ہوم << حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی-ڈاکٹر صفدر محمود

حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی-ڈاکٹر صفدر محمود

dr-safdar-mehmood
جسے آپ سیاسی تجزیے کہتے ہیں میں انہیں سیاسی قتل عام کہتا ہوں۔ اس کی وجہ آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں اس لئے وضاحت کی ضرورت نہیں۔ ویسے میں بھی اس قتل عام میں شامل ہوں لیکن کم کم کیونکہ میری ترجیحات کچھ اور ہیں۔ آج میرا ارادہ کچھ چھیڑچھاڑ کرنے اور آپ سے کچھ مشاہدات شیئر کرنے کاہے۔بھٹوصاحب کے دور ِ حکومت کے اولین زمانے میں میرا ٹرانسفر وزارت ِ اطلاعات و نشریات میں ہوگیا جہاں میں نے کوئی پونے دو برس گزارے۔ میں ایک نوجوان اور جونیئر تھا اور خاموش تماشائی بھی۔
میرا تجربہ و مشاہدہ ہے کہ کوئی بھی حکمران تنقید پسندنہیں کرتاا لبتہ تعریف اور خوشامد پہ خزانےاور اختیارات کے منہ کھول دیتا ہے۔ تنقید ناپسند کرنے کے حوالےسے بھی میرا مشاہدہ ہے کہ کچھ حکمران تنقید برداشت نہیں کرتے اور کچھ پسند نہیں کرتے۔ ایوب خان، یحییٰ خان،ضیا الحق اور بھٹو صاحب تنقید برداشت نہیں کرتے تھے جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو، میاں نوازشریف اور جنرل مشرف تنقید کو ناپسندکرنے والی فہرست میں شامل ہیں چنانچہ بھٹوصاحب کے دور میں وزارتِ اطلاعات میں ایک شعبے یا محکمے کا کام صرف بھٹو صاحب پر تنقید کا جواب دینا ہوتا تھا۔ ایک بار امریکہ کے ایک مشہور اخبار میں بھٹو صاحب کے خلاف تنقیدی تجزیہ چھپا۔ وزارت ِاطلاعات حرکت میں آگئی۔ مشکل یہ تھی کہ نہ اخبار کے اشتہارات بند کئے جاسکتے تھے اور نہ ہی تنقیدی تجزیہ لکھنے والےکو ایف ایس ایف راتوں رات اٹھا کر کسی دلائی کیمپ میںمنتقل کرسکتی تھی کیونکہ یہ اخبار حکومت ِ پاکستان کی رسائی سے ماورا تھا۔ متعلقہ محکمے کی ڈیوٹی لگی کہ وہ اس تجزیئے کے توڑ کے لئے اخبار کو خطوط لکھے۔
چند پڑھے لکھے ماہرین انگریزی نے اس تنقید کے جواب میں خطوط لکھے جو اخبار کے پتہ پر بذریعہ ڈاک سروس بھجوا دیئے گئے۔ یہ مراسلات مختلف ناموں سے لکھے گئے تھے اور مختلف ایڈریس دیئے گئے تھے۔ چندروز کے بعد اس امریکی اخبار نے بھٹو حکومت پر طنز کرتے ہوئے دو خطوط چھاپ دیئے جن کے الفاظ ایک جیسے تھے لیکن لکھنے والے کا نام و پتہ مختلف تھا۔ ہوا یوں کہ متعلقہ محکمے کے ایک افسر نے خود لکھنے کی زحمت گوارہ کرنے کی بجائے اپنے ایک ساتھی کا لکھا ہوا خط اٹھایا اور اس پر اپنا نام و پتہ لکھ کر پی اے سے ٹائپ کروایاا ور ڈاک کے حوالے کردیا۔ مطلب یہ کہ نقل کے لئے بھی عقل درکارہوتی ہے اور سرکاری ملازمین پارٹی کے جذباتی کارکن نہیں ہوتے کہ دل لگا کر جذبے سے کام کریں۔ سرکاری ملازمین تو آسان نسخے ڈھونڈتے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ مجھے یہ واقعہ چالیس برس بعد کیوں یاد آیا؟
یادآنےکی وجہ یہ ہے کہ ’’جنگ‘‘ نے ڈسکس کالم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم پر موصول ہونے والے تبصرے شائع کئے جاتے ہیں۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ حکمرانوں پر تنقید کے جواب میں چھپنےوالے مراسلات کی زبان اور دلائل میں حیرت انگیز مماثلت ہوتی ہے۔ چند روز قبل اس حوالے سے میں بہت محظوظ ہوا ا ور مجھے وزارت ِ اطلاعات کا ذاتی مشاہدہ یاد آگیا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ اس روز میرا کالم ڈسکس ہوا تھا۔ اس کے جواب میں کچھ مراسلات چھپے جن میں چند ایک حق میںتھے اورچندایک مخالفت میں تھے۔مخالفت میں چھپنے والے خطوط کی دلیل یہ تھی کہ حکمرانوں کی نیت پر شبہ نہیں کیاجاسکتا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میں نے سارے کالم میں حکمرانوں کی نیت پر شبے کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا تھا۔
میرا نفس مضمون یا زور اس بات پر تھا کہ حکمرانوں کےرنگین اور مبالغہ آمیز وعدوں پریقین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان میں وعدے پورے کرنے اور خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کی اہلیت ہوتی ہے نہ وژن۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تاریخ میں آج تک کسی بھی حکمران کے وعدے، منشور اور دکھائے گئے رنگین خواب شرمندہ ٔتعبیر نہیں ہوئے۔ بات نیت کی نہیں، بات ا ہلیت، بصیرت اور کارکردگی کی ہے۔ میں پاکستان کی تاریخ کا طالب علم بھی ہوں اورعینی شاہد بھی..... میں نےگزشتہ پانچ دہائیوں میں ہر بار یہی دیکھا ہے کہ ہر حکمران تخت نشین ہوتے ہی کرپشن کے خاتمے، معاشی ترقی اور مہنگائی کنٹرول کرنے اور نظام کی بہتری کے وعدے کرتا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ان وعدوں کے برعکس کرپشن روز بروز بڑھتی رہی ہے، معاشی صورتحال تنزل پذیر اور مہنگائی بگ ٹٹ گھوڑے کی مانند بھاگتی رہی ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے تعلیم کا نظام جس طرح بگڑا اورہمارا تعلیمی معیار جس طرح تنزل پذیر ہوا ہے، وہ ایک قومی سانحے سے کم نہیں جبکہ پاکستان کی ہر حکومت تعلیمی بہتری کے وعدے کرتی رہی ہے۔ اس وقت صورت یوں ہے کہ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے تقریباً 70 برس گزارنے کے باوجود پاکستان خواندگی کی شرح، اعلیٰ تعلیم کے معیار، سائنسی ریسرچ اور سوشل سائنسز کے میدان میں تخلیق و ترقی کے حوالے سے عالمی سطح پر نہایت نچلے درجے پر کھڑاہے۔
میرا ایمان ہے کہ موجودہ دور میں قوموں کا روشن مستقبل تعلیم کے معیار میں مضمر ہے اورریسرچ اور ڈویلپمنٹ (R&D) سے وابستہ ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں کو نہ اس کا احساس ہے، نہ وژن اور نہ ہی یہ ان کی ترجیح ہے۔ نیت مشکوک نہیں، ترجیحات اور اہلیت مشکوک ہیں۔ سارے کا سارا حکومتی نظام چوپٹ ہو چکاہے۔ ہر طرف اور چہارسو لاقانونیت کا راج ہے۔ عوام انصاف اور تحفظ سے محروم ہیں۔ سرکاری دفاتر عوام کے لئے عقوبت خانے ہیں جہاں کسی بھی کام کے لئے جانے والے نہ صرف ذہنی اذیت کا نشانہ بنتے ہیں بلکہ رشوت بھی ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہمارا پاسپورٹ ہی بے وقار نہیں ہوا بلکہ ہماری تعلیمی ڈگری بھی بے توقیر اور کاغذ کا چیتھڑا بن کر رہ گئی ہے۔ پارلیمنٹ میں نہ جانے کتنے جعلی ڈگری والے بیٹھے قوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں اور نالائقی کی زندہ تصویریں ہیں۔ قوم دولت اور اثر و رسوخ کے تحت ووٹ دیتی ہے نہ کہ اہلیت اور کردار دیکھ کر.....
