دو ہزار سات کے بحران کے آغاز سے قبل اس وقت کے مقبول تجزیوں کے برعکس ہم دونوں نے مالیاتی نظام کو زود شکن و ناپائیدار قرار دیا تھا۔ اور اب ہمیں اس سے کہیں بڑے خطرے کا سامنا ہے جس میں ہمارا مالیاتی نہیں بلکہ پورا ماحولیاتی و حیاتیاتی نظام ہی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ یعنی اب کی بار ہماری لڑائی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیات یا جی ایم اوز (GMOs) کی ترویج کے تازہ رجحان سے ہے۔
تب ہمارے مخالفین کا موقف تھا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی بے مثال ترقی کے نتیجے میں اب نہایت درست اور تفصیلی معاشی معلومات دستیاب ہیں اور مالیاتی نظام بہت بہتر ہوچکا ہے۔ تاہم ہمارا موقف یہ تھا کہ پیچیدگی اور عالمگیریت میں اضافے کے نتیجے میں اب ’انتہائی خطرات‘، یعنی نادر مگر انتہائی اثرانگیز واقعات سے پیدا ہونے والے خطرات کا امکان بہت بڑھ چکا ہے۔ مگر چونکہ کوئی بھی ہماری بات پر دھیان نہیں دے رہا تھا ہم نے خود اور اپنے کلائنٹس کو بینکاری نظام کے ممکنہ انہدام کے اثرات سے بچانے کے لیے اقدامات کرنے شروع کردیے۔ یہ واقعہ بالآخر پیش آ کر رہا اور جو اس کے لیے پہلے سے تیار تھے وہ فائدے میں رہے۔
اس وقت ہمارے خلاف دیے جانے والے دلائل مندرجہ ذیل مغالطوں پر مبنی تھے:
اول: ہم پر ’سائنسی موقف کے خلاف‘ موقف کے حامل ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ہمارے مخالفین (رسک مینجمنٹ کے) مروجہ طریقوں پر معاشیات دانوں کے اتفاق کو بطور ثبوت پیش کر رہے تھے جو کہ ایک شدید نوعیت کا مغالطہ ہے۔ اگر سائنس کا انحصار اتفاق و اجماع پر ہوتا تو ہم آج بھی عہد وسطیٰ میں ہوتے۔ سائنسی روایت تو یہ ہے کہ اتفاق و اجماع کسی نظریے کے غلط ہونے کا ثبوت تو بن سکتا ہے اس کے ٹھیک ہونے کا نہیں۔ اور رسک مینجمنٹ پر تو اس کا اطلاق بالکل ہی نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس میں بہت زیادہ جانچ پڑتال اور احتیاط درکار ہوتی ہے۔
دوم: ہمیں یہ دلیل سننے کو ملی کہ ’ٹیکنالوجی ہمیشہ بہتر ہوتی ہے‘جو کہ ترقی کے تصور کی ایک مسخ شدہ صورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت کم ٹیکنالوجیز ہی وقت کے امتحان پر پورا اترتی ہیں۔ باقی وقت کے ساتھ ساتھ دریافت ہونے والے کسی نقص کے باعث نابود ہو جاتی ہیں۔
سوم: یہ بھی سننے کو ملا کہ ہمارے جیسے خیالات اگر ماضی میں عام ہوتے تو کوئی خطرات مول نہ لیتا (اور ترقی ممکن نہ ہوتی)۔ مگر خطرات مول لینے کا پہلا اصول تو یہ ہے کہ اندھوں کی طرح سڑک پار نہ کی جائے۔
چہارم: انتہائی تباہ کن خطرات کو بھی بالکل بچگانہ ماڈلز کی بیناد پر محفوظ خیال کیا جارہا تھا۔ Fannie Mae (ایک امریکی کمپنی۔مترجم) ایسے ہی ماڈلز پر اعتماد کی وجہ سے تباہ ہوئی۔ (دلچسپ بات یہ ہے کہ بچائے جانے کے بعد اب بھی وہ یہی ماڈلز استعمال کر رہی ہے)۔
پنجم: مالیاتی نظام کا بہت انحصار پیش گوئیوں پر تھا درآنحالیکہ اگر پیش گوئیوں کے ریکارڈ کا معائنہ کیا جائے تو نجومی مرکزی بینکاروں اور معاشیات دانوں سے کہیں بہتر نظر آئیں۔ کل معاشی نظام کا انحصار ایسی ہی بےکار پیش گوئیوں پر تھا جبکہ ہم اس کے برعکس جدا جدا اجزاء پر مشتمل ایک ایسے نظام کی ضرورت پر زور دے رہے تھے جو غلط پیش گوئیوں کے اثرات بد سے محفوظ رہ سکے۔ یہ کہہ کہہ کر کہ اب ہم ’عظیم استحکام کے دور‘ میں داخل ہوچکے ہیں مالیاتی نظام کے استحکام کے ثبوت موجود ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا۔ یہ ایک عام مغالطہ ہے جس میں کسی چیز کا ثبوت موجود نہ ہونے کو اس چیز کے موجود نہ ہونے کا ثبوت سمجھ لیا جاتا ہے۔ جبکہ مالیاتی نظام کے واقعی مستحکم ہونے کے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ریستورانوں کی صنعت سے مشابہہ ہو جس میں ایک ریستوران میں کی گئی غلطیاں اسی تک محدود رہتی ہیں نہ کہ پوری صنعت کو تباہ کرتی ہیں۔
