سب سے پہلے گاندھی کے سیکرٹری ”ماہا دیوڈیسائی“ نے اپنی کتاب ”خدا کے دو خدمت گار“ میں خان برادران کے بارے
میں انکشاف کیے جس کا دیباچہ خود گاندھی جی نے لکھا ”جب غفار خان سے اپنے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی بیوی کے
بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ شادی کے بعد مسلمان ہو گئی تھیں تو غفار خان نے کہا ”میں نے کبھی اس بارے میں نہیں پوچھا، کیونکہ شادی مذہب کی تبدیلی کا باعث کیوں بنے، خاوند اور بیوی اپنے اپنے مذہب کے کیوں نہ پابند رہیں۔“
ایک اور موقع پر ڈیسائی لکھتے ہیں ”غفار خان روزانہ صبح آشرم میں آتے تھے اور گاندھی جی سے تُلسی داس کی رامائن سُنا کرتے تھے وہ صبح شام پرارتھنا (دُعا) میں بھی شامل ہوتے تھے، اُن کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے ایک مرتبہ کہا کہ ”پیارے لال جی، اس بھجن کی دُھن میری روح کو مسحور کر دیتی ہے مہربانی کر کے اُردو رسم الخط میں اس کا ترجمہ کر دیں۔“اپنی آب بیتی میں غفار خان نے لکھا ہے ۔جس کا نام ”جدوجہد“ ہے۔”ہندوآشرموں کی سادہ زندگی مجھے بہت پسند آئی اور مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ یہ خیال آیا کہ میں بھی ”خدائی خدمت گاروں“ کی تربیت کے لئے ایسے ہی آشرم بناﺅں۔“ بعدازاں ڈاکٹر خان صاحب نے چارسدہ کے قریب اسی طرح کا ایک آشرم تعمیر بھی کروایا جس میں ہندو مرد اور عورتیں آیا کرتے تھے۔ اس آشرم کی تعمیر کیلئے کانگریس نے غفارخان کو 25 ہزار روپے کا چندہ بھی ارسال کیا۔
ڈاکٹر خان صاحب نے اپنی بیٹی کو انگلستان سے واپس بلا کر واردھا کے کنیا آشرم میں داخل کروادیا جس کے بارے میں ٹنڈولکر نے اپنی مشہور کتاب میں لکھا ہے”ڈاکٹر خان صاحب کا یہ قدم بہت خوب تھا کیونکہ اگر ایک پٹھان لڑکی انگلستان میں تعلیم پاسکتی ہے تو واردھا کے کنیا آشرم میں تعلیم حاصل کرنے میں کیا دقت ہے۔“ڈیسائی کے کتاب کے صفحہ 98 پر لکھا ہے۔”ڈاکٹر خان صاحب نے اپنے بچوںکو نصیحت کی کہ بہادر بننا اور گاندھی اور جمنا لال جی کے سائے میں سادگی اور تہذیب سیکھنا۔“ڈیسائی کی ہی کتاب سے خان عبدالغفار خان کی گفتگو ملاحظہ ہو۔”مہاتما گاندھی کی زندگی میں جب کوئی مشکل موقع آتا ہے تو میرا دل کہتا ہے کہ اس شخص کا فیصلہ درست ہوگا جس نے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے سپرد کردیا ہے اور خدا کسی کو غلط راستہ نہیں بتلاتا۔“
گاندھی جی کی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے بات چھڑی تو غفار خان نے کہا”گاندھی اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتے ہیں اور پھر اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں‘ سچ تو یہ ہے کہ اس مسلح اعظم کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔“علماءہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں اور فقیہان ہی یہ رائے دے سکتے ہیں کہ خان عبدالغفار خان کے ان نظریات کے بعد وہ کس حد تک مسلمان تھے۔اس موقع پر ڈیسائی کی کتاب ”خدا کے دو خدمتگار“ کے صفحہ 29 پر درج یہ جملہ ملاحظہ کریں‘ غفار خان کہتے ہیں ”مجھے 1930 ءمیں انڈمان کے پنڈت جگت رام نے باقاعدہ گیتا پڑھائی اور اس کا صحیح مفہوم سمجھایا‘ اب تک میں نے تین بار گیتا پڑھی ہے‘
