ہوم << محبت کی ترتیب سمجھنے میں کوتاہی - اختر عباس

محبت کی ترتیب سمجھنے میں کوتاہی - اختر عباس

اختر عباس بات بظاہر کچھ بھی نہیں تھی مگر میں اندر تک لرز گیا تھا۔ میں نے اپنی دونوں بیٹیوں کی طرف دیکھا وہ جوس اپنے اپنے بیگوں میں ٹھونس رہی تھیں۔ بسکٹ کے ڈبے وہ بیک پاکٹ میں رکھ چکی تھیں، مجھے گاڑی چلانا مشکل ہو رہا تھا۔ پائوں کلچ پر رکھتا تو بریک دب جاتی اور بریک دباتا تو ریس بڑھ جاتی۔ یہ بالکل اچانک ہوا تھا۔
بہت برس ہوئے میں نے جانا کہ کسی کو اچانک خوشی عطا کرنے سے کائنات کا رب بہت خوش ہوتا ہے۔ کسی کی توقع سے زیادہ عطا، کسی کی آرزو اور تمنا سے ذرا زیادہ تحسین، بن مانگے مدد کے ساتھ احسان جتائے بغیر بہتر رویہ، مسکراتے ہوئے لفظ، اچھی مہمانداری، بروقت عیادت، غرض اپنے تئیں خوشی کے کئی راستے سوچ لیے تھے اور برسوں سے جب جب موقع ملتا، چاہے وہ لمبے وقفے بعد میسر آتا، اللہ اور اس کے رسول ؐکے لفظوں کو محبوب جان کر محبوب رکھا۔ انسانی زندگی کی تعمیر کو اپنا مقصد زندگی جانا تاکہ میرے اللہ جی مجھ سے راضی رہیں، گھر میں کسی صبح جب سکول وین والا نہ آئے تو بیٹیوں کو اسکول چھوڑنے کی ذمہ داری میری ہوتی ہے، ایسے میں سکول جاتے ہوئے میں سبزہ زار کے جی بلاک کی مارکیٹ ضرور رُکتا ہوں۔ انشراح کو روپے دے کر کہتا ہوں آج کیا چاہیے؟ حالانکہ جانتا ہوں کہ دونوں کو جوس چاہیے ہوتا ہے۔ پھر وہ انتظار کرتی ہے کہ بابا کہیں گے جو جو دل چاہے لے آئیں۔ 8سالہ انورے تزمین زیادہ ایکسپریسو ہے۔ اپنی توقع سے زیادہ چیزیں پا کر پچھلی سیٹ سے اُٹھ کر میرے ماتھے یا گالوں پر پیار کرنے آئے گی اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے اظہارِ تشکر یا اظہارِ محبت کے ساتھ ہی ایک روز میں نے بڑے مان سے پوچھا
’’بیٹا دنیا میں سب سے زیادہ کس سے پیار کرتی ہو؟‘‘
اس نے لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر کہنا شروع کیا
سب سے زیادہ ماما۔ پھر مم (نانو)، پھر ابو (نانا) پھر بابا۔‘‘
اپنی بیٹی کے پیاروں کی لسٹ میں چوتھے نمبر پر آنا یقینا خوشگوار احساس نہیں تھا۔ مجھے اس لمحے تن بدن میں آگ لگنے والی کیفیت ہی کا سامنا تھا۔ میں ان سے اتنی محبت کروں اور نمبر ملے آخری۔
دس سالوں میں، میں شعوری طور پر تین باتیں ضرور سکھاتا رہا ہوں:
پاکستان کی کم سے کم پانچ بڑی یونیورسٹیوں میں گزرے دس بارہ سالوں میں، میں شعوری طور پر اپنے طلبہ کو تین باتیں بڑی محبت سے سمجھاتا رہا ہوں۔
اول۔ اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف (Goal Setting) ابھی سے طے کرو ورنہ خالی ہاتھ رہ جائو گے۔ زندگی گزر جائے گی اور کسی مقصد کے پانے کی خوشی چھو کر بھی نہیں جائے گی۔
دوم۔ محبت ضرور کرو مگر اس کی ترتیب ٹھیک رکھو ورنہ یہ بےترتیبی تمھیں کبھی ٹھیک نہ رہنے دے گی۔ جب جب کسی نئی کلاس کا ٹیسٹ لینا ہوتا تو ضرور پوچھتا، دنیا میں سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہو؟ کس کے بنا جی نہیں سکتے؟ کس کے بنا ادھورے اور نامکمل رہ گئے؟ پچانوے فیصد جواب ماں باپ آتا، کہیں کہیں بہن بھائی۔ کسی دوست یا کبھی کبھار کسی اُستاد کا نام آجاتا تو ضرور پوچھتا کہ جب وہ زندہ نہیں رہیں گے تو پھر خوشی کہاں سے ڈھونڈو گے، محبت کس سے کرو گے؟
سوم ۔کتابیں پڑھو، انگریزی، اُردو، فارسی، عربی، ترجمہ شدہ جس زبان کی بھی ملے۔ علم و دانش سے بھری۔ کہانیوں اور افسانوں سے سجی یا افکار کے پھول پتے لیے۔ بس اتنا یاد رکھو کہ قرآن کے علاوہ کوئی کتاب حرفِ آخر نہیں۔ پڑھو اور ذہن میں اسے چیلنج کرو۔ آنکھیں بند کرکے کبھی کسی کی مت مانو، چاہے مقامی ہو یا عالمی طور پر مشہور و معروف۔اس کو حق ہے سوچنے، رائے دینے اور کوئی نتیجہ نکالنے کا، تو آپ کو بھی اتنا ہی حق ہے، اس کو رد کرنے، اس سے مختلف سوچنے، اس کے نتائج کا انکار کرنے کا۔ یہ کسی کی حق تلفی نہیں، بطور قاری آپ کا حق ہے، استحقاق ہے، اسے مت چھوڑو۔ یہ نہیں کرو گے تو’’ دولے شاہ کے چوہے‘‘ بن کر زندگی گزارو گے اور ہر لکھنے والا قلم کار، کالم نگار تمھیں تختہ مشق سمجھ کر استعمال کرے گا۔ کچھ عرصے بعد اس کی رائے اور محبوب بدلیں گے تو ساتھ ساتھ آپ بھی کسی ہپنا ٹائزکیے جانے والے معمول کی طرح بن سوچے، بن غور کیے بدلتے جائو گے۔ بےاثر اور بےوقعت ہوتے جائو گے۔ روبوٹ بھلا کسی کی کیا راہنمائی کرسکتے ہیں۔ اس ذہنی کیفیت میں کیا کسی کے دل میں جگہ پائو گے۔ اس لیے یاد رکھو کہ ہیں تو یہ صرف تین کام مگر محبت کی ترتیب سے کرنے والے ہیں۔
کیا انسانی ذہن کی بُنَّت اور مزاج تھانیدار جیسا ہوتا ہے:
بیٹی کی بات سن کر لمحہ بھر کو میں دہل گیا کہ ملک بھر کے نوجوانوں اور اداروں کے مینیجرز کو گیان دیتے، علم و دانش کی باتیں سکھاتے سکھاتے اپنی ہی نورِ نظر، نورِ چشم کو بھول گیا، اس وقت بتانا اور سمجھانا مشکل تھا۔ اب میں موقع کی تلاش میں رہنے لگا، یہ موقع ایک روز ہاتھ آگیا جب مجھے بھی ہفتہ وار چھٹی تھی۔ اس سے پہلے وہ اپنی ماما سے پڑھتی رہیں یا اپنی ٹیوٹر سے میں نے کبھی اپنے پاس پڑھنے کے لیے نہیں بلایا یا بٹھایا، اپنے بچوں کو پڑھانا مشکل ہی نہیں بہت مشکل ہے، اسی لیے میں نے اسے بھاری پتھر سمجھ کر کبھی چھیڑنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
