ہوم << کسی کے باپ کا پاکستان تھوڑی ہے-محمد بلال غوری

کسی کے باپ کا پاکستان تھوڑی ہے-محمد بلال غوری

m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri
کوئٹہ ایئر پورٹ سے نکلا تو لاتعداد اندیشے اور وسوسے میرے ساتھ تھے۔جن چاہنے والوں کو معلوم ہوا کہ بلوچستان کا قصد ہے،انہوں نے روکنے کی ناکام کوشش کے بعد بس ایک ہی نصیحت کی کہ حالات خراب ہیں، احتیاط کا دامن تھام کر چلنا۔مگر اس شہر بے مثال نے بازو پھیلا کر اپنی محبتوں کی آغوش میں لیا تو سب اندیشے اور وسوسے کافور ہو گئے۔پہلا پڑائو وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کی طرف تھا۔ان کی نشست کے ساتھ ہی سائڈٹیبل پر ایک خوبرو نوجوان کی تصویر آویزاں تھی۔یہ ثناء اللہ زہری کے جواں سال بیٹے سکندر ہیں جو 16اپریل 2013ء کو ہونے والے ایک بم دھماکے میں مارے گئے۔
اس حملے کا ہدف خود ثناء اللہ زہری تھے مگر وہ بلٹ پروف گاڑی کے باعث بال بال بچ گئے۔جس شخص نے خود اپنے فرزند ارجمند کا جنازہ اٹھایا ہو،وہی اپنوں کی موت کا غم محسوس کر سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان دہشتگردی کے خلاف فوج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔پنجاب کے حوالے سے تعصب کی بات ہوئی تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے،میں تو اپنے لوگوں سے کہتا ہوں،پنجابی بہت اچھے مقتول ہیں۔تم انہیں مارتے بھی ہو اور اپنی من مانی بھی کرتے ہو،ایسی آزادی اور کہاں ملے گی۔ہمسایہ ملک میں مقیم بلوچوں کی حالت زار دیکھو،انہیںمعمولی باتوں پر سرعام پھانسیاں دی جاتی ہیں اور نشان عبرت بنانے کے لئے لاشیں کئی کئی دن پھندے سے لٹکتی رہتی ہیں۔اگلے دن خیال آیا،اقتدار کی غلام گردشوں سے نکل کر کیوں نہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا جائے۔
بلوچستان یونیورسٹی کا رُخ کیا تو ایک مرتبہ پھر اندیشہ ہائے دوردراز نے گھیر لیا۔چند برس قبل یہ صورتحال تھی کہ لیکچررز کو یونیورسٹی کی دہلیز پر قتل کر دیا جاتا تھا۔پیپلز پارٹی کے دور میں جب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ تھے توجامعہ بلوچستان علیحدگی پسندوں کا گڑھ تھی۔ نائلہ قادری نامی ایک خاتون جن کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے اور ان دنوں وہ بھارت میں مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اگلتی ہیں،یہ 9سال تک لیکچرر کے روپ میں یہاں طلبہ کو ہتھیار اٹھانے پر اکساتی رہیں،صبادشتیاری جیسے لوگ یہاں مسلح تربیت دیا کرتے تھے،چاروں طرف بی ایس او (آزادـ) کے جھنڈے لگتے اور عام افراد تو درکنار قانون نافذ کرنے والے ادارے یونیورسٹی میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصویر لگانا جرم تھا۔
پاکستان کا نام لینے کی اجازت نہ تھی۔ فیکلٹی میں شامل قابل اساتذہ نے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی اور دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی طلبہ و طالبات سے بھی خالی ہوگئی۔ تعلیمی انحطاط کا یہ عالم تھا کہ پاکستان بھر سے لوگ جعلی ڈگریاں لینے کیلئے بلوچستان یونیورسٹی کا رخ کرتے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدیق بلوچ جو چند ماہ قبل نااہل ہوئے اور ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین نے انہیں شکست دیکر کامیابی حاصل کی،انہوں نے بی اے کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے ہی حاصل کی۔ بلوچستان یونیورسٹی سریاب روڈ پر واقع ہے،وہی سریاب روڈ جسے ہم سب بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے ہی جانتے ہیں۔
