ہوم << ابوالاعلی کو ”تحقیق“ پسند ہے - حاشر ابن ارشاد

ابوالاعلی کو ”تحقیق“ پسند ہے - حاشر ابن ارشاد

%d8%ad%d8%a7%d8%b4%d8%b1 کہانی ہو کہ افسانہ، مضمون ہو یا خاکہ، تنقید سے کچھ بھی مبرا نہیں مگر تنقید بےسروپا لفظوں کو صفحے پر کھینچنے کا نام نہیں ہے۔ نقاد کے کندھوں پر معیار، اسلوب اور نکتہ آفرینی کا بوجھ ہوتا ہے۔ ہر جملہ دلیل نہیں ہوتا اور ہر دعوی سچ نہیں بنتا جب تک کہ منطق اور حوالوں کی بھٹی سے کندن ہو کرنہ نکلے۔
لینہ میری شریک حیات ہیں۔ میں انہیں اپنی 4/3 بہتر کہتا ہوں کہ صرف نصف بہتر کہنا ان کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کچھ دن پہلے ان کا افسانچہ ”خواجہ سرا کا مرنے کے بعد اپنی ماں کو خط“ چھپا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے الفاظ ضمیر کی وہ دستک بن گئے جنہوں نے کتنے ہی دلوں پر پڑے قفل کھول ڈالے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں اخبار کی اشاعت بھی سینکڑوں اور ہزاروں میں فخریہ گنی جاتی ہے اس کو لاکھوں لوگوں نے پڑھ ڈالا۔ بات پڑھنے تک نہیں رہی، دو صفحات پر لکھے اس نوحے نے آنسووں میں بھیگی ایسی نئی صبح کو جنم دیا جس نے ہر بیدار کے لیے زندگی کو دیکھنے کے زاویے بدل ڈالے۔
جہاں تحسین ہو وہاں تنقید خود چلی آتی ہے مگر تنقید کے ترکش سے اس پر بس ایک ہی تیر چلا اور میری ناقص رائے میں تیر چلا بھی اندھیرے میں اور اتنا بےڈھنگا کہ شک ہوا کہ تیرانداز نے اپنے دروناچاریہ کو انگوٹھے پہلے بھینٹ کیےاور کمان اٹھانا بعد میں سیکھا۔ دلیل ڈاٹ پی کے پر اشاعت کے بعد جناب عامر خاکوانی نے اس تنقیدی جائزے کو اپنی فیس بک وال سے ”انتہائی اہم“ کی سرخی کے تحت شیئر کیا۔ ابوالاعلی صدیقی صاحب کے اس مضمون کا ایک بہتر عنوان ”وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا“ ہو سکتا تھا، مگر انہوں نے اس کا نام ”افسانے کی حقیقت“ رکھنا مناسب خیال کیا۔ یہ نام بذات خود اس کی ”دلیل“ ہے کہ ان کی سخن فہمی کس مقام پر فائز ہے۔
لینہ سے پوچھا کہ وہ اس کا جواب لکھنا پسند کریں گی تو وہ ”ہم ہنس دیے، ہم چپ رہے“ کی تصویر بن گئیں۔ کرنے کو تو شاید یہی مناسب تھا مگر ہم نے ویسے زندگی میں اور کون سے مناسب کام کیے ہیں جو اب چپکے بیٹھے رہتے۔ یہی سوچ کر کچھ اس بارے آپ سے بانٹ لیتے ہیں۔
آغاز مضمون میں حضور نے کہا کہ سوشل میڈیا پر لکھنا وہ انتہائی مشکل سمجھتے ہیں۔ ان کی تحریر کو پڑھنے کے بعد اس جملے سے اس خادم کو بھی کما حقہ اتفاق ہے۔ سچائی کا کوئی مول نہیں۔ اس مشکل کا حل انہوں نےیوں نکالا کہ سب سے پہلے انہوں نے غامدی مکتبہ فکر کو باڑھ پر رکھ لیا ۔ فرماتے ہیں ”غامدی طبقہ فکر پاپولر بیانیے کے مطابق اپنے خیالات کو پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہے اور ایک ایسی ہی نئی کوشش”خواجہ سرا کا اپنی ماں کے نام خط“ کے نام سے ایک افسانہ ہے۔ معاملہ یہ ہےکہ اصل زندگی میں حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔“
جہاں تک میرا تعلق ہے، مجھے اس پر چنداں اعتراض نہیں کہ ابوالاعلی صاحب غامدی طبقہ فکر کو پاپولر بیانیے کا نقیب سمجھیں مگر انہوں نے کس طرح اس افسانے کا تعلق فکر غامدی سے جوڑا ہے، اس راز سے پردہ وہ ہی اٹھائیں تو اٹھائیں، ہم تو بس سر ہی دھن سکتے ہیں۔ اس لیے اس سازشی مفروضے کو یہاں چھوڑتے ہیں اور جناب کے اصل زندگی والے حوالوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
