حج مسلمانوں کا ایک مذہبی اجتماع ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلام صرف انسان کی انفرادی زندگی کا قائل ہرگز نہیں ،بلکہ اجتماعی نظام کا علمبردار ہے ۔ اس اجتماعی نظام میں سیاست ، معیشت ، ملکی و غیر ملکی مسائل سب چیزیں اسلام کے دائرہ کار میں آتی ہیں ۔ اس سال خطبہ حج شیخ السدیس حفظہ اللہ نے دیا ، ہمارے کچھ محترم تجزیہ نگاروں نے خطبہ حج میں سے چند متنازعہ پوائنٹس کو ہائی لائٹ کیا ہے ۔ جن میں سے کچھ کا تعلق براہ راست پاکستان سے ہے اور باقی کا سعودیہ اور امت مسلمہ سے۔
1۔کشمیر کا ذکر نہ ہونا
2۔ سعودی خارجہ پالیسی پر مبنی خطبہ
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو کشمیر کے معاملے پر سعودی عرب کا کردار مثالی رہا ہے ۔ اب اس کے لیے یہ قطعا لازم نہیں ہے کہ حج میں اس کا ذکر نہ ہونا سعودی کی خارجہ پالیسی کو واضح کرتا ہے کہ وہ کس جانب جا رہے ہیں۔ ایک قانون ہے کہ عدم ذکر عدم تشی کو مستلزم نہیں ہوتا ۔کچھ احباب نے مودی کےدورہ ریاض میں آؤ بھگت کو اس کا پیش خیمہ بتایا ہے۔ ہم نتائج نکالنے میں بالکل دیری نہیں کرتے اور زمینی حقائق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ جب اپریل 2016 میں مودی دورہ سعودی پر گیا اور وہاں اس کو پروٹوکول ملا تو جیسے ہی وہ واپس آیا سعودی حکومت نے پاکستان اور کشمیر کے بارے میں خارجہ پالیسی کو واضح کرتے ہوئے او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اس سے پانچ دن بعد ہی اپنی پالیسی واضح کردی کشمیر کے ایشو پر ۔جس پر انڈین اخبار "دا ٹیلی گراف " میں یہ عنوان چھپا SAUDI SNUB ON KASHMIR
یہ ہیں زمینی حقائق کہ انڈین میڈیا رو رہا ہے کہ مودی کا دورہ ناکام گیا سعودیہ نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور ہمارے دوستوں کو اعتراض ہے سعودیہ نے اپنی پالیسی حج کے ذریعے واضح کردی ہے ۔21 اگست 2016 کو او آئی سی نے کشمیر میں ریفرنڈم کا کہا اور عیاد المدنی نے یہ واضح کہا کہ کشمیر انڈیا کا اندرونی معاملہ ہر گز نہیں ۔اور دو چار دن پہلے انہوں نے میر واعظ کو نیو یارک میں بلا بھیجا ہے تاکہ اقوام متحدہ 71 ویں اجلاس میں اس ایشو کو اٹھایا جاسکے ۔ کاش ہم اپنے مفروضے قائم کرنے سے پہلے ذرا سعودیہ کی کشمیر پالیسی پرنظر ثانی ہی کر لیتے ۔آخر کیا ہوگیا اگر کشمیر کا نام حج کے خطبے میں نہیں لیا گیا ۔ کئی سالوں میں جو نام لیا اس کو ہم کتنا مانتے ہیں ۔ جو کچھ اب سعودیہ اس ایشو پر کررہا ہے اس کی کیا وقعت ہے ہماری نظر میں ۔ میرے خیال میں یہاں ایک اور پہلو بھی ہے کہ جتنے عازمین حج پاکستان سے جاتے ہیں اس سے زیادہ انڈیا سے جاتے ہیں اور انڈین مسلمان کشمیرکو اپنا بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں کیونکہ وہاں رہنے والوں کی اکثریت کا نظریہ ابوالکلام اور حسین احمد مدنی کی فکر ہے اور ان کے نزدیک " پارٹیشن " کوئی اچھی چیز نہ تھی ۔ حج کے موقع پر کشمیر کا نام لینا دراصل پاکستان کی حمایت ہی ہے اور ان انڈین مسلمانوں کے ذہن میں وہی بات کہ سعودیہ حج کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔ اس اختلاف کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
دوسری بات جو کچھ دوستوں نے لکھی ہے وہ یہ ہے کہ سعودیہ ایک مذہبی فریضہ کو سیاسی نوعیت کے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ جن احباب کو یہ اعتراض ہے کہ سعودیہ نے کشمیر کا ذکر کیوں نہیں کیا ان کا ہی یہ اعتراض ہے سعودیہ اپنی فارن پالسی کو یہاں کیوں لے کے بیٹھ جاتا ہے ۔ ایک ہی وقت میں ہم کشمیر کا ذکر خطبہ میں چاہتے اور دوسرے ہی وقت میں چاہتے ہیں کہ کوئی سیاسی بات یہاں زیر بحث سر سے آئے ہی ناں ۔ حج مسلمانوں کا ایک مذہبی اجتماع ہے اسلام میں سیاست مذہب سے جدا ہرگز نہیں ہے اس لئے ایسی باتیں جو مسلمانوں کے مشترکہ مفادات میں ان کا ذکر آنا بالکل صحیح ہے ۔ جیسے فلسطین کا ذکر ، امت مسلمہ کا نظریہ ، اتحاد امت اور تفرقہ بازی کا خاتمہ یہ سب مسائل سیاسی نوعیت کے بھی ہیں اور مذہبی نوعیت کے بھی ہیں ۔ جب اجتماع مسلمانوں کا ہے تو مسائل اور ان کا حل بھی زیر بحث آنا چاہئے اس پر اعتراض ہی غلط ہے۔
اس حج میں شیخ عبدالعزیز کو خطبہ سے منع کیا گیا اس کی وجہ ان کا ایران کے متعلق متنازعہ فتویٰ ہے ۔اب ایک نظر سے دیکھیں تو یہ امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے ایک بہترین اشارہ ہے لیکن دوسری طرف سے دیکھیں تو سعودیہ کی خارجہ پالیسی کا اشارہ ہے ، ایسے میں ہمارا اس عمل کو صرف سعودیہ کے مفادات کے ساتھ لف کردینا انتہا درجے کی زیادتی ہوگی کیونکہ یہ امت کے مفاد میں تھا ۔ ہاں جس بات پر امت مسلمہ کا اعتراض صحیح ہوتا ہو اگر وہ ایران مخالف بیانات حج پر بھی دیتے یا کسی بھی مسلم ملک کے بارے میں کوئی غلط بات کہتے ۔لیکن یہ خطبہ تو دہشت گردی کے لئے زہر قاتل تھا اتحاد امت کے لئے ایک بہترین نسخہ لیکن ہم اس کو بھی متنازعہ بنانے پر تلے ہیں ۔اس خطبہ نے یہ بھی واضح کردیا کہ سعودی عرب اتحاد امت کا داعی ہے اور فرقہ پرستی اور دہشت گردی کا دشمن ہے ۔
تبصرہ لکھیے