کابل حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان دو سال سے جاری مذاکرات کے بعد آج معاہدے پر باضابطہ دستخط ہوگئے ہیں۔ دستخط کی تقریب امن کونسل کے دفتر میں منعقد ہوئی جہاں دونوں اطراف کے نمائندوں نے حتمی مسودے پر دستخط کیے جبکہ اشرف غنی اور حکمتیار کے دستخط ابھی باقی ہیں۔ امریکہ نے اپنے ابتدائی ردعمل میں اس معاہدے کو خوش آمدید کہا ہے جبکہ کابل حکومت کے اہم ستون عبداللہ عبداللہ نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
معاہدے کی رو سے کابل حکومت تمام اہم فیصلوں میں حزب اسلامی سے مشاورت کی پابند ہوگی، اسیر کارکنان رہا کردیے جائیں گے، جنگجو فدائین کو سرکاری فوج میں جگہ ملے گی، تمام مقدمات واپس لے لیے جائیں گے اور طویل جنگ میں ہمدردوں کو پہنچنے والے مالی نقصان کی زر تلافی ادا کی جائے گی۔ اس کے بدلے میں گلبدین حکمتیار کابل حکومت کی قانونی حیثیت کو قبول کرکے ملک کے سیاسی عمل میں شامل ہوجائیں گے اور حزب اسلامی کے تمام عکسری ڈھانچوں کو ختم کردیا جائے گا۔
کہا جارہا ہے کہ معاہدے کی غیراعلانیہ دفعات کے مطابق امریکہ جلد گلبدین حکمتیار کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دے گا۔ یوں حکمتبیار کے منظرعام پر آنے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ختم ہوجائے گی۔ پاسپورٹ مل جائے گا اور وہ باآسانی غیرملکی سفر کرسکیں گے۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال میں حزب اسلامی ملک کے کسی بھی علاقے میں اپنا اثر و رسوخ نہیں رکھتی ہے۔ اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ سیاسی عمل کا حصہ بن کر حکمتیار ایک بار پھر پختون صوبوں میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ یہ فیصلہ 2001ء میں کرتے تو شاید آج ملک کے صدر ہوتے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ کابل پر ان کی حریف قوتوں کی گرفت انتہائی مظبوط ہے۔ دوسری طرف حکمتیار کے مزاج میں سیاسی تنوع بالکل بھی نہیں ہے اور وہ اتحاد کرنے اور جلد ہی توڑ دینے کے لیے مشہور ہیں۔ اس لیے یہ امید رکھنا کہ وہ بدلے ہوئے کابل میں زیادہ عرصے گزارا کرلیں گے، بہت مشکل ہے۔
تنازعات کا پرامن تصفیہ تلاش کرنا قابل ستائش ہے لیکن اصولوں پر سمجھوتہ کبھی بھی عزیمت کا راستہ قرار نہیں دیا جاتا۔ اگر حکمتیار کو امریکی فوج کے انخلا کی بنیادی شرط کے بغیر سیاسی عمل کا حصہ بننا تھا تو وہ یہ کام پہلے بھی کر سکتے تھے. نہیں معلوم کہ وہ 2001ء میں غلط تھے یا آج غلط ہیں۔
تبصرہ لکھیے