متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے خود کو سربراہ کہنے والے فاروق ستار اور پارٹی کے وہ کنوینر یعنیٰ ندیم نصرت جنہیں گزشتہ دنوں لندن میں مقیم دیگر تین ساتھیوں سمیت پارٹی پالیسی سے اختلاف برتنے پر باہر کردیا گیا تھا، ان دونوں پارٹی رہنمائوں میں لندن اور پاکستان ایم کیوایم کے عنوان سے دلچسپ جنگ چل رہی ہے، اور اس دوران حکومت، سیکورٹی ادارے، سیاسی و مذہبی جماعتیں خاص طور پر مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی گو مگو کی کیفیت میں مبتلا ہ یں اور فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کس پر یقین کیا جائے اور کس پر نہیں؟
کراچی کی سیاست پر اگر آپ کی تھوڑی بھی نظر ہے تو اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ایم کیوا یم کے بننے سے لے کر 22 اگست 2016ء تک ’بانی ایم کیو ایم‘ سے جدا پارٹی کا تصور تک ممکن نہ تھا، سات سمندر پار بیٹھ کر بھی بانی ایم کیو ایم کی پارٹی پر گرفت کا ان کے مخالف بھی اعتراف کرتے تھے، اس سب کے باوجود پارٹی کے کئی رہنما ان سے دلی اختلاف رکھتے تھے، کئی خوفزدہ تھے اور کئی وفادار اور ہم نوا تھے۔ بانی سے اختلاف رکھنے والی قیادت کا زیادہ تر حصہ اب پاک سرزمین پارٹی کیصورت اختیار کر چکا ہے۔
22اگست کی بانی ایم کیو ایم کی تقریر جتنی صاف و شفاف الفاظ سے مزین تھی، اس کے اگلے روز فاروق ستار کی پریس کانفرنس نے اتنا ہی زیادہ ابہام پیدا کردیا تھا، لیکن پاکستان بھر میں سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی اسے تازہ ہوا کا جھونکا اور آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا، سمجھ لیا اورایم کیوایم کی پاکستان قیادت کے خلاف کوئی بڑی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ فاروق ستار نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو ان کے نام سے رجسٹرڈ جماعت قرار دیتے ہوئے کئی ایک فیصلے کیے، جن میں بانی ایم کیو ایم کی مذمت اور لاتعلقی کی ساتھ ان کا نام آئین سے نکالنے اور پارٹی پرچم میں ترمیم شامل ہے، بعد ازاں قومی اور سندھ اسمبلی میں مذمتی قرادادوں تک پھیلا دیا گیا۔
فاروق ستار نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بانی ایم کیو ایم کے کئی متنازعہ بیانات پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ عوام انہیں معاف کرتے آئے ہیں مگر پاکستان مخالف بات کرنے اور نعرے لگانے کے عمل کو ہرگز پذیرائی نہیں ملے گی، اس سوچ کا پارٹی اراکین اسمبلی اور بڑی تعداد میں پارٹی کارکنوں نے دیا، جو سمجھ گئے تھے کہ بانی ایم کیوایم کے ساتھ اب کھڑے ہونے کا نقصان بہت شدید ہوگا، یہی وجہ ہے کہ پارٹی بانی کی ایک کال پر شہر سنسان بننے والی پارٹی نے انہیں مکھن سے بال کی باہر نکال پھینکا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے ایم پی ایز نے سندھ اسمبلی میں اپنے ہی قائد کے خلاف اور ملک کے ساتھ وابستگی کے حوالے سے جن جذبات کا اظہار کیا، اس پر یقینا ملک بھر کی سیاسی و مذہبی اور عسکری قیادت میں انہیں مزید موقع دیے جانے کا تاثر ابھرا ہے، کیوں کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک ڈیڑھ کروڑ سےزائد کی مہاجر آبادی کو قابو کرنے کا دم خم بھی صرف اس ہی جماعت میں ہے، تاحال دور دور تک کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو کراچی اور حیدر آباد کی پیچیدہ سیاسی اور سماجی صورتحال کو ویسے کنٹرول میں رکھ سکے جیسے گزشتہ کئی برس سے رکھی جاتی رہی ہے، جس سے سیاسی قیادت کے ساتھ کئی اور طبقات نے بھی فائدہ سمیٹا۔
اب جبکہ ندیم نصرت نے پارٹی کے بانی کی توثیق کے بعد اراکین اسمبلی کو نشستیں چھوڑنے اور ایم این ایز اور ایم پی ایز کومستعفیٰ ہونے کا کہتے ہوئے تنظیم اور شعبہ جات تحلیل کر دیے ہیں، جس پر فاروق ستار جو خود کو پارٹی کا سربراہ کہتے ہیں، نے کسی کے بھی استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پارٹی کی قیادت اور کارکن کیا کریں گے؟ کس کی بات کو درست مانیں گے؟ کس کا ساتھ دیں گے؟ پارٹی قیادت کی اس سیاسی رسہ کشی کا مطلب کیا ہے؟ قراردادوں کے بعد کیا بانی ایم کیو ایم کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ نہیں تو لندن قیادت خوف زدہ کیوں ہے؟ یا پھر دونوں رہنمائوں کے بیانات اور بانی کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا اشارہ ہے؟ شہر کی سیاست کیا ر خ بدل رہی ہے؟
میرے خیال سے ملک سیاسی صورتحال، بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی اور لندن میں منی لانڈرنگ کیس میں فردجرم عائد کیے جانے کی اطلاع کے بعد آخری دو سوالات کا جواب ہاں میں لگتا ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی بڑے سیاسی تجزیے کی ہرگز ضرورت نہیں، بس کڑیاں ملائیں تو بات سمجھ آجاتی ہے، لیکن اس سے پہلے بس اتنا معلوم ہونا شاید ضروری ہو کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا اصل والی وارث کون ہے؟ جس کا جواب شاید الیکشن کمیشن پاکستان میں پارٹی کس کے نام سے رجسٹرڈ ہے کہ عنوان سے مل جائے، جہاں پارٹی نمبر 123 متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نہیں، کنوینر ندیم نصرت ہیں۔ یعنی لندن اور پاکستان کی قیادت میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ سب کچھ فرینڈلی فائٹنگ ہے۔
تبصرہ لکھیے