ان منفی تصورات کے حصار میں یونیورسٹی پہنچے تو خوشگوار حیرت منتظر تھی۔طلبہ و طالبات کی گہما گہمی دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ جامعہ پنجاب ہے یا جامعہ بلوچستان۔ شعبہ ابلاغیات کے طلبہ و طالبات نے بالخصوص اپنی ذہانت و فطانت اور قابلیت سے حیران کر دیا۔وائس چانسلرڈاکٹر جاوید اقبال نے بتایا کہ اب طلبہ و طالبات کی تعداد 11000سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔500انتہائی قابل ترین اساتذہ پر مشتمل فیکلٹی میں 170اساتذہ پی ایچ ڈی ہیں۔70اسکالرز کو یونیورسٹی نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے بیرون ملک بھیجا ہے۔8اگست کو جب سول اسپتال میں دھماکے کے بعد خوف وہراس نے ایک مرتبہ پھر کوئٹہ کا بے ساختہ پن چھین لیاتو بلوچستان یونیورسٹی کی دعوت پر 14اگست کو ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے 2000طلبہ و طالبات کوئٹہ آئے اور انہوں نے دہشت اور وحشت کا دھندہ کرنے والوںکو پیغام دیا کہ
میں جانتا ہوںکہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
اس کے بعد بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز (BUITEMS ) کا دورہ کیا تو پہلی بار یہ پتہ چلا کہ حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے کا مطلب کیا ہے۔ایسی سہو لتیں،ایسے نظم وضبط اور ایسے تعلیم دوست ماحول کا تو لاہور اور اسلام آباد جیسے انتہائی ترقی یافتہ شہروں میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔مثبت ترین پہلو یہ ہے کہ طلبہ وطالبات کے ہاتھ میں محض ڈگریاں تھمانے کے بجائے انہیں پیشہ ورانہ تربیت دیکر عملی میدان کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر ایک شعبہ ہے جس میں نوجوانوں سے درخواستیں مانگی جاتی ہیں کہ وہ اپنے تخلیقی تصورات جمع کروائیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔مثال کے طور پر کوئی طالب علم کہتا ہے کہ میں سوشل میڈیا کی کوئی نئی ویب سائٹ متعارف کرانا چاہتا ہوں
مگر میرے پاس وسائل دستیاب نہیں۔یونیورسٹی کا پینل ان تخلیقی تصورات کے قابل عمل اور موثر ہونے کا جائزہ لے گا اور منظور ہونے کی صورت میں درخواست گزار کو اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لئےدرکار تمام تر وسائل مہیا کئے جائیں گے۔مجھے اس شعبے میں کچلاک کا رہائشی آرٹسٹ نصیب خان ملا۔یہ نوجوان اپنے آبائی علاقے میں دیواروں پر لکھائی کیا کرتا تھا لیکن اس یونیورسٹی نے تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع فراہم کیا تو اب اس کے شہ پارے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔بلا مبالغہ یہ پاکستان کی بہترین یونیورسٹی ہے اور اس کا کریڈٹ وائس چانسلر احمد فاروق باروزئی کو جاتا ہے جو بیرون ملک پرکشش آفرز چھوڑ کر یہاں آئے۔
بلوچستان پر بدستور بدترین خطرات کے سائے منڈلا رہے ہیں،زخم ابھی مندمل نہیں ہوا،مرض کی شدت کم ہوئی ہے مگر اس کے اثرات قائم و دائم ہیں۔بلوچستان کے حکام کیا سوچتے ہیںاور عوام اس تبدیلی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟مسائل کس قدر پیچیدہ ہیں اور فوجی و عسکری قیادت ان سے نمٹنے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کئے ہوئے ہے؟ان سوالات پر اگلی نشست میں تفصیل سے بات ہوگی کہ بلوچستان کا لاینحل مسئلہ توجہ اور احتیاج کا طلبگار ہے۔مگر ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ تین برس قبل اور آج کے حالات میں انیس بیس نہیں،زمین آسمان کا فرق ہے۔آئے دن سنتے تھے کہ ریلوے کی پٹری اڑا دی گئی،کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں گیس پائپ لائن دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دی گئی، ہزاروں کی نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ عروج پر تھا مگر اب ایسی خبریں تواتر کے ساتھ نہیں آتیں تو لامحالہ حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔سردست تو بس اتنا عرض کرنا ہے کہ بلوچستان کے بگٹی، مینگل، زہری، کاکڑ، بزنجو، مری، کھیتران، رند، کرد، بھوتانی، درانی اور بدینی بھی اتنے ہی محب وطن اور وفادار ہیں جتنے سندھ،پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت پاکستان کے دیگر شہری۔ہندوستان کے معروف شاعر راحت اندوری جن کی مشہور غزل کا ایک شعر پہلے بھی عرض کیا ہے،اسی غزل کا ایک اور شعر معمولی تحریف کے ساتھ پیش خدمت ہے:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا پاکستان تھوڑی ہے