قرآن شریف میں صاف صاف لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر قوم میں ہادی بھیجے ہیں اور وہ سب اہل کتاب ہیں۔“اس مسئلے پر ٹنڈولکر کی کتاب ”خان عبدالغفار “ میں صفحہ 73 پر لکھا ہے۔ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔”مقدس کتاب (قرآن پاک) کہتا ہے کہ اللہ نے تمام قوموں میں لوگوں کےلئے پیغمبر اور ہدایات دینے والے بھیجے اور وہ سب پیغمبر نبی ہیں۔ سارے اہل کتاب ہیں۔ لہٰذا ہندو کسی بھی طرح عیسائیوں‘ یہودیوں سے کم اہل کتاب نہیں۔ جب غفارخان سے پوچھا گیا کہ اکثر مسلمان تو ایسا نہیں سمجھتے تو انہوں نے جواب دیا۔”وہ نہیں سمجھتے کہ ہندو اور ان کی کتاب ”قرآن مقدس“ میں اس لئے نہیں ہیں کہ قرآن مقدس میں فہرست مکمل نہیں ہے اور اس کی حیثیت محض مثال کے لئے ہے۔ مقدس قرآن میں صرف اصولوں کی صراحت کی گئی ہے وہ سب لوگ جو مقدس کتابوں سے متاثر ہوئے وہ اہل کتاب ہیں۔“
ماہا دیو ڈیسائی اور ٹنڈولکر دونوں نے اپنی کتابوں میں ایک ہی واقعہ نقل کیا ہے‘ الفاظ ملاحظہ ہوں۔”غفار خان نے جیل میں گوشت چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور جب تک جیل میں رہے کبھی گوشت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ جیل سے باہر آنے کے بعد بھی یہ طریقہ جاری رکھا۔ اپنی آپ بیتی میں ان کا بیان ملاحظہ ہو‘ صفحہ 634 پر لکھتے ہیں۔”ایک جلسے میں کسی کی شرارت پر بعض لوگوں نے شور مچایا اور میری تقریر کے دوران سوال کیا کہ ”گائے کو ذبح کرتے ہو؟“ میں نے کہا ”میں قصائی نہیں ہوں اور مسلمانی گائے کے ذبح کرنے پر منحصر نہیں ہے۔“اپنے رسالے ”پشتون“ میں غفار خان نے ایک ڈرامہ شائع کیا جس میں ایک حکیم اور دانش مند کے مابین مکالمہ کچھ یوں ہے۔دانش مند….”نہ کوئی نیکی‘ نہ برائی ‘ کم عقل لوگوں نے بعض چیزیں اچھی قرار دی ہیں‘ دوزخ‘ جنت‘ خیروشر‘ جزا اور سزا‘ انصاف اور ظلم تمہارے اندر ہے‘ تو اپنے آپ کو پہچانو‘ کیونکہ جو اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتے ان کے لئے بیوقوفوں نے اپنے لئے خدا بنا رکھا ہے۔
حکیم….”توبہ کرو اور استغفار پڑھو‘ ہوسکتا ہے کہ خدا تم پر رحم کردے اور تمہیں ایمان نصیب ہوجائے۔“دانش مند……..”کس سے رجوع کروں اور کس سے توبہ کروں‘ کون رحم کرے گا‘ تم عقل کے ہوتے ہوئے بھی بیوقوف ہو جو ایسی باتیں کرتے ہو۔“مفتی مدرار اللہ مدرار کے بقول 1969ءمیں غفار خان کانگریس سے ایوارڈ وصول کرنے بھارت گئے اور ان کی تصویریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ ان تصاویر میں غفار خان کے ماتھے پر مسز اندرا گاندھی نے ”قشقاہ“ یعنی تلک لگایا اور غفار خان نے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا‘ اپنی کتاب ”دو خدائی خدمت گار“ میں ڈیسائی نے صفحہ 29 پر لکھا ہے۔”غفار خان کے قدر دان محبت سے اور مخالف نظر سے انہیں سرحدی گاندھی کہتے ہیں۔
غفار خان نے گاندھی کی زندگی کا بڑے غور سے مطالعہ کیا اور ان کی پیروی کی۔ جیل خانے میں نہ صرف وہ ہفتے میں ایک دن روزہ رکھتے بلکہ ایک دن مرن برت بھی رکھتے تھے۔ پچھلے اگست میں مہاتماگاندھی نے سات دن کا برت رکھا تو غفار خان نے کہا کہ میں نے بھی سات دن کا روزہ رکھا اور شام کو صرف نمک ملا ہوا پانی پیا کیونکہ یہ کہنا تنگ نظری ہوگا کہ عام طور پر جس طرح مسلمان روزہ رکھتے ہیں وہی صحیح روزہ ہے۔غفار خان نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے رسول کریم نے اکثر دن رات متواتر روزے رکھے۔ آنحضرت کو کسی غذا کی ضرورت نہ تھی کیونکہ ان کا قول تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں روحانی غذا بھیجتا ہے جبکہ عام انسانوں کو یہ غذا نہیں ملتی۔علمائے کرام ان الفاظ پر خود غور فرمائیں اور یہ فیصلہ دیںکہ کیا ان خیالات کے باوجود غفارخان کو مسلمان کہا جاسکتا ہے؟
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے