پیاری لائبہ!
ذرا سا ٹھہرنا بیٹا! میں پہلے تمہیں یہ بتادوں کہ آخر میں آپ کویہ خط کیوں لکھ رہا ہوں۔ دراصل آپ بچہ لوگ اتنے ذہین ہوتے ہو اور اتنے اچھے ہوتے ہو کہ ہم جیسے بڑوں سے زیادہ نئی نئی چیزوں کے بارے میں جانتے ہو اور ہر چیز کے بارے میں کئی طرح سے اچھا اچھا اور پیارا پیارا سا سوچتے بھی بہت رہتے ہو۔ اور پھرسوچ سوچ کے سوال بھی ایسے کرتے ہو کہ سچ بتاؤں تو جن کے ہم بڑوں کو بھی جواب نہیں آتے۔ اس پر ہم بڑے شرمندہ ہو جاتے ہیں۔
پیاری بیٹی! اس کا حل ہم بڑوں نے یہ نکالا ہے کہ آپ بچہ لوگوں کے کسی مشکل سوال سے پہلے ہی ہم اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی وضاحت دے دیتے ہیں۔ وضاحت کا تو پتا ہے نا آپ کو؟ یعنی Explanation نہیں بیٹا Excuse نہیں Explanation . لگتا ہے کہ آپ کچھ کچھ شرارتی بھی ہو، یعنی بہت ذہین ہو۔ شرارتی بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ اور ہاں ویسے سچ کہو تو ہماری یہ Explanationبھی ایک Excuse ہی ہوتی ہے۔
لہٰذا اس سے پہلے کہ آپ دل ہی دل میں یہ سوچ کر اپنے چچا پر پیاری سی ہنسی ہنسنے لگو کہ آپ کے اس والے انکل کے پاس شاید فون کرنے کے لیے موبائل ہی نہیں ہے۔ یعنی شاید 3310والا نوکیا بھی نہیں ہے۔ تو دیکھو، بیٹا ایسا نہیں ہے۔ موبائل تو میرے پاس بھی ہے اور بیٹا! سچ کہہ رہا ہوں، آج تو بیلنس بھی ہے ۔ لیکن پیاری لائبہ! ایک بات بتاؤں؟ بیٹا اصل میں کچھ باتیں کہی تو کئی طرح سے جاسکتی ہیں مگر وہ کسی ایک طرح سے زیادہ اچھی طرح بھی کہی جاسکتی ہیں۔ یہ بات سمجھنا آپ کے لیے بالکل مشکل نہیں ہوگا۔ کیونکہ آپ کو وہ والا طریقہ تو ضرور آتا ہو گا نا کہ جب آپ کو اپنی کوئی اچھی سی فرمائش اپنے پاپا یا مما سے منوانا ہوتی ہوگی تو آپ ضرور کسی خاص طریقے سے ہی بات کرکے، اپنی وہ بات منوالیتی ہوں گی۔ ایسے طریقے آپ بچوں کو اور بچوں کی مما جانوں کو بھی بہت آتے ہیں۔
تو خیر، اب مجھے امید ہے کہ آپ ضرور میری بات غور سے سن لیں گی۔ کیا کہا؟ سن نہیں لیں گی، پڑھ لیں گی؟ اوہ! اچھا اچھا! آپ نے ٹھیک ہی کہا ہے بیٹا۔ سننے کے بجائے آپ تو پڑھیں گی۔ دیکھا! میں نے کہا تھا نا کہ آپ لوگ بہت ذہین بچے ہو اور ہرطرح سے سوچتے بھی بہت ہو۔ تو ٹھیک ہے مجھے یہی کہنا چاہیے تھا کہ آپ میری بات پڑھ لو گی۔ ظاہر ہے خط پڑھا ہی جاتاہے ،سنا نہیں جاتا۔