جناب نے امریکہ کے ”شماریاتی ادارہ“ کا حوالہ دے کر یہ فرمایا ہے کہ امریکہ میں پیدائشی خواجہ سرائوں کا تناسب لاکھ میں ایک سے کم ہے اور اسی شرح سے پاکستان میں اس حساب سے پیدائشی مخنث دو ہزار سے زائد نہیں ہو سکتے، کیونکہ تقریبا یہی تعداد امریکہ میں بنتی ہے۔ حضور نے ”شماریاتی ادارہ“ کا نام نہیں دیا نہ ہی تحقیق کے دورانیے کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے اس پر کیا تبصرہ کریں، تاہم ہم جواب میں انہیں ایک موقر تحقیق سے آگاہ کیے دیتے ہیں اور وہ بھی حوالوں سمیت۔ کیا یاد کریں گے۔
ولیم انسٹیوٹ نے جوں 2016ء میں ایک تحقیق شائع کی جس کو نیویارک ٹائمز سمیت تمام اخبارات نے رپورٹ کیا۔ اس رپورٹ سے ہرمن، گیٹس اور براؤن جیسے محققین کا نام وابستہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں چودہ لاکھ سے زائد تیسری جنس کے لوگ موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے ہر ایک لاکھ میں کم ازکم 600 لوگ۔ اب یہ ابوالاعلی صاحب کی بیان کردہ شرح سے کچھ نوری سال کا فاصلہ ہے۔ اب کیا اس پر اور تبصرہ کریں۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی سے اگست 2016ء میں تین مقالے اسی حوالے سے منظر عام پر آئے جس میں تیسری جنس کے حوالے سے جینیاتی، نفسیاتی اور حیاتیاتی بحث موجود ہے۔ یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ کوئی بھی مرد یا عورت جب یہ سمجھنا شروع کر دے کہ وہ ایک غلط جسم میں مقید ہے تو وہ متعین کردہ دو جنسی تعریف سے باہر ہو جاتا ہے۔ اگر کسی بزعم خود محقق کا یہ خیال ہے کہ خواجہ سرا کی تعریف پر صرف وہ پورا اترتا ہے جو کسی جسمانی کمی یا زیادتی کا پیدائشی سزاوار ہو تو اس کو تحقیق کے ہجے دوبارہ سے سیکھنے چاہییں۔
موصوف نے ایک بڑا کارنامہ یہ کیا کہ ایک مارکیٹ ریسرچ پراجیکٹ کا حوالہ دیا جو ایک ”مشہور“ فاونڈیشن کے لیے کیا گیا تھا۔ پراجیکٹ کا عنوان تھا، ”پاکستان میں خواجہ سراؤں کی زندگی کی مشکلات اور ان کا ممکنہ ازالہ“۔ اب اس پر ناطقہ سر بگریباں ہے۔ ان کی علمیت کے وارے جائوں جنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ مارکیٹ ریسرچ کس چڑیا کا نام ہے۔ آئیے پہلے تو آپ کو مارکیٹ ریسرچ کی مروجہ تعریف بتا دیں۔
“Marketing research is the process or set of processes that links the producers, customers, and end users to the marketer through information — information used to identify and define marketing opportunities and problems; generate, refine, and evaluate marketing actions”
اب کوئی ”پاکستان میں خواجہ سراؤں کی زندگی کی مشکلات اور ان کا ممکنہ ازالہ“ میں سے اس تعریف کا کوئی ایک جز بھی برآمد کر دے تو اس کو ستارہ امتیاز سے نوازنا چاہیے۔ پھر اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ ایک تحقیق جو مشکلات کے ازالے کے موضوع پر ہوتی ہے، اس میں سے نکلتا ہے خواجہ سرا کا ایک بھیانک ولن نما کردار، اغواکار اور قومی شناخت کا ایک عجیب و غریب حساب کتاب، جس کے فورا بعد غامدیت پھر نشانے پر آجاتی ہے۔ ذرا مقالے کا منتہا ملاحظہ کریں
