کلمہ طیبہ کے دو جز ہیں پہلے جز میں اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار جبکہ دوسرے جز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا اقرار ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کےلیے جس طرح یہ لازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کی صفت ربوبیت میں کسی صورت میں بھی شرک کی آمیزش نہیں کرسکتا اسی طرح یہ بھی عین تقاضائے ایمان ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت میں بھی کسی کذاب کو نقب لگانے سے باز رکھے. اسی کو عقیدہ ختم نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے.
عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کی اساس اور بنیاد ہے، یہ عقیدہ جتنا پختہ ہوگا، احکام و اعمال سے متعلق دیگر عقائد بھی اتنے ہی مضبوط ہوں گے، اگر خدا نخواستہ یہ عقیدہ مضبوط نہ ہو تو دیگر اعمال کی بارگاہ خداوندی میں بھی وہ حیثیت نہ ہوگی جو اس عقیدے پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والے ایک پختہ کار مسلمان کے اعمال کی ہے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی اور رحلت کے بعد بھی بہت سے جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوئے جن کا قصہ مسلمانوں نے جہاد کے ذریعے تمام کردیا. برصغیر میں بھی انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعوی کیا بلکہ ایک متوازی دین اور مستقل امت کا داعی بن کر ابھرا اور انگریز سامراج کی نمک حلالی کا فریضہ سرانجام دیا. تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں بھی انگریز نے نہایت عیاری کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں قادیانی لابی کو کردار دینے کی کوشش کی جسے پاکستان کے عوام نے جس جوانمردی سے ناکام بنایا، وہ اس کی غیرت ایمانی کا واضح ثبوت ہے. اس حوالے سے 7 ستمبر کا دن دنیا بھر کے مسلمانوں کےلیے بالعموم اور پاکستان کے مسلمانوں کےلیے بالخصوص مسرت اور فتح و کامرانی کا دن ہے، کہ اسی دن پاکستان کی قومی اسمبلی نےختم نبوت کے ڈاکؤوں کو ایک تاریخی اور متفقہ قرارداد کے ذریعے غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا.
قومی اسمبلی کا یہ اقدام نبوت کےجھوٹے دعویداروں کے استیصال اور بیخ کنی کے اس تاریخی جہاد کا تسلسل ہے جو سب سے پہلے اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب کے خلاف کیا گیا تھا اور یہ جہاد کتنا اہم ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جتنی جنگیں لڑی گئیں، غزوات اور سرایا ملا کر ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کی تعداد ڈھائی سو کے لگ بھگ ہے لیکن مسیلمہ کذاب کے خلاف جہاد میں بارہ سو صحابہ کرام نے شہادت کا نذرانہ پیش کیا، جن میں ستر بدری صحابہ کرام رض، اور سات سو سے زیادہ وہ صحابہ کرام تھے جو قرآن کریم کے ماہر تھے اور قراء کہلاتے تھے، اور امت محمدیہ کا سب سے پہلا جو اجماع ہوا، وہ اسی مسئلہ ختم نبوت پر ہوا.
پاکستان میں قادیانی لابی کی سرگرمیوں پر وارثان نبوت کس طرح خاموش رہ سکتےتھے کہ ان کی زندگی ہی اسی جدوجھد سے عبارت تھی، احرار اسلام کا بنیادی منشور ہی ختم نبوت کا تحفظ اور قادیانیت کا محاسبہ تھا، احرار نے باقاعدہ منظم طریقے سے قادیانیوں کی تمام تر سازشوں کو بری طرح ناکام بنادیا. قادیانیوں نے 1952ء کو اپنا سال قرار دیتے ہوئے پاکستان کے اندر قادیانی اسٹیٹ بنانےکےلیے تمام تر کفری سرگرمیاں تیز کر دیں، لیکن سال کے اختتام پر جب ان کی تمام پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں تو سال کی آخری رات مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری رح نے ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا
”قادیانیو! 1952ء گزر چکا، تمھاری تمام پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں، اب میں بخاری اعلان کرتا ہوں کہ 1953ء تحفظ ختم نبوت کا سال ہے.“
اس اعلان پر ملک بھر میں قادیانیوں کے خلاف ایک منظم تحریک وجود میں آیا اور اس تحریکی جدوجہد میں کم از کم تیس ہزار مسلمانوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے.
یہ تحریک یوں ہی چلتہ رہا کہ 29 مئی 1974ء کو نشتر کالج کے طلبہ پر چناب نگر (ربوہ) اسٹیشن پر قادیانی غنڈوں کی تشدد نے ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والے نوجوانوں میں نئی روح پھونک دی، واقعے کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں اور ہڑتالوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور قادیانیوں کے خلاف نفرت بڑھتی رہی.
آخرکار یہ قضیہ قومی اسمبلی پہنچ گیا، پوری اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دے دیاگیا، کمیٹی نے اس مسئلے پر غور و فکر کرنے کے لیے 26 اجلاس اور 96 نشستیں کیں. اس دوران مرزا ناصر پر گیارہ دنوں میں 42 گھنٹے جرح کی گئی اور لاہوری گروہ پر 7 گھنٹے جرح ہوئی. بالآخر وہ گھڑی آ پہنچی جس کے لیے امیر شریعت نے اپنا سکھ چین قربان کردیا. وہ مبارک گھڑی 7 ستمبر 1974ء کی ایک خوش گوار سہ پہر تھی. 4 بج کر 35 منٹ پر قومی اسمبلی نے طویل بحث و تمحیص کے بعد قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا.
بہت عمدہ