اچھا تو بیٹاسنو! آپ ایک بہت ہی پیاری سی بیٹی ہو، بہت ہی پیاری۔ اتنی پیاری کہ جس کا بابا اتنا مصروف ہونے کے باوجود بھی اپنی بیٹی کو خط لکھتا ہے۔ اور پھر اتنے پیار سے لکھتا ہے کہ بہت سے بچے اب سوچا کریں گے کہ ان کے بابا بھلا انہیں ایسا اچھا خط کیوں نہیں لکھتے؟ اے بیٹی! ذرا کان پاس لانا، تاکہ میں ایک راز کی بات بتاؤں آپ کو۔ دیکھنا! کہیں آپ کی آنٹی نہ سن لیں ورنہ وہ پھر ایک اور خط لکھ دیں گی۔
بات یہ ہے بیٹا جانی کہ آپ تو اس سے بھی کہیں زیادہ خوش قسمت ہو۔ اس لیے کہ آپ کو ایک بہت پڑھے لکھے اور پیار کرنے والے بابا ملے ہیں۔ دیکھیں وہ آپ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر فلم بھی دیکھ لیتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے؟ ایسے بابا سب کے نہیں ہوتے۔ پھر بیٹا !آپ کی سب سے بڑی خوش قسمتی تو یہ ہے کہ آپ کے بابا اتنے پیارے ہونے کے ساتھ ساتھ آپ سے ایسی اچھی اچھی باتیں بھی کرتے ہیں کہ جن کا فائدہ آپ کو بہت بعد تک بھی ہوتا رہے گا۔ اور وہاں کی نئی دنیامیں بھی ہوتا رہے گا کہ جہاںہم سب نے چلے جانا ہے۔
آپ یوں سمجھیں کہ یہ ایک پریوں کا دیس ہے اور بڑا ہی خوبصورت دیس ہے۔ وہاں بہت سے رنگ برنگے کھلونے ہیں اور ڈھیر ساری تتلیاں، چاکلیٹیں اور اتنے پیارے پیارے کپڑے، جوتے اور اتنا کچھ ہے کہ بس کیا ہی بتاؤں۔ یہ نا بیٹا! بس آپ ہی جیسے اچھے اچھے بچوں کے لیے دنیا بنی ہے۔ وہ بچے جو اپنے ایسے اچھے اچھے بابا جانوں کی اچھی اچھی باتیں سنتے اور پھر مانتے بھی ہیں۔ ان کے لیے۔
بیٹا! میں دراصل آپ کو یہ خط اس لیے نہیں لکھ رہا کہ آپ کے بابا جان نے آپ کو ایک خط کیوں لکھ دیا۔ وہ آپ کے بابا ہیں اور روز آپ کو خط لکھ سکتے ہیں۔ دراصل میں اس لیے خط لکھ رہا ہوں بیٹا کہ اس کے بعد آپ کی ایک آنٹی نے بھی آپ کے نام ایک خط لکھ دیا ہے۔ جس میں اس پیاری سی آنٹی نے آپ کے پیارے سے بابا کو تھوڑا تھوڑا wrong بھی کہا ہے۔ بھلا آپ ہی بتائیے کبھی اتنے پیارے بابا بھی رونگ ہوتے ہیں؟ ہوتے بھی ہوں تو بیٹا سب کے سامنے اگر انہیں رونگ کہیں گے تو ہماری پیاری سی بیٹی لائبہ ناراض اور پریشان بھی ہوجائے گی نا۔ یہ تو بری بات ہوئی نا بیٹا! کسی آنٹی کو بچوں کو یہ تو نہیں سکھانا چاہیے نا؟
سنو بیٹی جی! آپ ایک بات زندگی میں کبھی بھولنا نہیں، یہی ایک آنٹی ہی نہیں، آپ کو زندگی میں بہت سے دوسرے بھی ایسے کئی لوگ ملیں گے۔ وہ آپ سے بہت پیار کرتے نظر آئیں گے۔ لیکن بیٹا وہ اگر یہ کہیں کہ آپ کے بابا اور ماما سے بھی زیادہ وہ آپ سے پیار کرتے ہیں تو بیٹا یہ جھوٹ ہوگا۔ سنو، بیٹا! ایسی باتوں کی اچھی طرح سمجھ تب آتی ہے، جب اللہ ہمیں بڑے کرتا ہے اور پھر پیارے پیارے سے بچے بھی ہمیں دے دیتا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ اب ان بچوں سے پیار بھی کرو اور انہیں اچھی اچھی چیزیں بھی لا کردو۔
بیٹی جی! اس طرح آپ بھی یہ سب ایک دن جان جائیں گی۔ مگر کافی بعد میں۔ اس لیے ایک تو یہ بات ابھی سے یاد کرلینا۔ پھر بیٹا یہ جو لفظ ہے نا آنٹی۔۔۔! اصل میں یہ پہلے نہیں ہوتا تھا۔ تب نا بیٹا چچیاں، پھپھیاں اور تائیاں، خالائیں وغیرہ ہوتی تھیں۔ اب بیٹا! ان آنٹیوں کے پاس نا، نالج تو بہت ہے مگر بیٹا! نالج کبھی پیار کا بدل نہیں ہوتا اور نہ ماں باپ کی محبت ہی کا۔ ورنہ پڑھے لکھے لوگ اپنے ماں باپ کو کبھی نہ روتے۔
پیاری بیٹی !
آپ کی آنٹی کا خیال ہے کہ آپ کو اپنے بابا کا خط پڑھ کے دکھ ہوا ہوگا۔ لگتا ہے کہ آپ کی آنٹی کو ان کے بابا نے کبھی خط نہیں لکھا۔ ورنہ انہیں پتا چل جاتاکہ بیٹیاں بابا کا پیارا سا خط پڑھ کے خوش ہوتی ہیں، پریشان نہیں ہوتیں۔ انہوں نے لکھا کہ آپ کے بابانے خط میں بیٹوں کو کچھ نہیں لکھا۔ دیکھا آپ نے؟ آنٹی جی کو یہ بھی نہیں پتا کہ جب یہ خط بیٹوں کو لکھا ہی نہیں گیا اور بس آپ ہی کو لکھا گیا تھا تو پھر اس میں کسی اور سے کیسے بات کی جاتی؟ اور بیٹا یہ بھی غور سے سننا کہ جو راز کی باتیں اپنوں سے ہوتی ہیں، وہ سبھی سے نہیں ہوتی ہیں۔ آنٹی نے کہا کہ آپ کے بابا نے خط میں بیٹوں کو حیا نہیں سکھائی۔ مجھے لگتا ہے یہ آنٹی مذاق کررہی ہیں۔ وگرنہ اگر یہاں نہیں لکھا تو بھلا یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ انھوں نے بیٹوں کو کلین چٹ دے دی ہے۔ پھر بیٹا اس آنٹی سے پوچھیے گا کہ آپ اپنے پیسے تالے میں رکھنے کی بجائے، چوروں کو کیوں نہیں سمجھاتیں کہ وہ چوری ہی نہ کریں۔ ظاہر ہے اس سے معاشرہ کتنا اچھا ہوجائے گا۔ ویسے پوچھیے گا تو سہی بیٹا کیا پتا آنٹی صاحبہ پیسے واقعی گلے کے بجائے گلی ہی میں رکھتی ہوں۔
بیٹا! آپ تو سکول جاتی ہو، آپ کو تو پتا ہے کہ اپنی چیز کی خود ہی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ خود لاپروائی کریں تو ٹیچر ہمیں بھی ڈانٹ دیتی ہے کہ آپ نے اپنی چیز کا خود کیوں خیال نہیں رکھا۔ ہاں اگر ہم نے خیال رکھا ہو اور چیز گم ہوجائے توٹیچر ہمیں نہیں ڈانتی ۔اور بیٹا! آپ کو پتا ہے ناکہ جوچیز جتنی زیادہ قیمتی ہو، اتنا ہی اس کا زیادہ خیال بھی رکھا جاتاہے۔ بیٹا یقین ماننا کہ آپ کے بابا اور ماما کے پاس آپ سے زیادہ قیمتی چیز اور کوئی نہیں۔ ان کی دولت تو کیا ان کی جان بھی نہیں۔ بیٹا آپ کے اس انکل کی ابھی کوئی بیٹی نہیں۔ مگر اس انکل کے بچوں اسید، حمید اور عزیر کی مما جان بھی ایک بیٹی ہیں۔ آپ کے انکل کی مما بھی ایک بیٹی ہیں۔ میرے بابا کی بھی ایک بیٹی ہے، یعنی میری بہنا۔ بیٹا کیا بتاؤں کہ یہ سب اتنی اچھی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتیں تو آپ کے انکل بالکل بھی نہ ہوتے اور اچھے تو بالکل بھی نہ ہوتے۔ تو دیکھا آپ نے کہ جو بیٹیاں اتنی قیمتی ہوں کہ ان کے ہونے سے ہم زندہ ہوں تو کیا اب ہم ان کی قدر اور ان کا خیال بھی نہ کریں۔
ایک بات اور سننا بیٹا!
آپ کی آنٹی کہتی ہیں ’’دینی تعلیمات اور معاشرتی روایات کا بھی خیال رکھنا۔‘‘ آپ پوچھیے گا تو سہی کہ اچھی آنٹی جی! یہی تو میر ے پیارے بابا جانی نے لکھاہے۔ پھر میرے بابا آپ کے نزدیک غلط کیسے ہیں؟ آنٹی نے کہا کہ آپ کے بابا کی محبت میں ڈر چھپا ہے۔ بیٹا! تو اس میں بھلا برا ہی کیا ہے؟ ڈر نہ ہو توبھلا محبت ہوتی بھی ہے۔ بیٹا! جس کے پاس قیمتی چیز ہو وہ اس کی حفاظت کے لیے چوروں سے ڈرے تو اس میں کیا غلط ہے۔ بیٹا! یہ توبس محبت ہے، ہمارا تو ایمان بھی ڈر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ بے ڈر تو بس وہی ہوتا ہے جس میں عقل نہ ہو۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ کئی پاگل لوگ آگ میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ اگر آگ سے نہ ڈرنا ہی اچھی بات ہوتی تو ضرور آپ کی آنٹی بھی آگ میں ہاتھ ڈال دیتیں؟ لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ کبھی آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتیں، وہ بھی آگ سے ڈرتی ہیں۔ وہ چھپکلی سے بھی ڈرتی ہوں گی۔ مگر آپ کے بابا کو ایسے ہی ڈرنے والا کہہ رہی ہیں۔ آنٹی جی نے یہ بھی کہا، آپ آرٹ مووی دیکھیں گی تو آپ کے بابا کے ڈر کا کیا عالم ہوگا؟ انہیں کہیے گا آنٹی جی ہر چیز کا ایک وقت اور ایک عمر ہوتی ہے۔ آپ کے بابا جیسے اچھے لوگوں کی یہ پیاری لائبہ پہلی بیٹی نہیں ہے۔ پوچھیے گا آنٹی جی! کیا آپ بچوں کو پالنے میں ہی آرٹ مووی دکھانے لے جاتی ہیں؟ بیٹا! اپنی اچھی آنٹی کو یہ بھی بتائیے گا کہ اگر کوئی پیاری بیٹی سے اچھی بات کرلے تو ا س کایہ مطلب نہیں ہوتاکہ اب لازماً ہی باپ نے ابو بکر کا راستہ چھوڑ کرکوئی اور راہ اپنالی ہے۔ برے لوگ ہی نہیں اچھے لوگ بھی اچھی بات کرلیتے ہیں۔ یہ ضرور آنٹی کو بتادیجیےگا۔
