بے حد حسین لیکن مہنگے گلدستے جگہ جگہ سجے دیکھ کر مجھے حیرت ہوا کرتی کہ گروسری شاپس پر اپنے اپنے محدود بجٹ میں آئے اکثر لوگ تو پورا سودا نہیں خرید پاتے ہوں گے تو یہ چند روز کی خوبصورتی دکھا کر ہر بار مرجھا جانے والے پھول کون لیتا ہوگا؟ اور جب اکثریت نہیں لے پاتی، تویہ پھولوں کا بزنس چلتا کیسے ہے؟ مجھے لگتا تھا کہ یہ صرف امیروں کا شوق ہی ہو سکتا ہے لیکن پتہ چلا کہ یہ تقدیر کا نہیں، بلکہ تدبیر کا معاملہ ہے. ایک عادت ہے، زندگی میں زندہ دلی، تازگی اور خوبصورتی کا احساس شامل رکھنے کی عادت.
محدود آمدنی والوں کو یہ لت اکثر اس طرح لگ جاتی ہے کہ کبھی ان کے ہاں کوئی بیمار ہوا، یا کوئی خوشخبری ملی تو احباب ساتھ میں پیارا سا فلا ور بوکے لیتے آئے، وہ گلدستہ ہفتہ بھر ان کی آنکھوں کو ایسا بھاتا دل کو لبھاتا رہا کہ جب خشک ہوا تو گھر والے اس خشک ماحول سے اکتا کر اب خود ہی یہ فرحت افروزچیز، آئے روز گھر لے آتے ہیں. واقعی صحبت بھی کیا چیز ہے.
ایسی کئی باتیں ہیں جو سرے سے ناممکن محسوس ہوتی ہیں لیکن صحبت ہی کے سبب سے بآسانی ہو جاتی ہیں. چھوٹے بچوں ہی کو لے لیں، اکیلے بچے کی ماں تھک ہار کر ناامید ہوجاتی ہے کہ بچہ فیڈر کا عادی نہیں ہو رہا، یا کھانا نہیں کھاتا، مگر بمشکل دو دن دوسرے بچوں کو ایسا کرتا دیکھ کر وہ بھی عادی ہو جاتا ہے، خود اپنے بچپن کو ہی دیکھ لیں کہ جب گھر میں پکی کوئی چیز نہ کھاتے تب سب کی مائیں کیسے بار بار کی تکرارسے کہ بس ایک لقمہ چکھ لو، بری بات کھانے کو برا نہیں کہتے، اچھا میرے ہاتھ سے ایک بار تو کھا کے دیکھو، اچار سے، پیار سے، کیسے بھی ہم نہ جانے کب دال، سبزی ،بھجیا، سب کے عادی ہوتے چلے جاتے ہیں.
سبحان اللہ اسی طرح سے ہی لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بار بار کچھ قیمتی دن بھی ہم عادی مجرموں کو نیکی کرنے اور گناہوں سے بچنے کا عادی بنانے کے لیے بھیجتے ہیں. ہم گناہوں کی دلدل میں پڑے، شیطان کے مایوسی، ڈپریشن، لذت گناہ اور کم ہمتی کی ڈوریوں سے بنے جال میں اللہ کی رحمت سے دوریوں کا شکار ہونے کو ہوتے ہیں کہ رمضان اپنی پوری آب و تاب سے ہم پر چھا جاتا ہے. تب ہم شیطان کے مکر کے جال کو مکڑی کے جالے کی طرح آن واحد میں توڑ پھینکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں. نیک بننے کی خوب پریکٹس کرتے ہیں اور دل سے توبہ بھی کرتے ہیں. عید کے بعد شوال کے روزے بھی ہوتے ہیں. دھیرے دھیرے وعدے بھولنے لگتے ہیں کہ حج کا موسم، ذو الحجہ کے قیمتی دن آجاتے ہیں، پھر محرم کے. یوں اکثر لوگوں کا انسان سے اشرف المخلوقات بننے کا سفر شروع ہو جاتا ہے.
