ہوم << بعد از وقت حیرت - حنا نرجس

بعد از وقت حیرت - حنا نرجس

اب حیرت کی بات اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوگی کہ حیرت نمبر کے لیے ہمارا قلم رواں ہوا بھی تو کب؟ جب حیرت نمبر بذات خود ہمارے ہاتھوں میں آ وارد ہوا. جس نمبر کے لیے مہینوں سے تشہیر کی جا رہی تھی، قارئین اور قلمکاروں کو مسلسل یاد دہانی کروائی جا رہی تھی، ہمارا دماغ اس کے لیے چل کر ہی نہ دیا. حتی کہ ”گیارہواں گھنٹہ“ قریب آ لگا. اب اتنی افراتفری میں حیرت کا جو نمونہ تیار ہوتا وہ پتہ نہیں کسی کو قابلِ حیرت لگتا بھی یا نہ. سو ہم نے پورے عجز و انکسار سے ہتھیار ایک جانب رکھتے ہوئے بچوں کا اسلام کے حیرت نمبر کے لیے لکھنے کا ارادہ مستقلاً بالائے طاق رکھ دیا. آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر اسے طاق سے اتارا کب؟
ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے لیکن سنانے سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ یہ لطیفہ آئی ٹی کے دور سے پہلے کا ہے، ورنہ شاید مجھے لطیفے کی پوری قیمت نہ مل سکے. 🙂 تو ایک صاحب ابھی ابھی ایک بےحد ضروری خط کا جواب لکھ کر فارغ ہوئے تھے. لفافے کو گوند سے چپکایا ہی تھا کہ وہ دوست بالآخر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا جو پچھلے ایک گھنٹے سے بے مقصد گفتگو کر کے مسلسل ان کا سر کھا رہا تھا. انہوں نے خط کا لفافہ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا،
”یار، تم نکل رہے ہو، راستے میں چند سیکنڈ رک کر ذرا یہ خط پوسٹ کر دینا. مجھے شاید کام نمٹاتے ابھی کچھ دیر لگ جائے.“ وہ دوست خط لے کر رخصت ہو گیا.
ہفتہ دس دن بعد یونہی سر راہ ملاقات ہوئی تو بات برائے بات پوچھ بیٹھے،
”وہ خط پوسٹ کر دیا تھا نا؟“
دوست نے اطمینان سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور خط نکال کر انہیں پکڑا دیا. ”لو اتنی جلدی ہے تو خود ہی پوسٹ کر دو.“
بس... بس... اتنا مت ہنسیے، تھوڑی توانائی حیران ہونے کے لیے بھی بچا رکھیں. ہاں تو آپ کہیں گے حیرت نمبر کی تحریریں پڑھ کر دماغ چل پڑا، یہ تو صاف سمجھ میں آنے والی بات ہے اس میں کیسی حیرت؟ تو سن لیجیے، پڑھ کر نہیں محض شمارے کو دیکھ کر ہی کام ہو گیا 🙂
یہ امر خود حیرت نمبر کی طلسماتی طاقت پر بھی دلیل ہے کہ صرف اس کا نظارہ ہی سوتوں کو جگانے کے لیے کافی ہے!
وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز بدل جاتی ہے تو حیرت کا معیار کیسے یکساں رہ سکتا تھا؟ اب وہ دور گیا جب مدرسے میں پڑھتے ایک جن یا کھیتوں و قبرستانوں میں نظر آتی چڑیلوں کے قصے سنا سنا کر لوگوں کو حیران کیا جاتا تھا. اب یہ قصے چونکانے میں ناکام رہتے ہیں. ویسے بھی انسان خود جنوں اور چڑیلوں سے بھی بڑھ کر خوف کی علامت بن چکا ہے.
تو نیا زمانہ نئی حیرتیں اپنے ساتھ لایا ہے. پہلے لوگ وعدے کی پابندی اور امانت کی پاسداری کیا کرتے تھے. اب اگر کوئی عاریتاً لی ہوئی چیز سچ مچ آپ کو واپس کرنے پہنچ جائے تو حیرت و خوشی کے مارے کئی منٹ تک الفاظ آپ کے حلق میں ہی اٹکے رہتے ہیں. پھر یہ بھی تو دورِ جدید کا ہی تحفہ ہے کہ اگر وقتِ مقررہ پر لائٹ نہ جائے تو گھر کا ایک ایک فرد حیران ہو کر ایک دوسرے سے اظہار افسوس کرتا پھرتا ہے کہ ”لائٹ پتہ نہیں کیوں نہیں گئی آج؟“
چشم تصور سے دیکھیے کہ آپ سر جھکائے مطالعے میں مصروف ہیں یا لیٹے لیٹے اپنے موبائل کی دنیا میں کھوئے ہیں. دروازے پر دستک ہوتی ہے. آپ اگلے چند لمحوں میں دروازے میں ایک سر نمودار ہونے کی توقع کر رہے ہیں مگر بجائے اس کے دستک ہی دوبارہ اور پھر سہ بارہ سنائی دیتی ہے. آپ جھنجھلا کر اٹھتے ہیں. بڑبڑاتے جاتے ہیں. ”دروازہ کھلا تو ہے پھر بھلا کیوں دروازے میں جم کر کھڑا ہے؟ اونہہ... یہ حد سے زیادہ اخلاقیات بھی...“
ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر ماتھے پر تیوری ڈالے آپ آنے والے کو گھورتے ہیں.
”السلام علیکم! بھائی جان، طلحہ گھر پر ہے؟ مجھے اس سے کچھ کام ہے؟“
”وہ کرکٹ کھیلنے گیا ہے، وہیں گراؤنڈ میں مل لو اس سے.“
ماتھے کی تیوری اگرچہ کچھ معدوم ہوئی لیکن غصہ اتنا بھی نہیں گیا کہ آپ سلام کا جواب دینا ضروری سمجھتے.
وہ جانے کے لیے مڑتا ہے.
”اور ہاں دروازہ کھلا تھا تو اندر آ جاتے. کیوں بجا بجا کر دوسروں کے آرام میں خلل ڈالتے ہو؟“
”بھائی جان، میں نے مناسب وقفوں کے بعد بجایا تھا وہ بھی صرف تین بار. اگر اب بھی کوئی نہ آتا تو میں خاموشی سے پلٹ جاتا .میری امی کہتی ہیں دروازہ کھلا ہو تو بھی گھر والوں کی اجازت لینا ضروری ہے.“
”اچھا اچھا ٹھیک ہے.“ دروازہ بند کر کے پلٹتے ہوئے دل تو آپ کا بھی بات ٹھیک ہونے کی گواہی دیتا ہے مگر ناگوار حیرت اور جھنجھلاہٹ کی وجہ کیا ہے پھر؟ وہی عمومی رویہ نا جو لوگ ایک دوسرے کے گھر داخل ہوتے ہوئے روا رکھتے ہیں.
حارث کی پیاری امی نے یہ اصول بنا رکھا ہے کہ گھر کا ہر عاقل و بالغ و صحت مند فرد اپنے کپڑے خود استری کرے گا. وہ کاٹن پہننے کا شوقین ہے لیکن بیچارا رات کو ہی ٹینشن لے کر سوتا ہے کہ صبح کلف والا سوٹ پانی سپرے کر کے، جما جما کر استری کرنا ہو گا، وہ بھی لائٹ جانے سے پہلے پہلے. روزانہ وہ اس اصول کی صحت پر عدم اطمینان کا بآواز بلند اظہار کرتے، مرے مرے ہاتھوں سے سوٹ استری کر کے پہنتا ہے. سوچیں ذرا اس کی خوشگوار حیرت کا لیول کیا ہوتا ہو گا جب مہینے میں ایک آدھ بار وہ مندی مندی آنکھیں لیے بستر سے قدم نیچے رکھ رہا ہوتا ہے اور سامنے کرسی کی پشت پر نفاست سے استری کیا ہوا سوٹ تیار ملتا ہے. یہ کسی بھی ایسے دن ہو سکتا ہے جب امی کو ضرورت سے زیادہ پیار آ جائے یا بہن نے شام کو واپسی پر سموسہ لانے کی فرمائش کرنی ہو. کاش ایسا روز روز ہو سکتا! لیکن پھر حیرت تو نہیں ہو گی نا جبکہ حیرت ضروی ہے.
اور یہ بات تو کوئی اُس ”سزا یافتہ“ بندی/بندے سے پوچھے جس کے جسم کا ایک ایک سیل مسلسل ڈائٹنگ کے عمل سے گزرتے گزرتے اب میٹھے کا طلبگار بنا فریاد کر رہا ہو جبکہ اس نے گھر کے تمام چائے بنانے والے افراد کو سخت تاکید کی ہو کہ ”میری چائے میں چینی نہ ڈالنا“، جب کسی دن وہ بد دلی سے چائے کا پہلا گھونٹ بھرتا ہے تو بد دلی پلک جھپکتے میں میٹھی حیرت میں ڈھل جاتی ہے. کسی کی”غلطی“ اس کی روح تک کو سرشار کر دیتی ہے.
سنا ہے ایک وقت ایسا بھی تھا جب ٹی وی ہر بڑے شہر کے صرف چند گھروں میں آیا تھا اور وہاں بھی شروع شروع میں خواتین جھجھک آمیز حیرت سے ٹی وی پر نمودار ہوئے مردانہ چہروں سے پردہ کر کے گھونگھٹ نکال لیتی تھیں اور اب...
اگر کوئی شریف آدمی بتا بیٹھے کہ ہم لوگ ٹی وی نہیں دیکھتے تو لوگ حیرت سے منہ میں انگلیاں داب لیتے ہیں اور گھور گھور کر چیک کرتے ہیں کہ یہ ہیں تو دو آنکھوں، دو کانوں، دو ہاتھوں اور سیدھے پیروں والے انسان ہی نا؟ کہیں کسی قدیمی سیارے کی مخلوق تو غلطی سے یہاں لینڈ نہیں کر گئی؟
اخبار میں جب سب خبریں اچھی ہی ہوں اور ہر طرف چین ہی چین کی نوید ہو تو کلمہ شکر پڑھنے کے بجائے لوگوں کو اخبار کے مالکان کی طرف سے کسی گھناؤنی سازش کا گمان ہونے لگتا ہے. اسی طرح جب سرکاری محکموں میں جائز طریقہ کار سے ہی کام جلدی ہو جائے تو حیرت کے مارے بندہ کئی کئی دن ہواؤں میں اڑا اڑا پھرتا ہے. اگر ٹریفک وارڈن خوش اخلاقی سے پیش آئے تو بھی تشویش ملی حیرت ہونے لگتی ہے، کہیں میں ابھی تک بستر میں لیٹا خواب تو نہیں دیکھ رہا؟ کہیں آج میرا آخری دن تو نہیں؟ کہیں شہر پر کسی نے سحر تو نہیں پھونک دیا؟
بات بات پر حیران ہوئے چلے جانا بجائے خود حیرانگی کی بات ہے اور زیادتی کسی بھی چیز کی ہو نقصان دہ ہوتی ہے. لہذا تاکید کی جاتی ہے کہ منہ میں دابی انگلیاں نکال کر قدرے آرام دہ حالت میں آ جائیں. ابتدا میں سنائے گئے لطیفے کو پھر سے ذہن میں تازہ کریں اور بس ہنستے مسکراتے رہا کریں. 🙂

ٹیگز