ہوم << جاوید غامدی، سلاست اور علمی مباحث - محمد دین جوہر

جاوید غامدی، سلاست اور علمی مباحث - محمد دین جوہر

محمد دین جوہرگزشتہ کچھ عرصے سے ورقی اور برقی میڈیا میں محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیہ“ پر بحث چلی آتی ہے۔ سہ ماہی ”جی“ نے بھی اپنی ایک اشاعت میں بساط بھر اس بیانیے کے مذہبی اور نظری پہلوؤں پر گفتگو کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ ابھی حال ہی میں جناب نادر عقیل انصاری صاحب نے محترم غامدی صاحب کے دلالتِ لسان اور تکفیر کے موقف پر نقد کی نظری اور علمی کاوش کی ہے۔ غامدی صاحب کے مکتبِ فکر کی طرف سے انصاری صاحب کی تحریروں کا جواب بھی سامنے آیا۔ اس میں دلالتِ لسان اصلاً کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ خالص نظری مسئلہ ہے، لیکن دین میں متون کی بنیادی اہمیت کی وجہ سے یہ بحث آگے چل کر مذہبی مضمرات حاصل کر لیتی ہے۔ تکفیر کا مسئلہ ٹھیٹھ مذہبی مسئلہ ہے اور اس کے نظری پہلو نہایت ضمنی نوعیت کے ہیں۔ انصاری صاحب اور فکر غامدی کے حاملین کے مابین جو بحث چلی، میں بضاعت بھر اسے دیکھتا رہا ہوں۔ فی الوقت اس بحث کے ایک ایسے پہلو کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو آہستہ آہستہ ہر بحث میں اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
انصاری صاحب کو جواب دینے والے کئی حضرات نے خاص طور پر دلالتِ لسان کی بحث میں اس کے مشکل ہونے کا گلہ کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی بات کا سادہ خلاصہ بنا کر پیش کریں۔ بعض اوقات تو ایسا لگا کہ وہ موضوع کی مشکل کو بھی انصاری صاحب ہی کا کوئی ذاتی عیب بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی کہی گئی کہ ”مفکر“ کا اصل کام بات کو سادہ بنا کر پیش کرنا ہے۔ بہرحال یہ تعریف بھی لاجواب رہی، کیونکہ ایسے مفکر اب ان کے تخیلاتی جغرافیہ میں ہی پائے جاتے ہیں۔ جب بحث آگے بڑھی تو یہی ”سادگی“ اور ”سلاست“ کی دہائی خود ایک دلیل بن گئی، اور کہا گیا کہ دیکھو اصل بات تو سادگی ہے، اور ہم بہت سادہ بات کرتے ہیں، جبکہ ہمارے مخالفین بہت پیچیدہ بات کرتے ہیں اور اکثر فلسفیانہ دلچسپیوں کے ”مرتکب“ بھی پائے گئے ہیں۔ جلد ہی یہ الزام صحیح اور غلط کا معیار بھی بن گیا۔ گزارش ہے کہ ان بحثوں کا یہ پہلو غور طلب ہے۔
سوال یہ ہے کہ بات کی سادگی اور اظہار کی سادگی سے کیا مراد ہے؟ گزارش ہے کہ روزمرہ، غیر رسمی زندگی میں اظہار اور ابلاغ کا بڑا ذریعہ زبان ہے، جو اپنے استعمال میں سلیس، سادہ اور سیدھی ہوتی ہے۔ روزمرہ زندگی میں زبان کا بنیادی مقصد معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے جو افراد، اشیا یا واقعات کے بارے میں ہوتی ہیں، یا ان کی صورت اطلاعات وغیرہ کی ہوتی ہے۔ معلومات کے تبادلے میں زبان کا مشکل پن یا پیچیدگی رکاوٹ بن جاتی ہے، اور عموماً مسائل اور غلط فہمی کا باعث ہوتی ہے۔ عام زندگی میں زبان کا استعمال فہم عامہ کی سب سے کم سطح کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے، تاکہ اطلاعات کے ابلاغ اور کاموں کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ یا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ روزمرہ سماجی زندگی اور کاروباری، انتظامی اور سیاسی امور میں اس بات کا ازحد خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی بات فہم عامہ سے اوپر اٹھ کر مسائل کا باعث نہ بنے اور نظام زندگی میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔
دینی ہدایت اور نصائح کی حیثیت بھی معلومات کی ہے کیونکہ ان کا تعلق متداول یا مطلوبہ اقدار و اعمال سے ہوتا ہے۔ ہدایت کا مخاطب ہر انسان ہے اس لیے اس کا اظہار ”بیّن“ ہوتا ہے، جس کا ایک پہلو سادگی ہے، اور یہ سادگی ابلاغ عامہ کے لیے ضروری ہے۔ ہدایت اپنے بیان اور ابلاغ میں بہت سادہ ہے اور ہر انسان کی رسائی میں ہے اور ہر انسان اس کو جان لیتا ہے۔ لیکن یہ جان لینا، مان لینے کے ہم معنی نہیں ہے۔ پھر جان لینا، سمجھ لینے کا ہم معنی بھی نہیں ہے۔ اس میں اہم تر یہ کہ وہ فہم انسانی جو ہدایت کے اقرار یا انکار کی بنیاد ہے، وہ اقداری نوعیت کا ہے یعنی وجودی ہے، اور اس کا ذہنی فہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اقدار، حق کا اظہار ہیں، منزّل ہیں، ہر انسان ان کا مخاطب ہے، اس لیے ان کا بیان سادہ ہوتا ہے۔
معلومات اور ان کا ابلاغ سادہ ہے، ہدایت اور اس کا ابلاغ بھی سادہ ہے، اور انسانی شعور بھی سادگی پسند ہے، تو سوال یہ ہے کہ پیچیدگی اور مشکل کہاں سے آتی ہے؟ ہر ایسا بیان جو بیک وقت شعور و وجود کو محیط ہو، یا جس کا موضوع شعور و وجود بیک وقت ہو، وہ ازحد سادہ ہوتا ہے اور ایسا بیان صرف اقداری ہو سکتا ہے۔ یہ اقدار کا اسلوب بیان ہے، یہ ہدایت کا اسلوب اظہار ہے۔ اگر کسی بیان کا موضوع صرف وجود ہو، تو وہ سادہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ کسی طور ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر کسی بیان کا موضوع صرف شعور ہو، وہ سادہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ اور نظری علوم کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ ایک وقت میں شعور کو زیر بحث لا سکتا ہے یا وجود کو۔ یہاں نکتہ یہ ہے کہ انسان ایسا بیان تشکیل دینے پر قادر ہی نہیں ہے جو بیک وقت شعور و وجود کا احاطہ کیے ہوئے ہو، اس لیے اس کا کوئی بیان محکم نہیں ہو سکتا کیونکہ آخرالامر یہ علم، نظری علم ہی ہو گا، کبھی ہدایت نہیں ہو سکتا۔ اور نظری علم انبار وجود میں گھرے ہوئے عقلی شعور کی وقتی کارگزاری ہے۔ نظری علم ہمیشہ پیچیدہ ہی ہوگا، ادق ہی ہو گا، اور کبھی سادہ نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی علم الکلام اور اس کی روایت انتہائی ادق ہے۔ عرفان اور اس کی روایت تو علم الکلام سے بھی ادق ہے۔ فقہ سادہ ہے لیکن اس کی اصولی ابحاث بہت پیچیدہ ہیں۔ علم بیان اور علم بلاغت کے مباحث بھی بہت پیچیدہ ہیں۔ فلسفے کی پوری روایت اپنے اظہار میں بہت مشکل ہے۔ جدید نفسیاتی، سماجی، سیاسی اور معاشی علوم نہایت مشکل ہیں۔ سائنسی علوم بھی نہایت ادق اور مشکل ہیں اور ان کی اعلیٰ ابحاث اب عام لوگوں کے فہم و شعور سے بہت اوپر جا چکی ہیں۔ اور یہ ادق، مشکل اور پیچیدہ علوم سب نظری ہیں۔ علم میں مشکل پن اور پیچیدگی تہذیب کی ضرورت بھی ہے اور اس کا مظہر بھی۔