لیکن سوال یہ ہے کہ سالہاسال کی زندگی اور بار بار آتے قیمتی ایام ملنے کے باوجود بھی. آخر ہمارا عادی مجرم سے متقی بننے کا سفر کیوں شروع نہیں ہو پاتا؟
آپ دن میں کتنے برتن توڑ کر پھینکتے ہیں؟ نہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ کھانا تو بار بار کھاتے ہوں گے؟ تو؟ اچھا دھو لیتے ہیں گندے برتن کو، بھئی واہ یہ تو اچھا آئیڈیا ہے.
سوچیں ذرا اگر ہم یہ نہ کرتے اور ہر کھانے کے بعد میلے ہو جانے والے برتنوں سے مایوس ہو کر ان کو پھینک دیتے تو سب کچھ کما کما کر بس اسی پر گنوا دیتے اور ساتھ ہی زمین پر ہمارے رہنے کی کوئی جگہ بھی باقی نہ رہتی. ہمارے کھانے کو تو چھوڑیں، مکھی گر جائے، بلی کتا کچھ کھا لے تواس کھانے یا برتن کو پاک کرنے کا کیا معاملہ ہو، یہ تک بھی دین میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے، تو آخر ہم گناہ کر کے خود کو میلا کر لینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کیوں اتنا مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں؟ کہ گویا اب ہم پاک ہی نہیں ہو سکتے یا یہ کوئی بہت ہی طویل پراسیس ہو. کیسے کیسے نفسیاتی گنجل میں خجل ہوکے اپنا آپ گنواتے ہیں کہ میں تو گناہگار ہوں، دعا کیسے کروں؟ نماز کیسے پڑھوں؟ نیک عمل کیسے کروں؟ قران کیسے پڑھوں؟ قرآن فون میں نہیں رکھتے کہ بے حرمتی ہوتی ہے.
یقین کریں کہ قرآن کو نہ پڑھنا، نہ سمجھنا بھی اس کی بےحرمتی ہے، ورنہ تو جیسے ایک حافظ کے ذہن میں قرآن محفوظ ہوتا ہے اور وہ واش روم بھی جاتا ہے اور نارمل زندگی بھی گزارتا ہے، اسی طرح آپ خواہ کہیں بھی جائیں، فون کے کسی فولڈر یا کسی ایپ میں قرآن بھی بالکل محفوظ رہتا ہے، کوئی بے حرمتی نہیں ہوتی. اسی طرح قرآن کو پڑھتے ہوئے وضو کا ہونا اچھی بات ہے لیکن فرض یا واجب ہرگز نہیں، اور جہاں تک چھونے کا معاملہ ہے تو پیپر پر لکھے ہوئے قرآن کے ٹیکسٹ کو بغیر وضو کے نہ چھوئیں، باقی کسی بھی طرح بےشک شروع میں تین، پانچ یا سات آیات ہی پڑھنے سے ابتدا تو کریں .
دوسری گتھی یہ ہے کہ قرآن درست پڑھنا نہیں آتا، تو گناہ ہوگا. اتنا وہم ! حالانکہ اس قدر آسان سا حل ہے کہ اگر آپ چاہیں تو ایک پین آتا ہے جو قرآن کی ستر پر پھریں وہ پڑھتا ہے، یا پھر آپ کے فون میں، ٹیبلٹ پر کسی بھی ویب سائٹ پر بہت آسان بالکل فری سہولت موجود ہے کہ جو آیت یا لفظ آپ چاہیں وہ کسی بھی پسند کے قاری کی آواز میں سنیں اور دہرا کر خود کو درست کر لیں اور ساتھ دہرا اجر بھی پائیں.
