ہوم << کھیلوں کی ماں’ کبڈی‘ کی ابتر صورتحال - محسن حدید

کھیلوں کی ماں’ کبڈی‘ کی ابتر صورتحال - محسن حدید

محسن حدیدا پرسوں ایک خبر سنی کہ انڈیا نے رواں سال پاکستان کو کبڈی ورلڈکپ میں شرکت کی اجازت نہیں دی. آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ورلڈ کپ تو ساری دنیا کا ہے مگر اجازت انڈیا نے دینی ہے؟ تو بدقسمتی یہ ہے کہ اجازت واقعی انڈیا نے دینی ہے کیونکہ انڈیا اس کا ہمیشہ کے لیے میزبان ہے، اس کی بنیادی وجہ فنڈز اور کبڈی کے لیے انڈین حکومت کی سنجیدگی ہے. 2010ء میں انڈیا نے ہی اس ورلڈکپ کا اجرا کیا تھا اور اب تک وہی اس کو منعقد کرتا ہے. انڈین پنجاب کی سرکار اس حوالے سے خاص اہتمام کرتی ہے اور تمام فنڈز بھی وہی جاری کرتی ہے. ٹورنامنٹ ہمیشہ انڈین پنجاب کے شہروں میں منعقد ہوتا رہا ہے. 2015ء میں انڈین پنجاب اور ہریانہ میں سکھوں کے احتجاج کی وجہ سے اس ٹورنامنٹ کا انعقاد نہیں ہوسکا تھا اس بار بھی یہ ٹورنامنٹ گجرات کے شہر احمد آباد میں منعقد ہوگا، اسی وجہ سے ریاستی حکومت نے پاکستانی ٹیم کو سکیورٹی تھریٹ قرار دے کر اس کی میزبانی سے انکار کردیا ہے. یہ ایک سیدھا سادہ سیاسی فیصلہ ہے.
مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب کبڈی سکول کھیلوں کا لازمی حصہ تھی. پرائمری سکول کی سطح تک بھی کبڈی کھیلی جاتی تھی. پانچویں کلاس میں تھے جب ایک دن ماسٹر صاحب نے میرا بازو پکڑا اور کہا کہ اسے بھی کبڈی ٹیم میں شامل کرلو. شروع سے قد لمبا اور مضبوط جسم تھا اس لیے ماسٹر صاحب کی نظر انتخاب مجھ پر ٹھہری، ویسے بھی باتوں اور کھیل کود کے لیے ہم ہر وقت حاضر تھے اور جوتے بھی اسی پر کھاتے تھے. اس کے علاوہ ماسٹر جی سے زیادہ ہماری جسمانی طاقت سے کون واقف ہوتا کیونکہ ماسٹر جی کی بھینس کے لیے چارے کی بھری پنڈ (گٹھا) ہم ان دنوں بھی اٹھا لیا کرتے تھے. یہ ان دنوں کی بات ہے جب 12، 13 سال کے لڑکے پرائمری سکول میں عام نظر آتے تھے. ہمارے لیے یہی کافی تھا کہ اب ٹریننگ کے نام پر کلاس سے جلدی چھٹی مل جاتی تھی. ایک ہفتہ سکول کے ساتھ موجود خالی کھیتوں میں ہمیں ٹریننگ دی گئی. ٹریننگ تو خیر کیا دینی تھی ہم خود ہی جاپھی (سٹاپر) تھے اور کبھی ہم ہی سائی (ریڈر) بن جاتے تھے. گھر سے بھی دودھ کا اضافی گلاس ملنے لگا کہ منڈے نے کوڈی کھیلنی ہے. جب فیصلہ کن دن آیا تو ماسٹرصاحب نے مجھے جاپھی (سٹاپر) بنا دیا. کھیل شروع ہوا، ریتلی مٹی تھی اور گرائونڈ کے اطراف پانچ سکولوں کے (پانچ پرائمری سکولوں کے درمیان مقابلے ہوتے تھے، اسے سنٹر کہتے تھے) کے ٹیچرز اور سٹوڈنٹس موجود تھے. ہمارا میچ ہمسایہ گائوں کی ٹیم کے ساتھ تھا، اس میں کافی سارے پٹھان لڑکے تھے جن کی اپنی ہیبت تھی. ان میں سے ایک لڑکا بہت تیز تھا، ہم اسے طاری طاری کہتے تھے. میں نے 3-4 بار پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ تگڑا تھا. مزے کی بات ہے میرے علاوہ کوئی اسے ہاتھ ہی نہیں ڈال رہا تھا. وہ آتا اور پوائنٹ لے کر نکل جاتا. ہم تھوڑے جنونی تھے، ویسے بھی مجھے اس کی مسکراہٹ بہت چھبتی تھی، جب وہ فنش لائن کے پاس جاکر للکارتا تو بہت غصہ آتا. وہ فزیکل گیم بھی کرتا تھا، اچھا خاصا دھکا شکا مارتا تھا مگر میچ کے آخری لمحات میں میں نے اس کی کلائی پکڑ ہی لی. مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے جب اس کی کلائی میرے دونوں ہاتھوں میں تھی، بہت زور تھا اس میں مگر میں نے بھی اپنی ساری توانائی لگادی، آمنے سامنے کھڑے تھے ہم دونوں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے، کوئی 10 سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ تالیاں بجنے لگ گئیں. ریڑھ کی ہڈی میں جو جوش بھری لہر تب دوڑی تھی وہ بہت کم دوڑتی ہے اور ساری زندگی یاد رہتی ہے. طاری کی آنکھوں میں توہین اور بےبسی کا جو