ہوم << پاک بھارت میڈیااورممکنہ جنگ-سلیم صافی

پاک بھارت میڈیااورممکنہ جنگ-سلیم صافی

saleem safi
گزشتہ مارچ کے مہینے میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں دہلی جانا ہوا۔ پلڈاٹ اور ایک بھارتی تھنک ٹینک نے مل کر اس کا اہتمام کیا تھا۔ یہاں پر دونوں ملکوں کے میڈیا سے متعلق میں نے جو اظہار خیال کیا تھا ، اس کا خلاصہ 12مارچ کو روزنامہ جنگ میں ان الفاظ کے ساتھ شائع ہوا تھا کہ :’’بحیثیت مجموعی دونوں ممالک کے میڈیا کا کردار انتہائی منفی ہے لیکن پاکستانی میڈیا کی بہ نسبت بھارتی میڈیاکے منفی کردار کا پلڑا بہت بھاری ہے۔ تجزیہ کرتے وقت کسی بھی فرد یا ادارے کے ارد گرد کے ماحول، مجبوریوںاور صلاحیت کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا بہت بڑا میڈیا ہے اور سائز میں امریکہ جیسے ممالک کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ پاکستانی میڈیا بہت چھوٹا میڈیا ہے ۔بھارت کاآزاد الیکٹرانک میڈیا جوانی کے منازل طے کرکے بڑھاپے کی طرف جارہا ہے جبکہ پاکستان کا آزاد الیکٹرونک میڈیاابھی لڑکپن کے مراحل سے گزررہا ہے۔ فلم انڈسٹری (جو اب کئی حوالوں سے میڈیا کا حصہ تصور کی جاتی ہے) کے میدان میں بھارت ،امریکہ کے ہالی وڈ سے مقابلہ کررہا ہے جبکہ پاکستان میں فلم انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ سوشل میڈیا کودیکھاجائے تونریندرمودی کا ٹوئٹر اکائونٹ دنیا کے سب سے زیادہ فالو کئے جانے والے اکائونٹس میں سے ایک ہے جبکہ ہمارے وزیراعظم ٹوئٹر پر نظر ہی نہیں آتے۔
بھارتی میڈیا اگر اپنی اسٹیبلشمنٹ کے موقف کے خلاف بولنا اور لکھنا چاہے تو وہ آزاد ہے اور کرسکتا ہے لیکن پاکستان میں میڈیا پی ٹی آئی کے دھرنوں کے بعد اسی کی دہائی جیسی غلامی کے دور میں پھر واپس چلا گیا ہے ۔ بھارتی میڈیا کے تحفظ کے لئے آزاد پارلیمنٹ اور آزاد عدلیہ موجود ہے لیکن پاکستانی میڈیا کو ان میں سے کسی کا بھی تحفظ حاصل نہیں ۔ پاکستان میں سینکڑوں صحافی مارے گئے لیکن کسی کے قاتل کو سزا نہیں ملی ۔ جو برائے نام عدالتی کمیشن بنے ، وہ بھی کسی کو انصاف نہ دلواسکے۔ اسی طرح پاکستانی میڈیااگر ہندوستان سے متعلق ناپختگی کا مظاہرہ کررہا ہے تو وہ ملک کے اندر بھی ایسا کررہا ہے اور بعض اوقات خود اپنے ملک کے لئے بھی بڑے نقصان کا موجب بن جاتا ہے لیکن ہندوستانی میڈیا داخلی حوالوں سے بہت ذمہ داری اورپختگی کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کا معاملہ ہو، چھوٹی ذات کے ہندوئوں کا ایشو ہو، جواہر لال یونیورسٹی کے طلبہ کا مسئلہ ہو ، ہر موقع پر ہندوستانی میڈیا قومی مفادات سے ہم آہنگ رپورٹنگ اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن پاکستان سے متعلق وہ بائولے پن کا شکار ہوجاتا ہے ۔ تاہم جب ہم دونوں ممالک کے حوالے سے مثبت رپورٹنگ اور تجزیے کا تجزیہ کریں تو پاکستانی میڈیا کا پلڑا بہت بھاری نظر آتا ہے ۔ ہمارے چھ سات بڑے میڈیا گروپس میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو ہندوستان کے خلاف نفرت کوبطور گروپ ہوا دے رہا ہو۔ بلکہ بعض میڈیا گروپس جن میں میرا جنگ گروپ بھی شامل ہے، کو ہندوستان کے ساتھ ضرورت سے زیادہ نرم رویے کی سزا ملی اور بعض پر ہندوستانی ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا جارہا ہے ۔ ماضی میں نوائے وقت گروپ ہندوستان کے خلاف جنگجویانہ ماحول بنانے کے لئے مشہور تھا لیکن نئی قیادت مل جانے کے بعد اس گروپ کا رخ بھی یکسر بدل گیا ہے ۔