قرآن سمجھ میں نہیں آتا. یہ دوسرا مسئلہ ہے، لیکن کوئی بات نہیں دعا اور کوشش سے یہ بھی حل ہو جانا ہے مگر یہ کوئی وجہ نہیں قرآن نہ پڑھنے کی. کیا آپ کو بخار یا سر درد ہوتا ہے تو آپ دوا کے اجزا اور ان کے تناسب کے علم پر عبورحاصل کرنے میں جان ہلکان کرتے ہیں یا بس ایکسپائری ڈیٹ دیکھ کر دو گھونٹ پانی کے ساتھ اسے حلق سے اتار لیا کرتے ہیں؟ تو بس فی الحال صرف اتنا ہی وقت، جتنا دو گولی ڈسپرین کو گھلنے میں لگتا ہے، کم از کم اتنا توضرور ہی قرآن پڑھنے کے لیے لگائیں، کیونکہ جس طرح ہر چیز کی ایک ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے، ہر انسان کی بھی ہوتی ہے. اور جس طرح بہت سی چیزیں ایکسپائری ڈیٹ کے بعد بھی بظاہر چنگی بھلی دکھائی دیتی ہیں، ایسے ہی انسان بھی بظاہر جی تو رہا ہوتا ہے مگر اس کا ذہن کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے. ذہنی طور پر درست ہو تب بھی دل پر مہر لگ جاتی ہے، نہ اندر کا گند باہر نکل پاتا ہے نہ ہی باہر سے کوئی صاف شے اندر جا پاتی ہے. اللہ تعالیٰ ہم سب کو ارذل العمر سے محفوظ رکھے آمین .
اور اب ایک آخری سوال کہ دل نہیں چاہتا، سمجھ نہیں آتا، وقت نہیں ملتا لیکن پھر بھی ہم قرآن کیوں پڑھیں؟ اس کا جواب انتہائی طویل ہے مگر کیونکہ ہمیں تو ابھی بس کچھ وقت ہی دینے پر خود کو راضی کرنا ہے تو بس اتنی سی بات سمجھ لیں کہ قرآن پاک میں ہی اللہ تعالیٰ نے وارننگ دی ہے کہ جو قرآن سے اعراض برتےگا، اللہ تعالیٰ اس کی معیشت تنگ کر دے گا. اور بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہ معیشت والی بات صرف دو دن کی دنیا کی دو وقت کی روٹی کی نہیں بلکہ مرنے کے بعد، حشر کے روز، اور اس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں معیشت کی تنگی کی بات ہے. آخرت کے محل، انعامات و آسائشات سبھی کچھ اس ایک لفظ، ”معیشت“ میں شامل ہے. آج اس دنیا میں ہی گھر، سواری ،عزت،خوشی ،سکون،بے فکری آخرکیا مل سکتا ہے فقط ایک "معیشت" کی تنگی کے بعد ؟
ہم سمجھتے ہیں کہ ذکر اور قرآن سے جڑے رہنا صرف بے حد متقی لوگوں ہی کی تقدیر ہے حالانکہ یہ اصل میں تدبیر کا معاملہ ہے، لیکن تدبر کا وقت ہے کس کے پاس ؟
اگر اب بھی اس ذات سے گناہ بار بار ہوتے ہیں، ہراگلے قدم پر یہ وسوسہ جان چھوڑ کر نہیں دیتا، توکسی دو تین بچوں کی ماں کی زندگی پر غور کریں کہ دن رات بچوں کے گندے ڈائپر بدلتے اس کے ہاتھ سینکڑوں بار گندے ہوتے ہیں، تو کیا ہوتا ہے؟ وہ ہر بار ہاتھ دھوتی ہے اور انہی ہاتھوں سے کھانا کھاتی بھی ہے، پکاتی بھی ہے، کھلاتی بھی ہے، بس یہی گناہوں کا بھی حل ہے کہ جوں ہی ہوں توبہ کریں اور نیکی پر پلٹ آئیں. سوچنے والی بات ہے نا کہ ہم سب آئے دن دیکھتے ہیں کہ ناممکن لگنے والے کام کس قدر آسانی سے ہوتے چلے جاتے ہیں. کبھی ذرا سی کوشش سے کبھی کسی کے ساتھ دینے سے، کبھی کسی کے ساتھ رہنے سے، تو بس دعا، کوشش، اچھی صحبت کو اختیار کیجیے. ان شاءاللہ آسانیاں میسر ہو ں گی.
تبصرہ لکھیے