کسی معاشرے کا بگاڑ اس وقت ہی ختم ہو سکتا ہے جب اہل قلم اور دانش و بینش رکھنے والے افراد سوسائٹی کی خامیاں حقائق کی بنیاد پر پرکھیں اور اسے دور کرنے کے لیے وہ اکسیر تجویز کریں جس سے حقیقی معنوں میں معاشرے کی تطہیر کی جا سکے۔ یہ کام اگر مخصوص ذہنیت اور مفادات کے حصول کے لیے کیا جائے تو یہ دراصل معاشرہ دشمن فعل ہوتا ہے، قلم کا غلط استعمال لوگوں کو نہ صرف صحیح راستے سے ہٹاتا ہے بلکہ ذہنوں کو پراگندہ اور خیالات کو منتشر کر دیتا ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے پنجاب یونیورسٹی میں کردار کو بالعموم موضوع بحث بنایا جاتا ہے، میڈیا میں ایک بڑی تعداد کا تعلق پنجاب یونیورسٹی کے فاضلین سے ہے، اس لیے بھی الیکٹرانک، پرنٹ اور بالخصوص سوشل میڈیا میں اسے زیربحث لایا جاتا ہے. بلاگ ویب سائٹس میں اس پر تنقیدی و توصیفی مضامین آتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے. مبنی برانصاف تنقید بھی قابل قبول ہے اور جمعیت اپنی اصلاح اور بہتری کےلیے ہر وقت تیار رہتی ہے اور ایسی تجاویز و تنقید کو خوش آمدید کہتی ہے مگر بعض اوقات تنقید پروپیگنڈے میں تبدیل ہو جاتی ہے، سچائی اور حقائق سے دور، دروغ گوئی اور کھوکھلے دعووں سے بھرپور۔
بایاں بازو کے بعض ناقدین جمیعت مخالفت میں تمام حدیں عبور کر دیتے ہیں، اور اخلاقیات کے تمام پیمانوں کو روندتے ہوئے اسے درندہ صفت وحشی تنظیم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اس طبقے کے لیے ضیاء الحق اور جمعیت مشترکہ غم ہیں، اس لیے گاہے یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا کہ جنرل ضیاءالحق کا جنم اسلامی جمیعت طلبہ کے بطن سے ہوا یا جنرل ضیاء الحق کے دور میں جمعیت کی بدمعاشی کو فروغ ملا۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے. جمعیت نے نہ صرف ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی بلکہ اس میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں. جماعت اسلامی کے موجودہ سیکرٹری اطلاعات اور سابق ناظم اعلی امیرالعظیم نے تو اسی دور میں پہلی دفعہ نظامت اعلی کا حلف ہی جیل میں اٹھایا. آمریت کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے ضیاء الحق نے طلبہ یونین پر پابندی لگا دی جہاں جمعیت کو غلبہ حاصل تھا۔ جمعیت پر ڈکٹیٹرشپ کا الزام لگانے والے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ پنجاب یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس یونین انتخابات میں جمعیت ہمیشہ جیتی رہی، جاوید ہاشمی سمیت کئی سیاسی چہرے جمعیت کی اسی جیت کی دین ہیں. جمعیت کبھی کبھار کہیں انتخابات ہاری بھی تو کھلے دل سے نتائج کو قبول کیا گیا مگر کیا کیجیے کہ یونیورسٹی کے اندر جمعیت کی مقبولیت اب بھی سرخ ماضی رکھنے والے لبرلز کو کھٹکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ضیاءالحق کے کچھ اسلامی اقدامات سے سوویت یونین کے سابق معتقدین اور سرمایہ داری نظام کے موجودہ مریدین تلملا ہوئے ہیں، سوویت یونین کی شکست و ریخت کو وہ بھولے نہیں ہیں مگر یہ اقدامات ضیاء الحق نے جمعیت کے کہنے پر نہیں کیے تھے، وہ تو خود اس کے عتاب کا شکار تھی۔
گاہے ایسا نقشہ کھینچا جاتا ہے جیسے 40 سال پہلے پنجاب یونیورسٹی کے حالات فاٹا جیسے تھے، یا پنجاب یونیورسٹی اس وقت جنوبی وزیرستان میں ہوتی تھی یا پنجاب اور سندھ کے کچے میں مار کٹائی، جبر و تشدد، اغوا، ٹارچر اور اس جیسے دیگر جرائم کا مرکز پنجاب یونیورسٹی تھی اور یہ سب جمعیت کی سرپرستی میں ہوتا تھا۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس وقت اگر یونیورسٹی میں انڈر ورلڈ جیسا ماحول تھا تو پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا چنے بیچ رہے تھے۔ جمعیت نے بھٹو دور میں اصل اور حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کیا، بھٹو صاحب نے روک تھام کیوں نہ کی جبکہ ان کے دور عروج میں بھی پنجاب یونیورسٹی میں یونین انتخاب جمعیت ہی جیتی اور وہ اپنی تمام تر مقبولیت اور حکومتی طاقت کے باوجود کچھ نہ کر سکے. اس جیسے الزامات کے حق میں کوئی ثبوت نہیں دیے جاتے کہ کوئی ثبوت یا ایسے کوئی حقائق ہیں ہی نہیں۔ تحقیق اور ثبوت کے بغیر الزام در الزام کی تکرار یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس طرح کی باتوں کی حقیقت کیا ہے۔ جمیعت کے کارکنان سے انفرادی دائرے کے اندر غلطیوں کا سرزرد ہونا عین ممکن ہے کہ وہ بھی انسان اور خطا کے پتلے ہیں مگر جمعیت ہمیشہ سے تعلیمی اداروں میں تشدد کے خلاف رہی ہے۔ کوئی بھی تنظیم تشدد کی بنیاد پر اپنا وجود برقرا ر نہیں رکھ سکتی جبکہ جمیعت 1947ء سے لے کر آج تک ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں نہ صرف موجود ہے بلکہ طلبہ کو اسلام کی حقیقی دعوت سے روشناس کرانے میں ہمہ وقت مصروف ہے۔ کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ صرف جمعیت ہی واحد طلبہ تنظیم ہے جو کراچی سے پشاور اور گوادر سے چترال تک تعلیمی اداروں میں موجود ہے جبکہ دوسری تنظیمیں صوبے کیا اب شہروں اور مخصوص علاقوں تک محدود ہو گئی ہیں۔
جمیعت پر ایک الزام طلبہ و طالبات کو ہراساں کرنے کا لگایا جاتا ہے۔ یہ بھی بےبنیاد اور بودا الزام ہے، اخلاقی کردار اور تربیت جمعیت کا وصف ہے جس کی وجہ سے بدترین نظریاتی و سیاسی مخالف بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور جمعیت کے حق میں بات کرتے ہیں۔ اور خود دیگر طلبہ تنظیموں کے سابقین گواہی دیتے ہیں کہ جمیعت کے کارکنان دیگر طلبہ تنظیموں کے کارکنان سے بہتر ہیں۔ یہ جمیعت کی اخلاقی فتح ہے. حسن نثار جو سیاسی و نظریاتی مخالف ہیں، بےباکی سے سب پر تنقید کرتے ہیں، ان کی وہ ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے جس میں وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ بیٹیوں کی حفاظت کے لیے یونیورسٹی میں جمیعت کا ہونا لازم ہے۔ الحمد اللہ ثم الحمد اللہ کہ جمیعت کے نوجوان بےداغ کردار کے حامل ہیں، پاکیزہ ماحول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ویسا ماحول اپنے دیگر طلبہ دوستوں کو فراہم کرتے ہیں۔
اسلامی جمیعت طلبہ کے پروگرامات میں اگرچہ یونیورسٹی کی طالبات بھی شریک ہوتی ہیں تاہم اس میں صرف طالب علم ہی کارکن بن سکتے ہیں. خود اپنے نظم اور کارکنان کو اس طرح کے اعتراضات اور اختلاط سے بچانے کےلیے اسلامی جمعیت طالبات کا نظم الگ ہے جو یونیورسٹی میں کام کرتا ہے اور طالبات اس کے بینر تلے موجود ہوتیں، کام کرتی ہیں. کوئی طالبہ براہ راست جمعیت کی کارکن بن سکتی ہے نہ اس کے بینر تلے کام کر سکتی ہے کہ ان کی تنظیم ہی الگ ہے، ایسے میں اگر کوئی کسی ”مظلوم لڑکی“ کو جمیعت کا کارکن بتائے تو اسے تجاہل عارفانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
میں نے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو جمیعت سے تعارف اس وقت ہوا جب کچھ طالب علموں نے بغیر کسی پہچان کے فارم پُر کرنے میں مدد کی۔ یونیورسٹی میں طلبہ حقوق کی بات ہو، طلبہ مسائل حل کرنے ہوں، فیسوں میں اضافے کے خلاف میدان میں نکلنا ہو یا طلبہ و طالبات کی تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کےلیے کونسلنگ اور عملی مدد ہو، جمیعت بقیہ تمام تنظیموں سے آگے نظر آتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بُک فئیرز، تعلیمی سیمینار، ورک شاپس، گائیڈنس کیمپ، کیرئیر کونسلنگ، قرآن لیکچرز، اسٹڈی سرکلز، ویلکم پارٹیز اور سپورٹس فیسٹیول ہی اسلامی جمیعت طلبہ کی اصل پہچان ہے، جمعیت سے وابستہ ہر کارکن کو اس پہچان پر فخر ہے اور وہ اسی پہچان کے ساتھ آگے بڑھنے کےلیے پرعزم ہے. جمہوری ادوار کی چال بازیاں ہوں یا آمروں کی ظالمانہ پالیسیاں، جمعیت پورے قد کے ساتھ کھڑی رہی ہے، میدان میں موجود رہی ہے، آئندہ بھی مخالفین کی خواہشات اور پروپیگنڈے کے باوجود موجود رہے گی، اپنا مثبت کردار ادا کرتی رہے گی۔
تبصرہ لکھیے