اس کے برعکس ہندوستان کے تمام بڑے میڈیا گروپ بغیر کسی استثنیٰ کے پاکستان کے خلاف جنگجویانہ فضا پیدا کررہے ہیں ۔ پھر اگر معروف ٹی وی اینکرز کو دیکھاجائے تو پاکستان میں چند ایک ضرور ایسے ہیں کہ جو ہندوستان کے خلاف نفرت کا منجن بیچ رہے ہیں لیکن ان چند کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا میں درجنوں اینکرز ایسے ہیں کہ جو ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے ایسے بھرپور وکیل ہیں کہ ملک کے اندر انہیں ہندوستانی ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔ ہندوستان کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کا تناسب نکالا جائے تو پاکستان میں یہ تناسب بیس فی صد بھی نہیں لیکن اس کے برعکس بھارت کے بڑے اینکرز سب کے سب پاکستان کے خلاف یک زبان ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارت میں پاکستان سے متعلق مثبت سوچ کو فروغ دینے والے اینکرز کا تناسب نوے فی صد سے زیادہ ہوتا لیکن آپ کے ہاںیہ تناسب دس فی صد بھی نہیں جبکہ ہم جن حالات میں کام کررہے ہیں ، اس کی وجہ سے ہمارے ہاں یہ تناسب دس فی صد ہوتا تو بھی غنیمت ہوتی لیکن ہمارے ہاں مثبت بات کرنے والے اینکرز اسی فی صد سے زیادہ ہیں ۔ اسی طرح اگر بڑے لکھاریوں کا موازنہ کیا جائے تو ہمارے ہاں یہ تناسب پچاس فی صد سے زیادہ ہے ( اس پر حاصل بزنجو صاحب نے اضافہ کیا کہ پچاس نہیں اسی نوے فی صد سے زیادہ ہے ) لیکن آپ کے لکھاریوں میں ہمیں دو تین ناموں کے سوا کوئی نظر نہیں آتاجو پاکستان سے متعلق مثبت بات کہنے کی ’’غلطی‘‘ کا ارتکاب کررہا ہو۔ ہم نے اتنی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کہ اپنے سینمائوں میں آپ کی فلمیں چلادیں اور جب بجرنگی بھائی جان جیسی مثبت سوچ کی فلم آپ لوگوں نے بنا کر بھیج دی تو ہم پاکستانیوں نے اس کی آپ بھارتیوں سے بڑھ کر تعریفیں کیں لیکن اس کی آڑ میں آپ لوگوں نے اس کے بعد’’ فینٹم‘‘ جیسی فلم بنادی جس میں پاکستان کی تضحیک کی گئی ہے اور ایسی فلمیں بنانے سے باز نہ آئے کہ جن میں پاکستانیوں کو لاہور کے گندے نالے کی پیداوار کہا گیا ہے ۔
یوں اگرچہ دونوں ممالک کا میڈیا مجرم ہے لیکن بھارتی میڈیا بہت بڑا اور پاکستانی میڈیا بہت چھوٹا مجرم ہے ۔ خرابی میں بھارتی میڈیا کا حصہ بہت زیادہ اور پاکستانی میڈیا کا حصہ بہت کم ہے ۔ اب اصلاح کی کوششوں میں پہل بھی پاکستانی میڈیا کررہا ہے اور اصلاح کی کوششوں میں اس کا حصہ بھی بہت زیادہ ہے حالانکہ اصلاح کے لئے پہل ہندوستانی میڈیا کو کرنا چاہئے اور پاکستانی میڈیا کے دس فی صد کے مقابلے میں ہندوستانی میڈیا کا حصہ نوے فی صد ہونا چاہئے ۔ آپ لوگوں نے اصلاح میں پہل نہیں کی اور حصہ بقدر جثہ نہ ڈالا تو دونوں ممالک کے عوام نفرتوں کی آگ میں جلتے رہیں گے اور جس حساب سے چینلز کی ریٹنگ بڑھے گی ، اس حساب سے خطے میں نفرت اور تشدد بھی بڑھے گا ۔ اگرچہ دونوں ممالک کے عوام شعوری طور پر جنگ نہیں چاہتے لیکن یہ خطرہ موجود ہے کہ کسی وقت میڈیا ان کو بادل ناخواستہ جنگ پر مجبور کردے ۔ شکریہ‘‘