احساس میں نے تب دیکھا تھا، اس نے مجھے بہت سکون اور طاقت بخشی، بہت تڑپا اور بہت مچلا مگر 30 قیمتی سیکنڈ گزر چکے تھے. میچ تو ہم ہار گئے مگر وہ لمحہ کبھی نہیں بھولا جب ریفری کی سیٹی پر میں زمین سے اچھلا تھا اور ماسٹر صاحب نے 10 روپے کا انعام دیا تھا بلکہ لڑکوں نے تو باقاعدہ نعرے بھی لگائے تھے. وہ تحسین اور فخر پھر پوری زندگی کام آیا. میں اس کے بعد شاید ہی کبھی کبڈی کھیلا ہوں مگر ایک اعتماد جواس ایک سٹاپ سے ملا، وہ اثاثہ بن گیا. پہلی دفعہ احساس ہوا کہ کوشش کریں تو کسی کو بھی آپ ہرا سکتے ہیں. 5-6 دفعہ طاری سے ملی ہزیمت پر ایک دفعہ اسے شکست دینے کا فخربہت بھاری تھا. طاری تو خیر بعد میں بہت آگے تک کھیلا، ہم اسے ہیرو مانتے رہے اور ہائی سکول کے دنوں میں اس کے میچز دیکھنے تحصیل اور ضلع کی سطح پر جاتے رہے. ہمارے پی ٹی صاحب (ہائی سکول کے) کبڈی سے خاص محبت رکھتے تھے، وہ دور دور سے لڑکے چن کے لاتے اور انہیں کلاس میں داخلہ دیتے، ان کی حاضریاں پوری کرتے اور پھر ان کو کھلاتے. 90 کے عشرے میں ہمارے شہر کی ہائی سکول کی ٹیم ڈویژنل سطح کے مقابلے جیتتی رہی. اکثر لڑکے فرضی سٹوڈنٹ ہوتے اور کھیل کے بعد سکول سے تیتر ہوجاتے. اب کئی سال ہوگئے، کبڈی کی ٹیم ہی نہیں رہی، ایک تو کورس کی لمبی چوڑی کتابیں، اوپر سے چھوٹی عمر کے کمزور جسموں والے بچے، رہتی کسر اساتذہ کے حوصلہ شکنی پر مبنی رویے نے پوری کردی ہے.
بات ملکی سطح کی تھی اور مجھے اپنا بچپن یاد آگیا. 2014ء ورلڈکپ فائنل کے موقع پر میاں شہباز شریف صاحب نے فرمایا تھا کہ اگلا ورلڈ کپ گورنمنٹ آف پنجاب منعقد کرائے گی مگر افسوس وہ بھی جوش خطابت نکلا. کیا تھا اگر میاں صاحب یہ وعدہ پورا کر دیتے. ہزاروں ارب کے بجٹ سے 10-15 کروڑ کھیلوں کی ماں پرنچھاور نہیں کیے جاسکتے تھے. اگر ایسا ہوجاتا تو مجھ جیسے کروڑوں پاکستانی اپنی محبوب کھیل سے کتنا لطف اندوز ہوتے اور کبڈی کا کلچر کتنا پروموٹ ہوتا. جب لالے عبیداللہ جیسے شیر جوان کا سینہ پالے جلالپوریے (انڈیا کا ٹاپ سٹاپر) سے ٹکراتا اور ان میں سے ایک للکاریں مارتا ہوا میدان میں دھاڑتا، دوسری طرف سے گگن دیپ گگی جیسے مہان ریڈر کی کلائی مشرف جنجوعہ کے ہاتھ میں ہوتی، اکمل شہزاد ڈوگر جسے دنیا فلائنگ ہارس کے نام سے جانتی ہے جب منگت سنگھ منگی جیسے چست سٹاپر کو غچہ دے کر نکلتا ہوا فنش لائن کراس کرتا تو تماشائی جوش سے سٹیڈئم سر پر اٹھا لیتے. پرنس آف پاکستان بابرگجر جب یاروندر سنگھ یادیو کو پالے میں اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا یا سجاد گجرسکھبیر سراواں کے ساتھ بھڑ رہا ہوتا یا پھر شفیق چشتی بلویر سنگھ پالا سے پوائنٹ کے لیے لڑتا ہوا نظر آتا، رانا علی شان ہو، عرفان مانا ہو، اختر پٹھان، صدیق بٹ، محسن واہلہ یا پھر انڈیا کا سندیپ لدھڑ ہو، وقاص ہریانے والا ہو، کیا کھیل پیش کرتے ہیں یہ شیرجوان، کس کس کا نام لکھوں مگر افسوس اب ہم صرف سیاست کی وجہ سے ان مناظر سے محروم رہیں گے. افسوس انڈیا کی حکومت پر جسے نفرت کی سیاست کے علاوہ کوئی کام نہیں. بندہ پوچھے اگر پاکستان کی ٹیم نہیں کھیلے گی تو انڈیا مقابلہ کس سے کرے گا. دنیا میں دوہی تو ٹیمیں ہیں. بہرحال اس میں پاکستان حکومت کا رویہ بھی کم افسوسناک نہیں ہے جو اپنے وعدے پورے نہیں کرسکی، کاش کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور ماں کھیل کبڈی تباہی سے بچ جائے. سوچتا ہوں اگر حکومت نے اب بھی توجہ نہ دی تو یہ محبوب کھیل اگلی نسل تک شاید ویسے ہی ختم ہو کر رہ جائے. تو کیا کبڈی اب صرف کتابوں میں رہ جائے گی؟ کیا ہم اپنے بچوں کو صرف کہانیاں ہی سنائیں گے ان میلوں ٹھیلوں کی جہاں ہم دال روٹی اور کبڈی کے شوق میں پہنچ جایا کرتے تھے؟ کیا اب ہمارے ہیروز ڈورے مون اور بین 10 بن جائیں گے.

Comments

Click here to post a comment