ناشتے سے ذرا پہلے ان کو ساتھ لے کر گورمے بیکرزگیا۔ ان کی مرضی کی آئس کریم کے بعد اضافی خوشی کے طور پر چاکلیٹ اور زنگر برگر دلایا۔ واپسی پہ وہی سوال پھر ان کا منتظر تھا۔ ان کے جواب میں بھی رَتی برابر فرق نہیں تھا۔ تب ان کو بتانا شروع کیا کہ ماں باپ اس لیے اچھے ہوتے ہیں کہ انھیں دنیا کے سب سے اچھے انسان ﷺ نے اپنے بچوں کو محبت کرنے کا کہا اور انہیں یہ خیال خود سے نہیں آیا۔ ساری دنیا کے انسانوں کے مہربان رب نے سکھایا۔ سو محبت کرنے کی ترتیب یہ ہوگی کہ سب سے زیادہ محبت اس رب سے ہوگی جس نے اس جہان کے علاوہ ہمیں بھی بنایا، ہمارے پیارے بنائے اور ہمیں ان سے رشتوں میں جوڑا، پھر ہمیں اچھا بنانے کے لیے سب سے اچھے انسان ﷺ کو اپنا نمائندہ اور پیغمبر بنایا، رسول ٹھہرایا اور اس کے ذریعے زندگی کو خوب صورت اور اچھا بنانے والی اچھی اچھی باتیں سکھائیں، اس کے بعد ماں باپ کی باری آئے گی، بہن بھائی اور باقی رشتے دار اور عزیز و اقارب جو جتنا عزیز اور دل کے قریب ہو پھر ان کا نمبر ہوگا ‘‘۔
ایک دو باتیں بتا کر مجھے لگا میرے سمجھانے پڑھانے کا کوٹہ ختم ہوگیا۔ میں آرام سے اخبار لے کر بیٹھ گیا اور وہ اپنا چھٹیوں کا کام کرنے لگیں۔ انسانی ذہن کی بُنَّت اور مزاج تھانیدار جیسا ہوتا ہے جو پہلے بات کرلے، وہی ذہن میں اٹکی رہتی ہے، اسی پر رائے بنتی ہے اور اسی کے حق میں منہ سے بات اور آواز نکلتی ہے۔
چھٹیاں ختم ہونے میں چند روز باقی تھے جب رائے ونڈ روڈ پر یونیورسٹی آف لاہور کے بالکل ساتھ واقع پرائیڈ پبلک اسکول اینڈ کالج کے سربراہ جناب ظفر اقبال نے یاد کیا۔ مجھے وہ اس لیے بھی بہت عزیز ہیں کہ اپنے اسکول کے بچوں کے علاوہ اس کی اساتذات کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ 100 سے زائد اساتذات دن بھر کی ٹریننگ کے لیے سامنے تھیں اور موضوع تھا ’’بچوں کی کونسلنگ کیوں کی جائے؟ کیا کتابیں پڑھانا کافی نہیں‘‘؟
وقت وقت کی بات ہے. چند سال قبل لاہور کے پانچ ستارہ ہوٹل میں ایچ آر کے مشہور کنسلٹنٹ جناب عامر صدیق نے کونسلنگ اینڈ منٹارنگ (Mentoring) پر ایک روز کی ورکشاپ کرائی تو اس کی رجسٹریشن فیس 30 ہزار روپے تھی۔ ان کی محبت بھری دعوت پر میں دن بھر وہاں شریک رہا، جہاں ملک کی ہر اہم کمپنی سے ایک ایک دو دو لوگ یہ خطیر رقم خرچ کرکے آئے ہوئے تھے۔ آپ نے کبھی کچھ اچھا پڑھا ہو۔ سیکھا ہو توبنک اکائونٹ میں پڑی رقم جیسا ہوتا ہے۔ چیک کاٹتے ہوئے آپ کو علم ہوتا ہے کہ اصل رقم ہے کتنی اور کس قدر خرچ کی جاسکتی ہے۔ اس صبح وہ ساری باتیں میرے اکاؤنٹ میں موجود تھیں۔ پرائیڈ اسکول کی اساتذات کی اکثریت بہت نوجوان لڑکیوں کی تھی۔ ان میں کچھ سیانی اور سمجھدار سپروائزر اور رابطہ کار بھی اپنی پرنسپل مس افشاں کے ساتھ موجود تھیں۔ اپنی بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے ان کی زندگی کی محبتوں کا پوچھا تو جواب دینے والوں کی اکثریت نے اپنے والدین کو ہی مرکز زندگی بتایا۔ ایسے لوگوں کے لیے میں نے بارہا دیکھا کہ جب یہ مرکز محبت زندہ نہیں رہتا تو زندگی نیو کلیس اور گرِڈ اسٹیشن کے بنا رہنے جیسی اور بےوقعت ہوجاتی ہے۔ اللہ معاف کرے لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کو حنوط کر کے رہنے لگتے ہیں کہ ان کے بنا ان کی زندگی کا کوئی مطلب ہی نہ رہا تھا۔
