی آئیڈئیلز تھے جن میں سے بعض کو انہوں نے معروضیت کے نام پر قبول کرکے پوری اسلامی تاریخ پر حکم لگانا شروع کردیا۔ یہی ان کی فکر کی بنیادی غلطی تھی اور یہ بعینہہ وہی غلطی ہے جس کا شکار ہر وہ جدید مسلم مفکر ہوتا ہے جو تاریخ سے اوپر اٹھ کر اسلام کے معروضی تجزیے کی اس طرح کوشش کرتا ہے، گویا آج وہ پہلا انسان ہے جو اسلام کو سمجھنے بیٹھا ہے۔
بنیادی تصورات کی عدم تنقیح
ملوکیت جسے ”شرعا مذموم“ کہا جاتا ہے وہ کسی انتظامی ڈھانچے کا نام نہیں بلکہ کسی فرد واحد یا خاندان یا تاریخی روایت سے جنم لینے والے ارادے کے ماخذ قانون ہونے کا نام ہے۔ جب ایک فرد کی جگہ لوگوں کا اجتماعی ارادہ یہی پوزیشن اختیار کرلے تو اسے دنیا جمہوریت کہتی ہے اور یہ بھی شرعا اتنی ہی مذموم شے ہے جتنی ملوکیت۔ قرآن و حدیث میں جہاں بھی ملوکیت کی مذمت آئی ہے، انھی معنی میں آئی ہے ورنہ انتظامی سٹرکچر کے معنی میں تو بہتیرے انبیاء بھی ازروئے قرآن ملوک گزرے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں دکھایا جاسکتا جب بادشاہ کے حکم کو ماخذ قانون مان لیا گیا ہو اور عدالتوں نے اسی بنیاد پر فصل نزاع شروع کردیا ہو۔ اموی دور سے لے کر سلطنت عثمانیہ و مغل تک میں قانون کا ماخذ بلا کسی تعطل شرع ہی رہا۔ ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی بادشاہ نے امام ابو یوسف و امام مالک کی آراء کے بجائے ارسطو کی ریپبلک، کسی دوسرے یونانی و رومی ماخذ یا ہیومن رائٹس نامی کسی مقدس صحیفے کو اخذ احکام کا درجہ دینے کی خواہش کی ہو (صرف اکبر کے یہاں ایسی محدود کوشش دکھائی دیتی ہے جو ناکام ہوئی)۔
اسلامی تاریخ میں اگر اس امر کی کچھ مثالیں ملتی ہیں جہاں بادشاہ یا حکمران طبقے نے شرعی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اپنی بات منوالی ہو یا اپنے مفاد کے لیے کوئی خلاف شرع فیصلہ نافذ کردیا ہو تو ان کے ایسے فیصلوں اور اعمال کو ”ایک جرم“ کے طور پر دیکھا گیا اور آج بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس قسم کی مثالیں تو مولانا مودودی (رح) کے ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ میں بھی شب و روز دیکھنے کو ملتی ہیں تو کیا یہ کہنا جائز ہوگا کہ یہاں اسی جاہلیت قدیمہ کا راج ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل تھا؟
مولانا کی کتاب میں ملوکیت کے معنی کی یہ بنیادی تنقیح موجود نہیں اور وہ اسے ایک انتظامی شے فرض کرکے تجزیہ کرتے چلے گئے۔ یہی وہ بنیادی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے مولانا اس غلط نتیجے تک پہنچے کہ خلافت راشدہ کے بعد خلافت ختم ہوکر جاہلیت لوٹ آئی (لاحول ولا قوۃ)۔ خلافت راشدہ اسلام کا مثالی تصور ہے لیکن مثالی تصور معدوم ہوجانے کے بعد جاہلیت غالب نہیں آگئی تھی۔ خلافت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی نیابت کا نام ہے اور اس میں مثالی سے لے کر بہتر و کم تر کے درجات کا تفاوت موجود ہے (جنہیں علماء نے سلطنت عادلہ، ضالہ وغیرہ جیسے مختلف درجات میں بیان کیا ہے)۔ مولانا نے اس معاملے کو بلیک اینڈ وائٹ میں تقسیم کرکے خلافت راشدہ کے بعد یکدم جاہلیت کے پلٹ آنے پر محمول کرلیا۔ اگر مولانا مسلم سیاسی مفکرین کو رد کرنے کے بجائے ان کی آراء کو لائق التفات سمجھتے تو اس سنگین غلطی سے بچ جاتے۔