ڈگری کی ذلت کا یہ عالم ہے کہ میں چندبرس قبل نہایت ممتاز امریکی برکلے یونیورسٹی میں ایک ہفتے کے لئے ان کامہمان تھا۔ انڈرگریجویٹ طلبہ کو لیکچر دینے اور ریسرچ میںگائیڈکرنا تھا۔آخری شام میرے اعزاز میں ایک سادہ سی تقریب ہوئی جس میں نائب صدر نے تقریر کرتے ہوئے فخر سے بتایا کہ پاکستان کے سابق دو وزراعظم ہماری یونیورسٹی کے سابق طالبعلم تھے۔ پھر اس نے یہ انکشاف کرکے مجھ پر گھڑوں پانی ڈال دیا کہ برکلے یونیورسٹی 1973 تک پاکستانی طلبہ کی محض ڈگری دیکھ کر داخلہ دے دیتی تھی لیکن اس کے بعد ڈگری کی تصدیق کے علاوہ طالب علم کی اہلیت کا امتحان بھی لیا جاتا ہے تب داخلہ ملتا ہے۔ میں نے بعد ازاں کافی پیتے ہوئے چپکے سے نائب صدر سے کہا کہ کیا آپ کو علم ہے 1973میں پاکستان کا وزیراعظم کون تھا؟ اس نے بغیر مسکرائے جواب دیا ’’ذوالفقار علی بھٹو‘‘ ..... میں نے مسکراتے ہوئے عرض کیا کہ گویا ہماری ڈگری کا سانحہ آپ کے سابق طالب علم کے دور ِ حکومت میں پیش آیا۔ اس نے دکھ سے کہا کہ بھٹو نہایت ذہین، متحرک اور روشن دماغ انسان تھا۔ نہ جانے جب ایسے لوگ تھرڈ ورلڈممالک (ترقی پذیرممالک) کے حکمران بنتے ہیں تو انہیں کیا ہو جاتا ہے۔ ان کی ذہانت سے ملک و قوم کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچتا۔
شاید خرابی نظام اور سسٹم میں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نظام بدلنا یابہتر بنانا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ کام بھی تو حکمرانوں ہی کو کرناہے جو ووٹ لے کر برسراقتدار آتے ہیں۔ اسی دھاگے کا دوسرا سرا یہ ہے کہ عوام کو بھی ووٹ دیتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ کون سا امیدوار قابل اور اہل ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ملک و قوم کی خدمت کرسکے۔نہ عوام اعلیٰ قابلیت اور اعلیٰ کردار کی بنا پرووٹ دیتے ہیں نہ ہی موجودہ نظام میں قابل اور باکردار لوگ ابھر سکتے ہیں۔ حکمرانوں کو اہل اور قابل لوگوں کی بجائے تابع فرمانوں، خوشامدیوںاور حواریوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمہ وقت واہ واہ کے ڈونگرے برسا کر حکمرانوں کو مست رکھتے ہیں۔ اس صورتحال کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے حالانکہ میرے لکھے سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی..... لیکن دوستو! ایک بات لکھ لو تاکہ یاد رہے کہ پاکستان کا مجموعی سیاسی و حکومتی نظام مسلسل تنزل پذیر ہے۔ پاکستان کے قائدین تنزل کا راستہ روکنے کی اہلیت نہیں رکھتے اس لئے یہ بگاڑ بڑھتا ہی رہے گا۔ میرے دوست محترم بیرسٹر نسیم باجوہ صاحب لندن کی ٹھنڈی فضا میں بیٹھے کئی سال سے قوم کو نصیحت کر رہے ہیں اور جزوقتی جدوجہد بھی کر رہے ہیں کہ چہرے نہیں، نظام بدلو۔ میری قوم میں تو چہرے بدلنے کا شعور بھی بیدار نہیں ہوا آپ نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں؟