(ان مغالطوں کی وجہ سے) معاشی نظام مکمل انہدام کا شکار ہوتے ہوتے بچا تاہم تب تو صرف دولت داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ اب جبکہ ہم جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیات کے خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں (جس سے ہمارے سیارے پر موجود کل حیات کی بقاء خطرے میں ہے) تو ہمارا واسطہ دوبارہ کم و بیش انہی پانچ مغالطوں سے پڑ رہا ہے۔
اول: جی ایم اوز کے خلاف بولنے والوں کو فوراً اینٹی بائیوٹکس کے مخالفوں، ویکسین کی مخالفت کرنے والوں، حتیٰ کہ صنعتی مشینوں کی مخالفت کرنے والوں جیسا ’سائنس مخالف‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ نہ تو یہ تقابل سائنسی طور پر درست ہے نہ ہی ’اجماع‘ کا مدرسی تصور کوئی سائنسی دلیل۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جی ایم اوز کے حق میں دیے جانے والے دلائل روغنِ مار (سانپ کا تیل) کے حق میں دیے جانے والے دلائل سے مشابہ ہیں کیوں کہ موخرالذکر کی سائنس کی تعریف کی بنیاد بھی محض اس کے نمائشی پہلوئوں پر تھی ۔ جن لوگوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں روغن مار کی مخالفت کی تھی ان پر بھی ’علاجی عدمیت‘ (یعنی یہ نظریہ کہ بیماریوں کا علاج کیا ہی نہیں جاسکتا۔مترجم) کے قائل ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ (اس وقت ہر پیچیدہ و نفیس چیز کو ’ترقی‘ سمجھا جاتا تھا)۔
دوم: جی ایم اوز کے حامیوں کا موقف یہ ہے کہ جینیاتی طور تبدیل شدہ ٹماٹر اور عام ٹماٹر میں کوئی فرق نہیں۔ یہ دعویٰ قطعاً غلط ہے۔ فطرت نے ٹماٹر کو (اچانک تبدیلی کے بجائے) لمبے عرصے میں رفتہ رفتہ بہتری کے عمل سے گزار کر تخلیق کیا ہے (لہذا فطرت کا طریق کار ریستوران کے کاروبار کی طرح ہے نہ کہ بینکاری نظام کی طرح)۔ فطری طریق کار میں غلطیاں محدود اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ تھلگ رہتی ہیں۔
سوم: ’ٹیکنالوجی بطور نجات دہندہ‘ کا مغالطہ یہاں بھی موجود ہے۔ مثلاً جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیات کے حامیوں کا یہ کہنا ہے کہ وٹامن سے بھرپور چاولوں کے ذریعے بچوں کی بہتر نشونما یقینی بنائی جائے گی۔ یہ صریحاً غلط دلیل ہے کیوں کہ کسی پیچیدہ نظام میں سبب و مسبوب کے سلسلے واضح نہیں ہوتے اور بہترین طریقہ یہی ہوتا ہے کہ کسی سادہ ترین طریقے سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش جائے جس سے کوئی نیا اور بڑا مسئلہ پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو۔
چہارم: صرف ایک خاص طرح کی فصلوں ہی کی کاشت کی صورت میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیات سے ہونے والا ممکنہ نقصان اس کے تمام ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گا (مالیات کے شعبے میں بھی ایسا ہی ہوا جہاں خطرات پورے نظام میں سرایت کرگئے تھے)۔ ایک ہی طرح کی فصلوں کی مسلسل کاشت کے نتیجے میں آئرلینڈ میں قحط کے دوران آئرلینڈ کی آبادی تباہی کا شکار ہوگئی تھی۔ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیات کے نتیجے میں یہی واقعہ پوری دنیا کی سطح پر پیش آ سکتا ہے۔
پنجم: سب سے بڑھ کر پریشانی کی بات یہ ہے کہ جی ایم اوز کا خطرہ مالیاتی خطرے سے کہیں بڑا ہے۔ ان سے حیاتیاتی نظام میں بالکل غیر متوقع واقعات کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے لیکن اس خطرے سے نمٹنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ جبکہ مالیات کے شعبے میں ابتدائی نوعیت کے ہی سہی خطرات سے نمٹنے کے کچھ نہ کچھ طریقے موجود تھے۔
جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیات کا تجربہ جو پورے ماحولیاتی و غذائی نظام کو تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کیا جارہا ہے، تاریخ میں اپنے علم و صلاحیت پر انسانی گھمنڈ کا شاید سب سے بڑا مظاہرہ ہے۔ اس سے ایک اور ’ناقابل شکست بر بنائے جسامت‘ نظام تخلیق کیا جارہا ہے تاہم اس کی ناکامی کی صورت میں (مالیاتی نظام کے برعکس) بچاؤ کی کوئی صورت ممکن نہیں ہوگی۔
(مندرجہ بالا تحریر مارک سپٹزنیگل اور نسیم طالب کے نیویارک ٹائمز میں Another ‘Too Big to Fail’ System in G.M.O.s کے عنوان سے شائع ہونے والے آرٹیکل کا ترجمہ ہے. مترجم عاطف حسین )
تبصرہ لکھیے