انسانی رشتوں سے محبت مستقل ہو نہیں پاتی :
محبت کی ترجیحات کی عدم درستی کے معاملات سے مجھے بارہا واسطہ پڑا، کہیں سمجھانے سے بات بنی تو کہیں ڈرانے سے۔ انسانی رشتوں سے محبت مستقل ہو نہیں پاتی۔ والدین سے محبت چند ہی سالوں بعد کسی لڑکے اور لڑکی کی محبت تلے دب کر کچلی جاتی ہے۔ اس سال گھروں سے بھاگنے والی 8 ہزار لڑکیوں نے بھی تو کبھی اپنے والدین سے محبت کا دم بھرا ہوگا۔ بھاگ کر شادی کرنے والوں کی محبت کی سوئی کب کہیں اور جا کر اٹک گئی۔ وہ خود بھی نہیں بتا سکتے۔ نوکری، عمدہ تنخواہ، اعلیٰ منصب، بااختیار پوزیشن، امیر رشتہ دار، خوبصورت دوست، اپنی اولاد، اپنا گھر، اپنی جائیداد، اپنی دنیا اور اپنی آخرت۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ محبت کے مراکز اس تیزی سے بدلتے ہیں کہ خود حیرت ہونے لگتی ہے کیونکہ بظاہر ہر محبت اس وقت سچی، بے لوث، غیر مشروط اور پائیدار لگتی ہے، مگر اپنی اصل سے ہٹ کر کوئی تعلق اور محبت کیسے مستقل اور پائیدار ہوسکتی ہے۔
زیادہ تو نہیں جانتی آپ نے خودہی بتایا تھا:
ایک اَن جانے نمبر سے فون آیا تو میں خوشی اور حیرت سے اسے سننے لگا، یہ میری چھوٹی بیٹی کی ٹیچر کا فون تھا، اس نے بتایا کہ میں نے مائی سیلف پر بھری کلاس میں بولنے کو کہا توآپ کی بیٹی نے پورے اعتماد سے آنکھیں ٹپٹپاتے ہوئے کہا:
’’دنیا میں سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے، پھر محمدﷺ سے، پھر آدم سے، پھر نوح سے، پھر اپنی ماما سے، پھر مم سے، پھر ابو سے، پھر بابا سے۔‘‘
ٹیچر نے پوچھا’’ یہ آدم اور نوح کون ہیں؟‘‘
بولی’’زیادہ تو نہیں جانتی آپ نے خودہی بتایا تھا اللہ کے پیغمبر تھے‘‘۔
اب ٹیچر نے اُٹھ کر اسے پیار کیا، سینے سے لگایا اور پوچھا:’’یہ محبت کی ترتیب کہاں سے سیکھی؟ ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’میرے بابا کہتے ہیں، اچھی بیٹیوں کو یہ ترتیب خود سے آتی ہے‘‘۔
پرائیڈ اسکول کی ٹیچرز نے اس روز پورے دل سے محبت کی یہ ترتیب اس لیے سیکھی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو کتاب سے ہٹ کر بھی پڑھا اور بتا سکیں۔ دوسروں کے بچوں کو ان کی ذاتی، سماجی اور تعلیمی مسائل میں وقتاً فوقتاً راہنمائی کرسکیں جنھوں نے بچوں کی زندگی کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔
کبھی کوئی خود سے سوچنا، پڑھنا، غور کرنا اور نتائج نکالنا نہیں سکھاتا:
