قربانی ایک سنت عمل اور وجوبی حکم ہے ہر اس مسلمان کے لیے جو عاقل ،بالغ اور صاحبِ نصاب ہو۔پھر چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔
اب معاملہ یہ ہے کہ صاحبِ نصاب لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس فریضہ سے غفلت برتتی ہے۔کیونکہ قربانی ہر اس شخص پر ہے جس پر صدقئہ فطر ہے۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ صدقئہ فطر کی بنسبت قربانی والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔
ایک طرف تو وہ لوگ جو قربانی کرتے ہی نہیں۔یا پھر پورے گھرانے میں ایک ہی قربانی کو کافی سمجھتے ہیں۔جب کہ حکم یہ ہے کہ اگر گھر کے تمام افراد صاحبِ نصاب ہیں تو تمام پر قربانی واجب ہوگی۔اسی طرح زوجین میں سے ہر ایک اگر صاحبِ نصاب ہے تو دونوں پر واجب ہوگی۔۔۔جس طرح والد کے نماز پڑھ لینے سے بیٹے کی نماز نہیں ہوجاتی یا خاوند کے نماز پڑھ لینے سے بیوی کی نماز نہیں ہوجاتی اسی طرح ایک کے اپنے حصے کی قربانی کرنے سے دوسرے کی اد ا نہیں ہوتی۔یا پھر صاحبِ نصا ب ہونے کے باوجود اپنے حصے کی قربانی کے بجائے کسی کی طرف سے قربانی کرتے ہیں بہت سے لوگوں سے سنا کہ جی پچھلی بار اپنی طرف سے کی تھی اب کی بار اماں کی طرف سے کروں گا۔ جبکہ حکم یہ ہے کہ جس پر واجب ہے اس کی طرف سے تو ضروری ہے ہاں اگر زائدحصوں کی توفیق ہو تو دیگر کی کرسکتے ہیں لیکن اول تو اپنی طرف سے کرنی ہوگی۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ قربانی کے بجائے دِکھلاوا نظر آتا ہے۔ اور نام نمود کی خاطر یا محض لوگوں کی واہ واہ کی خاطر مہنگے سے مہنگے جانور لائے جاتے ہیں۔۔اگر چہ اصل یہی ہے کہ قربانی کے لیے حیثیت کے موافق بہترین جانور کا انتخاب کیا جائے۔لیکن ریاکاری تو عمل کو ضائع کردیتی ہے۔
پھر ذبح کے عمل کو دیکھیں تو اس میں بھی بہت سی قابلِ اصلاح باتیں نظر آتی ہیں۔مثلا
جانور کو اتنا زور سے گراتے ہیں کہ اسے تکلیف ہوتی ہے۔ بہت سی جگہوں پر دیکھا کہ گویا جانور کے ساتھ کشتی ہورہی ہے۔ جبکہ حکم یہ ہے کہ جس قدر آسانی سے ہوسکے ذبح کیا جائے۔
اور پھر جانور کو گرانے کے بعد قبلے رخ کرنے کے لیے اسے گھسیٹا جا رہا ہے۔حالانکہ قبلہ رخ کرنا ضروری نہیں۔آسانی سے ہوجائے تو اچھا وگرنہ اسکے لیے جانور کو تکلیف دینا درست نہیں۔
یا گرانے کے بعد چھری تیز کرنے کا خیال آتا ہے۔اور جانور کو گرانے کے بعد چھری تیز کی جارہی ہوتی ہے۔یہ بھی نامناسب عمل ہے۔
اور ذبح کرتے ہوئے اس قدر افرا تفری کا عالم پیدا ہوجاتا ہے۔ کہ بسملہ اور تکبیر بھی کہنا بھول جاتے ہیں ۔جو کہ بہت خطرناک بات ہے۔کیونکہ اگر وقتِ ذبح تکبیر نہ کہی تو جانور حلال نہ ہوگا۔
پھر ذبح کے فورا بعد ہی جبکہ جانور میں کچھ جان باقی ہوتی ہے۔ کھال اتارنا شروع کردیتے ہیں کیونکہ قصائی بھائیوں کو اور بھی کئی جگہوں کی طرف جانا ہوتا ہے۔
ایک اور عمل دیکھنے میں آیا کہ قربانی کے بعد جانور کے خون میں ہاتھ رنگ کر گھروں کی دیواروں پر لگاتے ہیں کچھ لوگ۔جبکہ خون نجس اور حرام چیز ہے۔جہالت کی انتہاء ہے۔
بہت سے لوگ جانور کی رسی ،کھال ، گوشت یا پائے قصائی کو بطورِ اجرت دے دیتے ہیں جو کہ جائز نہیں۔
گذارش ہے کہ اپنی قربانی کو اللہ تعالٰی کے قرب کا ذریعہ بنائیں اور اس مبارک عمل کو غیرشرعی اور غیر اخلاقی اعمال سے پاک رکھیں۔
اللہ تعالیٰ دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور تمام امت مسلمہ کی قربانیوں کو مقبول فرمائے۔آمین
تبصرہ لکھیے