سائنسی علوم سے ہٹ کر، سوال یہ ہے کہ نظری علم کی کیا اور کیوں ضرورت پڑتی ہے جبکہ ہدایت کا بہت سادہ بیان موجود ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہدایت یا دینی اقدار مان لیے جانے کے فوراً بعد اپنے مصداقات از خود پیدا نہیں کرتیں۔ اس کی وجہ بھی بہت سادہ ہے کہ کوئی رکاوٹ موجود ہوتی ہے۔ انسان کے داخل میں یہ رکاوٹ نفس ہے اور انسان کے خارج میں یہ رکاوٹ تاریخ ہے۔ ”عبد“ بننا مشکل ہے کہ قدر کے تحقق میں نفس اور ذہن حائل ہیں، اور اسلامی معاشرہ بنانا مشکل ہے کہ اجتماعی ارادے میں تاریخ حائل ہے۔ اگر قدر اور اس کے مصداق کے درمیان نفسی اور تاریخی فاصلہ بڑھتا چلا جائے تو آخری مرحلہ تاریخ کا مکمل غلبہ اور قدر کی موت کا ہوتا ہے۔ اقدار اور ان کے مصداقات میں بڑھتے ہوئے فاصلے کو پاٹنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اول، محکم ارادہ جو قدر اور تاریخ کے درمیان فاصلے کو پاٹ دے، اور نظری علم جو اس فاصلے کی نوعیت کو واضح کر دے اور ارادے کا معاون ہو۔ سادہ بات یہ ہے کہ قدر اور تاریخ میں فاصلہ کرداری نمونوں اور نظری علم کو لازم کر دیتا ہے۔
دینی متن کی تشریح مخاطب انسان کا جائز مفاد ہے، جبکہ دینی متون اور تاریخی صورت حال کے متعلقات کی تلاش، تعبیر کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں متجددانہ ”تعبیرات“ یہ کام وعظ کی پست توسیع سے کرتی ہیں، کیونکہ وہ روایت سے ارادی انقطاع، عقل اور عقلی طریقۂ کار سے دستکشی اور نظری علوم کے انکار سے پیدا ہوئی ہیں، اس لیے سادگی کی تجلیل کے بغیر کھڑی بھی نہیں ہو سکتیں۔ سادگی ایک ظاہری چیز ہے، اس لیے پرفریب، دلفریب اور ذہن فریب ہو سکتی ہے۔ سادگی کی معنویت کا سوال فوراً پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ علمی تحریر میں سادگی شعور اور وجود کی باہمی ضروری اور نظری نسبتوں کو نظرانداز کرنے سے پیدا ہوتی ہے، اور یہ پستی ہے کوئی خوبی نہیں ہے۔ انسان کے اعمال و افعال میں سادگی ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے اور زہد و ورع کا اظہار ہے۔ علمی تحریر کا معیار اس کا ثقہ ہونا ہے، اور اس پر سادگی کے اخلاقی معیارات وارد نہیں کیے جا سکتے۔ نظری علم پیچیدہ اور دینی عمل سادہ ہوتا ہے۔ ان دونوں میں التباس پیدا کرنا متجددین کی خاص مہارت ہے۔ فکر میں سادگی کا التباس علم، ذہن اور اقدار کے لیے خطرناک ہے، اور گزشتہ چند صدیوں میں اس نے ہماری تہذیبی فکری روایت کو غیرمعمولی نقصان پہنچایا ہے۔ اب وقت ہے کہ ”سادہ مفکری“ کی عمومی پستی کا علمی جائزہ لے کر اس سے نجات حاصل کی جائے۔