ایسی ہی مشکل میں، میں نے یونیورسٹیوں میں آکر فلسفے یا نفسیات کی کتابیں اور مضامین پڑھنے والوں کو پایا۔ انھیں کبھی کوئی خود سے سوچنا، پڑھنا، غور کرنا اور نتائج نکالنا نہیں سکھاتا۔ یہ مضامین لکھنے والے مغربی دانشوروں کے ان خیالات پر مشتمل ہیں جنھیں اکثر انھی کے شاگردوں نے غلط ٹھہرایا۔ مگر چونکہ ہمارے ہاں نصاب سے ہٹ کر کچھ پڑھنے کی عادت ہے نہ حاجت کہ کوئی بتائے تو ہی ذہن اس طرف چلے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دو دو چار چار نامکمل اسباق پڑھنے والے بھی یوں رب کے ہونے اور ان کے خالق ہونے سے انکار کردیتے ہیں جیسے اللہ نے خود انھیں اس امر کی اطلاع دی ہو کہ میں اب نہیں رہا اور دنیا میرے بنا ہی بنی اور چل رہی ہے۔ یہ ’’انکار‘‘ شروع میں ایک محدود پیمانے پر’’فیشن‘‘ میں چل رہا تھا، پھر انٹرنیٹ نے اس کو پر لگا دیے، بنگلہ دیش کے کچھ لوگوں نے اس مہم کو مہمیز دی ہے جن میں سے اب تک آٹھ مارے جا چکے ہیں اور اس کی فہرست کا ذکر آ رہا ہے۔ ایسی بدقسمت روحیں ہمارے ہاں اس لیے فوراََپیدا ہو جاتی ہیں کہ انہوں نے کسی کو کسی نئی بات پر بات کرتے سنا ہوتا ہے۔
منکر سے ہاں کرانی بہت مشکل ہو جاتی ہے:
جب جب کوئی ایسی دُکھی روح میرے پاس آئی، اسے سمجھانے اور راہ راست پر لانے میں بڑی تگ و دو کرنی پڑی۔ منکر سے ہاں کرانی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ اثبات سے نفی میں جانا تو اونچائی سے گہرائی میں اُترنا ہے۔ اکثر انسان یہ سفر دوڑ کر طے کر لیتے ہیں اور محبت کے رشتے کے علاوہ کوئی اسے نہیں روک سکتا۔ ایف سی کالج سے تعلق رکھنے والے صابر چودھری جو اب دبئی میں ماہر نفسیات ہیں، بارہا اس تکلیف دہ صورتِ حال سے گزرے جب ان کے استاد بھری کلاس میں اللہ سے انکار کر دیتے اور اس کے لیے مغربی مصنفین کے حوالوں سے اپنا دل شاد اور صابر کا ناشاد کرتے۔ صابر کی پوری بات سُن کر بھی کبھی کبھی دل کہتا مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہونے والا کوئی کتنا بھی ناخلف ہو جائے یوں منہ کھول کر کیسے کہہ سکتا ہے۔ وہ پروفیسر صاحب گزشتہ دنوں فوت ہوئے تو جنازے میں 13 لوگ شریک تھے اور ان میں سوائے ایک کے کسی نے زندگی میں کبھی کسی کی نماز جنازہ پڑھنا تو دور کی بات کسی جنازے میں گئے بھی نہیں تھے۔ وہ پریشان تھے کہ جس خدا کا برسوں انکار کیا، اب دفن کرتے ہوئے اس سے کیا اور کیسے مانگیں۔ نتیجتاً بغیر کسی جنازے کے دو اصحاب نے مردے کو اٹھایا اور قبر میں یوں گرا دیا جیسے کھاد کی بوری پھینکتے ہیں۔ ان گرانے والوں میں ایک ان کا اپناصاحبزادہ بھی شامل تھا، جو مٹی ڈال کر یہاں دوبارہ کبھی واپس نہ جانے کے لیے گھر واپس آ گیا۔
اس کتاب نے خدا پر یقین اور ایمان ختم کرنے میں بہت آسانی پیدا کی:
چند روز ہوئے اسکیم موڑ کے قریب واقع ’ایک فلیکس شاپ‘ جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں مجھے دو فلیکس بورڈز بنوانے تھے۔ کمپوزر کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور بےنیازی کے اس کے چہرے پر ڈھیر لگے تھے۔ کام کے دوران اچانک اس نے نیٹ سے ایک کتاب کھولی اور بتانا شروع کر دیا کہ میں فارغ وقت میں ایسی نایاب کتابیں پڑھتا ہوں۔ اس کتاب پر پابندی ہے، یہ بہت پرانی ہے مگر بہت اچھی ہے۔ کتاب کی خوبی یہ بتائی کہ اس نے خدا کی ذات سے یقین اور ایمان ختم کرنے میں بہت آسانی پیدا کی۔ پھر اس نے کہا یہاں میں اکیلا نہیں ہوں۔ ایتھیٔسٹ (Athiest) دہریہ خیالات کے حامل لڑکوں کا ایک بہت بڑا گروپ ہے نیٹ پر بھی اور لاہور میں بھی۔ ہم کتابیں آپس میں شیئر کرتے ہیں، ملتے ہیں، دلائل کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ہماری کمیونٹی ابھی ’گے‘ (ہم جنس پرست مردوں) کمیونٹی کی طرح چھوٹی ہے مگر تیزی سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر اس نے فخر سے بتایا کہ پچھلے سال میری شادی ہوئی تھی۔ چھ ماہ میری بیوی بہت تنگ رہی، اب وہ بھی ہماری کمیونٹی کا حصہ ہے اور سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔
کوئی اور ہوتا تو منکر اور مرتد کہہ کر فارغ ہو جاتا:
ہم عام طور پر مسائل کو اسی طرح نمٹنے کے نام پر پھیلاتے آئے ہیں، کوئی اور ہوتا تو منکر اور مرتد کہہ کر فارغ ہو جاتا۔ ان بےچاروں کو تو استاد بھی ایسے ملتے رہے ہیں کہ خدا کے حوالے سے کوئی بات پوچھ لیں تو وہ چڑ کر کہتے ہیں:
’’پڑھائی پر دھیان دو، اِدھر اُدھر کی باتیں چھوڑو!‘‘
جبکہ خود خدا یہ کہتا اور یاد دلاتا ہے کہ جیسے تم اپنے آبائو اجداد کا ذکر کرتے ہو، مجھے پسند ہے کہ میرا بھی ویسے ہی ذکر کرو بلکہ اس سے بھی زیادہ مگر ہماری زندگی میں سب کچھ زیر بحث آتا ہے سوائے اپنے رب کی عظمت اور اس سے بے لوث محبت کے، وہ محبت جو کبھی کم نہیں ہوتی، جس کا مرکزِ نگاہ موجود رہتا ہے اور محبت سے دیکھتا اور خیال سے تھام کر رکھتا ہے۔ ایک منکر اپنی بیوی بیچاری کو اس عذاب میں گھسیٹ لے گیا، ہم اللہ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے کم ہی اس طرح کا تکلف کرتے ہیں۔
جب جب گھر اور اسکول میں اپنے بچوں سے رابطے کی کمی ہوتی ہے، انھیں زندگی کے مقصد سے آگاہی نہیں دی جاتی۔ آخرت میں کامیابی کا ہدف ہی واضح نہیں ہوتا، اس کا ذکر ہی نہیں ہوتا نہ ویلیوز کا تعین ہو پاتا ہے نہ گول سیٹنگ ہو پاتی ہے۔ محبت کی ترتیب بتانے، سمجھانے میں کوتاہی بہت بھاری پڑتی ہے۔ کٹی پتنگ جیسے ذہن کسی بھی بےبرگ و بار سوکھی شاخ سے اٹک اور لٹک سکتے ہیں۔ فیشن کے طور پر غیر ملکی کتابوں کے ترجمے پڑھنے سے شروع ہونے والی کہانی اب کم پڑھے لکھے نوجوانوں تک آن پہنچی ہے اور یہاں پہنچتے پہنچتے دامنِ دل خالی کر جاتی ہے۔ دوسروں کی لکھی اور کہی باتیں جو پڑھنے والوں کے ایمان، اعتقاد، اخلاق پر کبھی چھُپ کر دھیرے سے اور کبھی اعلانیہ اور سامنے سے حملہ کرتی ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو ان کے مقابلے کا نہ گُر بتا پاتے ہیں نہ انھیں رد کرنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں، چونکہ خود ہم نے ان پر کبھی سوچا نہیں ہوتا۔ ہم سڑک پار کرنا سکھا دیتے ہیں، موٹر سائیکل چلانا، اپنی عزت بچانا، اعلیٰ درجے کی کامیابی کو پانا، امیر اور خوب صورت لوگوں کو شادی کے لیے قابو کرنا، کون سا گُر ہے جو ہم سے چھُوٹا ہوا اور بھولا ہوا ہے۔ مگر لمحہ بھر کو سوچیے تو سہی دل کو دُکھی کرنے والی یہ بڑھتی کمیونیٹیز آخر کسی والد، کسی اُستاد کی کوتاہی کا ہی تو ثمر ہیں جو نہ انھیں زندگی کا مقصد بتا پائے، نہ محبت کی صحیح ترتیب سکھا پائے۔ کسی روز آپ بھی تو اپنے بچوں، دوستوں اور شاگردوں سے پوچھ لیں کہ’’بیٹا دنیا میں سب سے زیادہ کس سے پیار کرتے ہو؟‘‘
اور وہ لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر کہنا شروع کرے کہ
سب سے زیادہ ماما۔ پھر مم (نانو)، پھر ابو (نانا) پھر بابا۔‘‘
اپنی بیٹی کے پیاروں کی لسٹ میں چوتھے نمبر پر آنا کسی طور خوشگوار احساس نہیں تو میرے رب کو ہمارے پیاروں کی زندگیوں میں اپنے نام سے محبت کی بے ترتیبی کیونکر اچھی لگے گی۔ اپنے آس پاس دیکھیے، ممکن ہے کوئی خالی دل، کچھ خالی آنکھیں آپ سے راہنمائی کی طالب ہوں، اپنے رب کی محبت اور اس سے جوڑنے کی صورت میں ان کی روح میں ڈالنی ہوگی، ان کے دامنِ دل میں اس سوغات کو ڈالنا ہو گا۔ اللہ کی محبت سے دور یا محروم ہوجانے والوں کو بُرا بھلا کہنے اور کاٹ کر پھینکنے سے تو بات نہیں بنے گی، ہاں بدلتے دنوں میں اب ہمیں نئے بیان کی بھی ضرورت ہوگی اور بیانیہ کی بھی، نئے دلائل درکار ہوں گے اور نئی ڈکشن اور نئے انداز بھی، تبھی ان دلوں میں اس کی جگہ بنے گی جس نے یہ دل دیے تھے اور جس کے بنا یہ دلدل بنتے جا رہے ہیں۔ زندگی میں اللہ جی کی محبت اور محبتوں میں اس محبت کی صحیح ترتیب کو سکھائے بنا ہر کہانی نامکمل اور ہر رشتہ ادھورا ہے۔
دلیل ڈاٹ پی کے پر اتنی شاندار تحریریں اور دلائل پڑھ کر جہاں یک گونہ خوشی کا احساس ہوتا ہے وہیں میں کبھی کبھی کانپ بھی جاتا ہوں کہ کسی روز رب نے ان سارے دانشوروں کو سامنے کھڑا کرکے پوچھ لیا کہ تمہارے ہوتے ہوئے میرے نام اور اختیار سے انکار کرنے والوں کی کمیونٹیز بنتی رہیں اور تم ساری دنیا کے کاموں پر دلیلیں لاتے رہے، ایک تم سے دلیل اور محبت کی یہ ترجیح نہ ٹھیک ہو سکی، ان کی خالی روح کی آبادی کا سامان نہ ہو سکا، تو جواب دینا کس قدر مشکل ہوجائے گا۔ ہم اللہ کے بارے میں کسی کا ایک جملہ پڑھ کر سر دھننے کے خواہش مند تو ہیں مگر اس کے بارے میں خود پیار سے سوچنے، پڑھنے، اور بات کرنے تک سے ڈرتے ہیں. ہمیں تو خدا کی تاریخ تک ایک غیرملکی اور غیرمسلم مصنفہ آرم سٹرانگ کی لکھی ملتی ہے، خود ہمیں بےروح سیاسی موضوعات اور شخصیات پر تبصروں اور دلیلوں سے ہی فرصت نہیں ملتی!
٭٭۔۔۔۔٭٭