ہوم << جہیز ایڈیشن - مولوی انوار حیدر

جہیز ایڈیشن - مولوی انوار حیدر

مولوی انوار حیدر یہ حل نہ ہونے والی الجھن ہے کہ اگر منٹو صاحب وغیرھم اجمعین کی متنازعہ تحریروں کی مذمت کی جاوے تو بعض خوامخواہ حمایتیوں کو بےچینی لگ جاتی ہے. کبھی کہتے ہیں سرکار انہوں نے تو جو دیکھا وہی تحریر کیا اُن کا کیا قصور، کبھی کہتے ہیں جی مولوی صاحب مٹی پائو اُس کی غلط باتوں کو مت پھیلائو، اُس کی پبلسٹی ہوگی، لوگ مزید اُس کو پڑھیں گے، حیرت ہے یار یہ پل پل بدلتا موقف فکر ہے یا کہ بجلی کا شیڈول، اور الٹی گنگا ہے کہ برائی کو بیان کرنا تو ٹھہرا ادب جبکہ برائی کی مذمت کرنا ہوا شدت پسندی، کمال ہی کمال، نیز ایسی بھی کیا افسانہ نگاری جو سمجھ نہ آئے. سادہ سا سوال ہے کہ اِس فحش نگاری اور لیپاپوتی کی تعریفیں کرنے والوں نے منٹو وغیرھم اجمعین کی کتب امام مسجد کی جانب سے مذمت کے بعد جامع مسجد کے دروازہ پہ لگے بک سٹال سے خرید کے پڑھیں یا کہ آپ ہی آپ جامعہ لاہور کی لائبریری سے حاصل کرکے مطالعہ کیا؟ اندر و اندر برائی پھیلتی رہے نو پرابلم، کوئی اُس کی مذمت کردے تو بولتے ہیں خاموشششش کچھ مت کہو، تشہیر ہوگی!
آئے بندگانِ خدا ! کیوں خلقِ خدا کو دھوکہ دیتے ہو، برائی کی مذمت فطری عمل ہے، شرعی امر ہے، خواہ مخواہ حمایتیوں نے افسانہ نگاریاں تو بہت پڑھیں، یہ نہ پڑھا کہ جو لوگ عوام میں بےحیائی کی باتیں پھیلاتے ہیں، اُن کے لیے جہنم کی آگ ہے اور یہ کہ جو آدمی لوگوں کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ گھڑے اُس کا حشر جھوٹوں کے ساتھ ہوگا، مزید یہ کہ اللہ کریم نے گناہ کی مذمت اور روک تھام کرنے کا حکم فرمایا ہے، اُس کو لِکھ لِکھ کے چھاپنے بیچنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا.
حقیقی جرائم کی منظرکشی ہو یا افسانوی کردار سینکڑوں لوگ اِن فلموں ڈراموں سے ڈکیتی چوری کا فن سیکھتے ہیں، نت نئے گر حاصل کیے جاتے ہیں، لڑکے اور لڑکیاں اِنہی تمثیلی ڈراموں اور فلموں کے زیرِاثر ہوکے بگڑتے ہیں، فرینڈشپ کلچر، ماں باپ سے بغاوت، گھر سے بھاگنا، بےنکاحی مائیں، ایدھی مرحوم کا جھولتا جھولا، گندگی کے ڈھیر پہ پڑی نومولود بچوں کی لاشیں، یہ سارا اثر اِسی تمثیلی ڈرامہ نگاری کا ہے. یہ سب کچھ آرٹ اور ادب کے نام پہ پیش کیا گیا اور معاشرے کو بےادب بنا دیا گیا.
ایک صدی قبل جب حیاء کا ماحول تھا، یہ سب بند کمروں سے تحریری صورت میں باہر لایا گیا، بےحیائی کے خفیہ طور طریقے عام کیے گئے، برائی کو نارمل بنا کے پیش کیا گیا، کمینوں کو معاشرے کا حصہ اور شریفوں کو جری بنادیا گیا، چوری پہ سینہ زوری یہ کہ مذمت کرنے والوں کی مرمت کی جانی لگی، برائی کو برا کہنے والوں کو چپ کرایا جانے لگا، مگر برائی کی مذمت فطری عمل ہے اور فطرت کبھی روکی نہیں جاسکتی، اِسی نہی عن المنکر کی برکت ہے کہ کالا گوشت اور ٹھنڈی شلواریں آج بھی نیلے لفافوں میں بند کرکے اٹھانا پڑتی ہیں. صدارتی ایوارڈ اور تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والی کتب کرلزگالج لائبریری میں الائوڈ نہیں ہیں، نام نہاد تخلیقی ادب تکیوں کے نیچے چُھپا کے رکھا جاتا ہے. بےادبیوں کو ادب ثابت کرنے کے لیے سو سو جتن کرنا پڑتے ہیں، اگر یہ ادب ہے بلکہ تخلیقی ادب ہے تو بہن بیٹیوں سے چھپایا کیوں جاتا ہے؟ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ نوعمری میں یہ سب عمدہ تربیت کے لیے پڑھادیا جائے اور شادی کے وقت جہیز میں تحفتاً دیا جائے تاکہ نوبیاہتا جوڑوں کو معاشرہ میں پھیلی برائیوں کا پتہ چلے، اُن سے بچا جاسکے اور یہ ادبی علم نئی نسل کو منتقل ہوسکے.
[pullquote]لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم[/pullquote]