زیرنظر کالم سال رواں مارچ کے مہینے میں (12مارچ) میں روزنامہ جنگ میں شائع ہوا ۔بھارتی میڈیا یوں تو تسلسل کے ساتھ مذکورہ منفی کردار ادا کررہا ہے لیکن اوڑی کے واقعہ کے بعد جیسے وہ بائولا ہوکر بھونکنے کے ساتھ ساتھ کاٹنے پر بھی اتر آیا ہے ۔ ہمارے ٹی وی چینلز میں تو ٹوٹل ایک درجن کے قریب ایسے جعلی اینکرز یا صحافی سرگرم ہیں جواپنے صحافتی گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لئے جنگی فضا کی آگ پر تیل چھڑک رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے بھارتی میڈیا (چند کے سوا) بالاجماع اپنی بھڑکائی ہوئی آگ کے لئے ٹرکوں کے حساب سے ایندھن فراہم کر اور پھر اس پر ٹینکروں کے حساب سے تیل چھڑک رہا ہے ۔ اپنی بڑی آبادی اور بڑے رقبے یا پھر امریکہ جیسی طاقتوں کی دوستی کے زعم میں مبتلا ہو کر وہ شب و روز پاکستان پر حملے کا درس دے رہے ہیں لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ پاکستان تو پہلے سے حالت جنگ میں ہے ۔ فرق پڑے گا تو اتنا کہ جزوی حالت جنگ سے پاکستان مکمل جنگ میں داخل ہوجائے گالیکن ہندوستان کا کیا ہوگا۔ کیا ان بقراطوں نے سوچا ہے کہ امریکہ اور یورپ کی طرف سے ہندوستان میں اپنے شہریوں کو ایک ٹریول ایڈوائزری جاری ہونے سے ممبئی اسٹاک ایکسچینج کا کیا حشر ہوگا۔ جنگ ٹی وی ٹاک شو نہیں کہ اینکر اپنی مرضی سے شروع اور اپنی مرضی سے ختم کریں۔ اگر ہندوستان کی مرضی سے شروع ہوگا تو ضروری نہیں کہ اس کی مرضی سے ختم بھی ہو۔ اسی طرح یہ گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا کہ جنگ محدود ہوگی ۔ ہندوستان نے اگر جنگ چھیڑ دی تو پھر وہ محدود کبھی نہیں رہے گی ۔ ٹی وی ٹاک شوز میں تو اینکرز اور چند شرکا کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ بحث کو کس دائرے میں رکھیں لیکن جنگ کی حدود کا تعین کسی ایک بندے یا ایک فریق کے ہاتھ میں نہیں ہوگا۔ یہ خواتین وحضرات ہندوستان اور پاکستان کی آبادی کے موازنے کرکے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پورا ہندوستان تباہ نہیں ہوگا اورکوئی حصہ تو بچ جائے گا جبکہ خاکم بدہن پاکستان مکمل تباہ ہوجائے گالیکن یہ نہیں سوچتے کہ جنگ کی صورت میں ہندوستان کو دس پاکستانی بھی ایسے نہیں ملیں گے کہ جو اپنے ملک کے خلاف ہندوستان کا ساتھ دیں
لیکن ہندوستان میں لاکھوں کشمیری بلکہ شاید سکھ اور دلت وغیرہ بھی دہلی کے مقابلے میں اسلام آباد کا ساتھ دیں گے ۔ان کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ماضی کی جنگوں میں سوویت یونین مکمل طور پر جبکہ امریکہ کسی حد تک آپ کے ساتھ ہوا کرتا تھا لیکن اب روس اسی طرح بھارت کے ساتھ نہیں ۔ تب بھی چین پاکستان کا دوست تھا لیکن دونوں ایک دوسرے کے لئے اسی طرح لازم و ملزوم نہیں بنے تھے ، جس طرح اس وقت بن گئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تب پاکستان ایٹمی قوت نہیں تھا لیکن اب الحمدللہ وہ ایک ایٹمی قوت ہے ۔ سب سے بڑی بات کہ پاکستان کے ساتھ جنگ ہندوستان میں ادارہ جاتی اور علاقائی تفریق کو جنم دے گی لیکن بھارت وہ واحد نکتہ ہے کہ جس کے ساتھ تنائو یا جنگ سے پاکستانی یک آواز بن جاتے ہیں ۔ جنگ قابل نفرت فعل ہے اور اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے لیکن کچھ حوالوں سے یہ مصیبت پاکستان کے لئے غنیمت بھی بن سکتی ہے لیکن ہندوستان کے لئے یہ مصیبت ہی مصیبت ہوگی۔

Comments

Click here to post a comment