”بچوں کے اغوا کار گروہ کو جو بے بس سمجھتا ہے، وہ خیالوں کی اس دنیا میں تو رہ سکتا ہے جہاں سے غامدی صاحب قرآنی آیات منسوخ کرتے رہتے ہیں مگر حقیقی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں.“
”حیراں ہوں دل کو رووں کہ پیٹوں جگر کو میں“
خواجہ سراوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے والا ”مارکیٹ ریسرچ پروجیکٹ“ اس دوران پہلے فوکس گروپ اور انٹرویو کا لبادہ اوڑھتا ہے، پھر سروے کا روپ دھارن کرتا ہے اور پھر اپنی زنبیل میں سے مشکلات ڈھونڈتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اگر مقتول خواجہ سرا ہوں اور قاتل غیر خواجہ سرا اور اگر قاتل دھرے جائیں تو اس سے ثابت ہوا کہ پولیس، ایم آئی، آئی بی، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی سب خواجہ سرائوں کے دست شفقت کے محتاج اور نگاہ کرم کے رسیا ہیں۔
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
تاہم ابھی بھی تان سلامت تھی، ٹوٹی تو اس انکشاف عظیم پر کہ اوسطا خواجہ سرا 39 سال کی عمر میں ایک کربناک موت کے ساتھ دنیا کو اور اپنی سرپرست غیر ملکی این جی اوز کو داغ مفارقت دے جاتے ہیں۔ اور پیچھے رہ جاتی ہیں ان کی یادیں اور مہلک جنسی بیماریاں۔ اس کے لیے انہوں نے ”ایک سروے کے مطابق“ کا انتہائی معتبر حوالہ بھی دیا، ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ پولیس کو بچے فراہم کرنے کا بین الصوبائی ٹھیکہ بھی خواجہ سرائوں کے پاس ہے۔ آخر دم انہوں نے درخواست کی کہ افسانوں کے ذریعے ان کے لیے ہمدردی جگانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ان کی درخواست پر ہم نے مذکورہ افسانے کو پھر سے کنگھالا کہ اس میں سے گرو اور اغواکاروں اور خواجہ سرا گروہوں کے لیے کوئی چھٹانک بھر ہمدردی کی اپیل برآمد کر سکیں مگر وائے ناکامی۔
خواجہ سرا کا خط ایک المیے سے عبارت ہے۔ ان بچوں کا نوحہ ہے جنہیں ان کے اپنے ماں باپ سمجھ نہیں پاتے۔ اس معاشرے کا مضمون ہے جو ان کی معصومیت کو کچل ڈالتا ہے۔ اس بھوک اور افلاس کی ننگی داستان ہے جو ڈار سے پچھڑ جانے والوں پر گزرتی ہے۔ اس سماج کی تصویر ہے جس میں جسم بیچنے کی سزا بھی موت ہے اور جسم نہ بیچنے کی سزا بھی موت ہے۔ اس دورنگی کی کہانی ہے جو ہر چہرے پر رقم ہے۔ یہ دکھ کے لفظ ہیں۔ آنسووں میں گندھے جملے ہیں جو کسی نے دل ویران کے صفحے پر بکھیرے ہیں۔ ایک جی کا غم ایک افسانہ بنتا ہے۔ اگر پورا شہر روشن ہے تو کہیں ایک گلی تاریک بھی ہوتی ہے۔ اس کا اندھیرا اسی گلی میں دیا جلانے سے کم ہوگا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر باقی ساری گلیاں نور میں نہائی بھی ہوں۔ درد کی شدت شماریاتی تجزیوں اور تحقیق کے پلندوں سے کم نہیں ہوتی۔ درد دوا مانگتا ہے۔ زخم مرہم کی حاجت رکھتا ہے۔ تم سب زندہ ہو تو ضروری نہیں کہ آج کوئی قبر نہ کھدی ہو۔ یہ سمجھنے کے لیے مگر ایک دل چاہیے جو کسی سروے کے جوابات میں نہیں ملتا۔
تحقیق کریں مگر پہلے اس کے حروف تہجی تو گن لیں۔ سلطان فلم کا گانا لڑکے بالے بجاتے ہیں۔ ”بے بی کو بیس پسند ہے“، جتنی اس میں بیس ہے اسے بس بے بی ہی پسند کر سکتی ہے اور جتنی حضور کے مضمون میں تحقیق ہے، اسے آپ ہی پسند کر سکتے ہیں۔ خوش رہیے۔