خلافت و ملوکیت کی بحث میں ایک بنیادی خلط مبحث یہی ہے کہ خلافت ان معنی میں ملوکیت میں تبدیل ہوگئی تھی کہ خلافت سرے سے معدوم ہوگئی۔ مگر یہ دعوی غلط ہے کیونکہ جو چیز خلافت سے ملوکیت میں تبدیل ہوئی وہ خلافت راشدہ تھی نہ کہ خلافت۔ خلافت سیاسی اقتدار کی ایسی تشکیل کا نام ہے جس میں فیصلوں کا صدور و نفاذ (معاشرتی پالیسی سازی) شرع کی بنیاد پر قائم ہو اور اسلامی تاریخ میں یہ نظم خلافت راشدہ سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک قائم رہا۔ اب کوئی اسے خلافت کا نام دے یا سلطنت کا، نفس امر میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو کچھ امریکہ میں قائم ہے اسے بھی جمہوریت کہتے ہیں اور ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں قائم نظم کو بھی جمہوریت ہی کہا جاتا ہے۔ جس طرح جمہوریت کا لیول فکسڈ نہیں ہوتا اور نہ ہی وقت گزرنے کے ساتھ ایک ہی جہت (ترقی یا زوال) میں سفر کرتا ہے، یہی حال خلافت کا بھی ہوتا ہے جس کا اظہار اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں کم و زیادہ ہوتا رہا۔ عین اسی ”ملوکیت“ میں عبد اللہ بن زبیر (رح) جیسے معیاری خلفاء بھی آتے رہے۔
خلافت راشدہ کا زوال خلافت کے اعلی ترین سطح کا زوال تھا، جہاں خلیفہ کا چناؤ ارباب حل و عقد کے پاس محفوظ ہوتا، جہاں کسی خلیفہ نے ادنی درجے میں بھی سیاسی اختیارات کو اپنے ذاتی مفادات، یہاں تک کہ جائز، کے لیے بھی استعمال نہ کیا۔ تین خلفاء شہید کردیے گئے مگر کسی نے سرکاری اموال سے اپنی سیکیورٹی رکھنا روا نہ رکھا اور اسی طرح جائز معیار زندگی کے لیے بھی بیت المال سے التفات نہ کیا۔ الغرض خلافت راشدہ امور ریاست کے تمام فیصلوں میں اسی طرز کی اعلی ترین خدا خوفی و تقوے کے اظہار کا نام تھا جہاں سیاست کا مقصد صرف اور صرف رسول اللہﷺ کی سیاسی نیابت تھا اور بس۔ تقوے کا یہ معیاری لیول صحابہ کو رسول اللہﷺ کی معیت کی وجہ سے دستیاب ہوا تھا، جوں جوں اسلام میں نئے آنے والوں کی آمد کا سلسلہ تیز ہوا معاشرے میں تقوے کا وہ معیاری لیول کم ہوتا چلا گیا۔ خلافت راشدہ (معیاری ریاستی تشکیل) کا زوال اسی معیاری انفرادیت و معاشرت کے زوال کا اظہار تھا کہ کوئی نظم ریاست اسی قدر ممکن و مضبوط ہوتا ہے جس قدر اسے سپورٹ کرنے والی معاشرت و انفرادیت عام ہو۔ یہ اسی طرح ہے کہ صحابہ کا ایمان اگر مثالی تھا تو صحابہ سے کمتر ایمان والے اور ہم جیسے گنہاگار بھی قانونا ایمان والے ہی ہیں نہ کہ جاھلیت قدیمہ کے پیروکار۔
”خلافت و ملوکیت“ کی مبہم میتھاڈولوجی
”نظام“ مولانا مودودی (رح) کی فکر کا ایک بنیادی تصور ہے۔ اس تصور کو استعمال کرتے ہوئے مولانا خلافت سے ملوکیت کے سفر کی سیاسی و معاشرتی توجیہہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے مولانا معروف سوشل سائنس کے ماہرین کی طرح کوئی سوشیالوجسٹ نہ تھے بلکہ اس معاشرتی توجیہہ میں وہ نصوص میں وارد ہونے والے حقائق کا بھی لحاظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ”سیاست شرعیہ“ کے باب میں مولانا اور قدیم مسلم مفکرین کے قائم کردہ سوال و طریقہ تجزیہ میں بنیادی فرق کیا تھا اس پر بعد میں گفتگو کریں گے، فی الوقت یہ کہنا مقصود ہے کہ مولانا اپنے طریقہ تجزیہ میں اپنے انداز فکر کے منطقی مضمرات کو ھم آھنگی سے اپلائی نہیں کرپائے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا ملوکیت کی ابتداء حضرت عثمان غنی (رض) کے ”دور حکومت“ میں لیے جانے والے ان فیصلوں سے دکھاتے ہیں جو آپ نے بطور ”حکمران“ کیے اور ان کے خیال میں تبدیلی کا یہ سیاسی سفر حضرت امیر معاویہ (رض) کے ”دور حکومت“ میں ہونے والے ان فیصلوں میں مکمل ہوگیا جو انہوں نے بطور ”حکمران“ کیے۔ یہاں ”دور حکومت“ اور ”حکمران“ پر توجہ رہے۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ ان دو حضرات کے ”دور حکومت“ کے درمیان حضرت علی کرم اللہ وجہ (رض) کا دور حکومت بھی تھا۔ اگر مولانا کے معاشرتی تبدیلی کے نظاماتی ماڈل کی بنیادوں کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت علی (رض) کے ”دور حکومت“ کا مطالعہ کیا جائے تو جن بنیادوں پر وہ تبدیلی کے اس عمل کا آغاز حضرت عثمان (رض) کے ”دور حکومت“ میں دکھاتے ہیں حضرت علی (رض) کا ”دور حکومت“ بھی انہی کا تسلسل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس مقام پر ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا سیاسی تبدیلی کے اپنے نظاماتی ماڈل کو ایک طرف رکھ کر نصوص کی پناہ اختیار کرکے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے بارے میں نصوص میں جو فضائل بیان ہوئے ہیں ان کے پیش نظر وہ ایسی توجہیات کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں جس سے ان کی طرف کسی قسم کی بدنیتی کی نسبت پیدا ہوتی ہو، حالانکہ تاریخی روایات کے مطابق وہ تمام فیصلے حضرت علی (رض) کی طرف بطور ”حکمران“ ہی منسوب ہیں۔ اب یہ بات تو عجیب تر ہوگی کہ حضرت عثمان و امیر معاویہ کے دور حکومت کے فیصلوں کے لیے ”حکمران پارٹی“ کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے مگر حضرت علی کے دور حکومت کے ایسے ہی فیصلوں کو گویا ”حزب اختلاف“ کے سر ڈال دیا جائے۔ ظاہر ہے اسے سیاسی چالاکی توکہا جاسکتا ہے مگر کوئی علمی معاشرتی توجیہہ نہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک معاشرتی تبدیلی کے ماڈل کی ایسی توجیہ آپ کے لیے اس لیے قابل قبول نہیں کہ وہ حضرت علی (رض) کے شایان شان نہیں تو بعینہ وہی توجیہ آپ حضرت عثمان (رض) و دیگر بہت سے صحابہ کے لیے کس طرح قبول کرلیتے ہیں؟ اگر ایک جگہ آپ نصوص کو معاشرتی تبدیلی کے عمل کے اپنے قائم کردہ اصولوں پر ترجیح دیتے ہیں تو دوسری جگہ یہ اصول کس دلیل کی بنا پر چھوڑ دیتے ہیں؟ اس بارے میں مولانا کوئی واضح جواب نہیں دیتے۔ مولانا کی ”خلافت و ملوکیت“ کی میتھاڈولوجی میں یہ بنیادی عدم ہم آہنگی اور ابہام غلط نتائج کا باعث بنے۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ تاریخ محض واقعات کو بیان کردینے کا نام نہیں ہوتا بلکہ تاریخ کا معنی مخصوص انداز فکر کے اندر واقعات کو معنی دینے کا نام ہوتا ہے۔ معنی دینے کے اس عمل میں چند اصولوں کا ہم آھنگی سے لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے مگر مولانا اس کتاب میں یہ نہ کرسکے۔
ان سب گزارشات سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے ہم مولانا کی علمی حیثیت اور دینی خدمات کے قائل نہیں۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ جب کبھی بیسویں صدی کے نامور متکلمین اسلام کی فہرست مرتب کی جائے گی تو فہرست میں مولانا کا نام بیسویں صدے کے متکلمین اسلام کے امام کے طور پر سب سے اوپر لکھا جائے گا۔ لیکن ان کا یہ مقام اس بات کا مستلزم نہیں کہ ان کی غلطی کی نشاندہی نہ کی جائے۔
تبصرہ لکھیے