آنٹی جی سے یہ بھی کہیے گا کہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک ہی گھر میں رہ کے مکتوب اور مکتوب الیہ (مشکل سے لفظ ہیں نا؟ اللہ آنٹی سے سمجھے!) کی تفصیل نہ ہی لکھی جائے۔ بیٹا! یاد ہے نا جب آپ نے کوئی بات منوانی ہو اور پاپا مان نہ رہے ہوں تو آپ کیا کہتی ہیں؟ پاپا! کیا میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں؟ تو کیا اس وقت پاپاکو پتا نہیں ہوتا کہ آپ ان کی بیٹی ہی ہیں؟ پتا ہی ہوتا ہے، مگر یہ محبت اور لاڈ کا اظہار ہوتا ہے۔ کچھ چیزوں کا ذکرعلم میں اضافہ کرنے کے لیے نہیں، احسا س دلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
مثلاً: آپ کو پتا ہے ناکہ یہ حج کے دن ہیں۔ انہی دنوں ہمارے پیارے نبی نے مکہ شہر میں اپنے ساتھیوں سے پوچھا تھاکہ یہ کون سا شہر ہے؟ کون سا مہینہ ہے؟ اور کون سا دن ہے؟ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا آپ نہیں جانتے تھے یا آپ کے ساتھی یہ سب نہیں جانتے تھے؟ جانتے تھے۔ توبیٹا! یہ جو آپ کے بابا نے آپ کو خط میں بتایا ہے کہ وہ خط کہاں سے لکھ رہے ہیں تو اس پر آپ کے بابا کو ایسی کسی بھی آنٹی سے ٹیوشن لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں آنٹی جی کو یہ ضرور سیکھنا چاہیے کہ بچے کس سطح کی زبان میں لکھا گیاخط پڑھ سکتے ہیں۔ اور یہ کہ بڑوں کی لڑائی بچوں کے ذریعے لڑنا کم ازکم مہذب گھروں اور پڑھے لکھے لوگوں کا طریقہ نہیں ہوتا۔
آنٹی جی کو یہ بھی بتائیے گاکہ یہ جو انہوں نے آپ کو فرشتوں کی حفاظت کی دعا دی ہے، اس پر ان کا بہت شکریہ، یہ بھی لیکن بتا دیجئے گا کہ فرشتے ان کی حفاظت کبھی نہیں کرتے جو خود اپنی حفاظت کی ضرورت ہی نہ محسوس کرتے ہوں۔
پیاری بیٹی !
خط طویل ہوگیا۔ آپ بور ہوگئی ہوں گی۔ مجھے معاف کردینا بیٹا! اب اس وقت عید شروع ہونے میں چند ہی گھنٹے رہ گئے ہیں، اس لیے مجھے جلدی جلدی لکھنا پڑا۔ جلدی جلدی لکھی بات لمبی ہوجاتی ہے۔ دعاہے کہ اللہ آپ جیسی ساری پھول سی بچیوں اور ان کے پیارے بابا جانوں کو ایسی دوری پیدا کرنے والی آنٹیوں سے بچائے۔ لیجیے اب آپ مزے سے عید کیجیے۔ ہاں یہ بھی بتائیے گا کہ بہاولپور میں گرمی لاہور سے زیادہ تو نہیں ہے؟ اور ہاں وہاں اب اچھے آم تو نہ ملتے ہوں گے۔ سیزن جوختم ہوگیا ہے، اس لیے آموں کی ضد نہ کرنا۔ پتا نہیں اب آپ کے بابا وہاں کیا کھائیں گے۔ خیر، جو بھی کھائیں، انہیں سلام کہنا۔
آپ کا پیارا
ایک انکل (غور سے پڑھنا، دیکھنا کہیں، مجھے اینکل نہ پڑھ جانا!)
اللہ حافظ !
تبصرہ لکھیے