ہر سال چھ ماہ کے دوران کوئی نہ کوئی سرکردہ مقامی یا بین الاقوامی ادارہ پاکستان کے مسلسل زوال پذیر نظام تعلیم کے گال پر اعداد و شمار کا ایک تازہ زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیتا ہے۔ اب تو یہ گال اس قدر سخت ہو چکے ہیں کہ یہی معلوم نہیں پڑتا کہ داہنے پر پڑا کہ باہنے پر۔ شرم بھی ایک حد تک آتی ہے۔ پھر شرم کو بھی آتے ہوئے شرم آنے لگتی ہے۔
تازہ ترین گھونسہ اقوامِ متحدہ کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ کی شکل میں لگا ہے جس کے مطابق اگرچہ پاکستان سمیت کئی ممالک نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سال دو ہزار تیس تک اپنی آئینی و بنیادی حقوق کی ذمے داری کا پاس کرتے ہوئے اپنے تمام بچوں کو کم از کم سیکنڈری لیول تک تعلیم دینے کا ہدف حاصل کر لیں گے مگر حالت یہ ہے کہ پاکستان میں پرائمری لیول پر اس وقت جو بھی تعلیم میسر ہے اس کا معیار بھی ترقی یافتہ دنیا سے کم از کم پچاس برس پیچھے ہے جب کہ سیکنڈری سطح پر تعلیمی معیار ساٹھ برس پیچھے ہے۔
اقوامِ متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق اس وقت افریقی ملک لائبیریا میں باسٹھ فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ دوسرے نمبر پر پاکستان ہے جہاں چھپن فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ ایک جانب یہ حال ہے کہ گلگت بلتستان کے ایک ضلع ہنزہ میں خواندگی کا تناسب نوے فیصد ہے مگر باقی گلگت بلتستان کے پچاس فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ سندھ میں بس چوالیس فیصد بچے ہی اسکول کا منہ دیکھ پاتے ہیں۔ فاٹا کے ساٹھ فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں اور بلوچستان میں تو حد ہی ہو چکی ہے یعنی اسکول جانے کے قابل ستر فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔
بلوچستان میں تعلیمی زوال کے لیے کم از کم لفظ ہے سانحہ۔ وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارت وال نے دو روز قبل عالمی یوم خواندگی (آٹھ ستمبر) کے موقع پر اعتراف کیا کہ ایک المیہ یہ ہے کہ ایک سو میں سے تیس بچے ہی پرائمری اسکول جا پاتے ہیں پھر ان تیس بچوں میں سے بھی صرف دس تا بارہ بچے ایسے ہوتے ہیں جو پانچویں جماعت تک پہنچ پاتے ہیں اور ان دس تا بارہ بچوں میں سے صرف پانچ یا چھ بچے ایسے ہوتے ہیں جو مڈل لیول تک (آٹھویں جماعت) پہنچ پاتے ہیں اور پھر آٹھویں سے میٹرک تک کتنے پہنچ پاتے ہوں گے اس کا اندازہ آپ خود بھی لگا سکتے ہیں یعنی کہنے کو تو بلوچستان میں خواندگی کی سرکاری شرح اکتیس فیصد کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے مگر عملاً حالت یہ ہے کہ سو میں سے بارہ بچے پرائمری، پانچ سے چھ بچے مڈل اور دو سے تین بچے میٹرک مکمل کر پاتے ہیں۔ اس اعتبار سے سو میں سے بس ایک بچہ اور آدھی بچی کالج کا منہ دیکھ پاتے ہیں۔
بلوچستان میں پرائمری اسکولوں کی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے تاہم ان میں سے پانچ ہزار اسکول ایسے ہیں جو ایک ٹیچر اور ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔ اسی فیصد مڈل اسکولوں میں سائنس روم نہیں اور پانچ سو کے لگ بھگ ہائی اسکولز (تقریباً پچاس فیصد) میں سائنس کی بنیادی لیبارٹری نہیں۔ سائنسی تعلیم کا کیا رونا جہاں اسی فیصد پرائمری اسکولوں میں چار بنیادی سہولتیں یعنی چار دیواری، پینے کا پانی، بیت الخلا اور بجلی تک نہیں۔ اوپر سے اسکول دور دور ہونے اور ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی کے سبب غربت زدہ والدین جیسی کیسی تعلیم کے حصول کے لیے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بھی چاہیں تو فاصلے مار جاتے ہیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں بچوں کا انرولمنٹ بہتر دکھانے اور عالمی اداروں سے شاباشی و گرانٹ سمیٹنے کے لیے پرائمری لیول پر تین لاکھ ایسے بچوں کے ناموں کا بھی اندراج کیا گیا جن کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اس دوران نو سو کے لگ بھگ ایسے بھوت اسکول بھی دریافت ہوئے جن کا وجود صرف کاغذ پر تھا مگر بھوت اساتذہ بھوت بچوں کو پڑھانے کے عوض تنخواہ البتہ اصلی کرارے نوٹوں میں لے رہے تھے۔ مرے پے سوواں درہ یہ پڑا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران بلوچستان میں تعلیمی بجٹ کی مد میں لگ بھگ دس ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ موجودہ مالی سال میں یہ رقم گھٹا کر چھ ارب پینسٹھ کروڑ روپے کر دی گئی۔
تو کیا بلوچستان کے تعلیمی المیے کا تعلق وہاں پر جاری بدامنی سے ہے؟ غربت سے ہے؟ نظام سے ہے یا پھر سفاکی سے؟ الف اعلان نامی ایک سر کردہ تعلیمی این جی او ہر رکن پارلیمان و صوبائی اسمبلی کے حلقے میں تعلیمی ترقی و تنزلی کا ایک چارٹ جاری کرتی ہے۔ یہ چارٹ مجرمانہ تعلیمی غفلت کی ذمے داری کے تعین میں شائد ہماری کچھ مدد کر سکے۔ چارٹ کے مطابق کوئٹہ اور اس کے مضافات کو چھوڑ کے بلوچستان کے تمام اضلاع ایک سو بیس پاکستانا اضلاع کے تعلیمی چارٹ میں اوپر کے سو اضلاع کی فہرست سے باہر ہیں۔
مثلاً بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا عبدالواسع کا ضلع قلعہ سیف اللہ الف اعلان کی تعلیمی درجہ بندی کی فہرست میں ایک سو تیرہویں نمبر پر ہے حالانکہ مولانا صاحب اپنے حلقے سے چھ بار رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ بلوچستان کے وزیراعلی ثنا اللہ زہری کا ضلع خضدار تعلیمی پسماندگی کے اعتبار سے ایک سو بیس اضلاع میں سے ایک سو نویں درجے پر ہے حالانکہ زہری صاحب اس حلقے سے تین بار اسمبلی کے لیے اور ایک بار سینیٹ کے لیے منتخب ہو چکے ہیں اور اگر وہ کبھی بھی الیکشن نہ لڑیں تب بھی ان کے اختیار پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ طاقتور زمینی خداؤں میں سے ایک ہیں مگر زہری صاحب کی رعایا کی تعلیم ترجیحاتی فہرست میں پست ترین سطح پر ہے۔
بلوچستان کا تعلیمی حال اتنا برا ہے کہ تعلیمی درجہ بندی میں سب سے اوپر اسلام آباد، دوسرے نمبر پر آزاد کشمیر، تیسرے نمبر پر پنجاب، چوتھے نمبر پر گلگت بلتستان ریجن، پانچویں نمبر پر خیبرپختونخوا، چھٹے نمبر پر سندھ، ساتویں پر فاٹا اور آٹھویں درجے پر بلوچستان ہے۔ جب صرف ایک بیوروکریٹ کے گھرسے پچھتر کروڑ روپے کیش برآمد ہو گا تو پھر تعلیم کے نام پر چونی بھی مختص ہو جانا کسی معجزے سے کم نہ جانئے۔
کہنے کو انیس سو اٹھانوے کے گیم چینجر چاغی جوہری دھماکوں کے بعد اب بلوچستان ایک بار پھر پاک چائنا اکنامک کاریڈور کے ذریعے پاکستان کے لیے دوسری بار گیم چینجر بن رہا ہے مگر اس کی اپنی قسمت میں شائد گیم ریزرو ہونا ہی لکھا ہے۔
اگر غربت، بدامنی، کرپشن ہی بلوچستان کی تعلیمی یتیمی کے ذمے دار ہیں تو اس اعتبار سے تو سندھ کو پاکستان کا ہارورڈ ہونا چاہیے کیونکہ یہ صوبہ پاکستان کا مالیاتی انجن اور معاشی دل کہلاتا ہے۔ یہاں تو سو فیصد خواندگی ہونی ہی چاہیے۔ پھر یہ کیا کہ بلوچستان کے بعد تعلیمی لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ سندھ ہے؟ راز کیا ہے؟ منگل کو بروز عیدِ قرباں دیکھیں گے کہ سندھ کے بچوں کا مستقبل کس بے دردی سے قربان ہو رہا ہے اور دیگر صوبے اس مد میں کیا ’’تعلیمی چن‘‘ چڑھا رہے ہیں۔
دلیل شکریه بهت دنون بعد عبدالقادر حسن صاحب کو پژھ سکا همیشه ان کے کالم سے سچ کی خوشبو اتی هے