ہوم << گونگی حکومت اور خاموش سماج کا نوحہ - محمد حسان

گونگی حکومت اور خاموش سماج کا نوحہ - محمد حسان

حافظ حسان ہم کیا لکھیں؟ نوحہ لکھیں یا پرسہ دیں؟ ماتم کریں یا سوگ منائیں؟
امت کے عظیم سپوت ایک ایک کرکے سولی پر چڑھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان سے محبت کے جرم میں بنگلہ دیش کے اندر پھانسیاں دینے کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے اور اہل پاکستان پر گہرا سکوت طاری ہے۔ حکومت گونگی اور سماج خاموش ہے۔ ایسے میں دل کے پھپھولے نہ جل اٹھیں تو اور کیا ہو؟
مرنے والے کوئی اتنے عامی بھی نہ تھے کہ یوں فراموش کر دیے جائیں۔ ایک ایک شخص اپنی ذات میں انجمن، ایک ایک فرد قائد اور رہبر کے منصب پر فائز، قاتل حسینہ واجد کو کسی عامی کے خون سے کیا غرض؟ اسے تو ملت اسلامیہ کے انھی سپاہیوں کا خون چوسنا ہے جو اقامت دین کی سربلندی کے لیے تن من دھن سب کچھ نچھاور کردینے کے جذبے سے سرشار امت محمدیہ ﷺ کا بہترین اثاثہ ہیں۔ جو دین حق کے علمبردار بن کر اٹھے اور اپنے قول و عمل سے شہادت حق کا فریضہ انجام دینے لگے۔ بھارتی اور مغربی تہذیب کے مقابل اسلامی تہذیب کے رکھوالے بن کر اٹھے، انسانوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں دینے کا نظام برپا کرنے میں کمر بستہ ہوگئے۔ ان کی جدوجہد طاغوتی قوتوں کے لیے خطرہ قرار پائی اور بھارتی قوت کے نشے میں مخمور حسینہ واجد اپنے اقتدار کی کرسی کو بچانے کے لیے ان گوہر نایاب، امت کی عالی مرتبت شخصیات کے خون سے مقتل سجانے لگی۔
وہ لوگ جن پر 40 سالہ دور میں کرپشن کا کوئی داغ نہ مل سکا، ملک سے غداری جن کی سوچوں میں نہ تھی، آئین اور قانون کے جو محافظ رہے، ان پر چالیس سال قبل متحدہ پاکستان کو دو ٹکڑے ہونے سے بچانے کا جرم عائد کرکے پھانسیوں پر لٹکانا شروع کر دیا ہے کہ چالیس سال قبل تم نے پاکستان سے محبت کا دم کیوں بھرا؟ جبکہ چالیس سے قبل یعنی متحدہ پاکستان کی حفاظت کا دم بھرنا ہی ان کی حب الوطنی کا عین تقاضا تھا۔
ذرا ایک نظر تو دوڑائیں ان عظیم شخصیات پر، پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمان نظامی، علی احسن مجاہد، عبدالقادر ملا، صلاح الدین چوہدری، قمر الزمان، کوئی شیریں بیاں تو کوئی شعلہ نوا مقرر، کوئی عالم باعمل قرآن کا مفسر، کوئی دعوت کا راہی تو کوئی سیاست کا شاہسوار، ظالم حسینہ نے چن چن کر ان نابغہ روزگار ہستیوں کو تختہ دار پر لٹکایا جو نہ صرف بنگلہ دیش کی مسلم شناخت کے امین تھے بلکہ پوری ملت کا اثاثہ تھے۔ ایسے ہی تو نہیں ترکی کے صدر طیب اردگان تمام سفارتی ضابطے بالائے طاق رکھتے ہوئے ان پھانسیوں پر چیخ اٹھے تھے اور احتجاجاً بنگلہ دیش سے سفارتی تعلقات بھی منقطع کرلیے تھے۔ ذرا تازہ ترین جام شہادت نوش کرنے والے میر قاسم کا پروفائل تو دیکھیے، کتنی قد آور شخصیت کو بونی حسینہ واجد نے بنگلہ دیش اور پوری امت سے چھین لیا ہے۔ جی ہاں میر قاسم صرف بنگلہ دیش ہی نہیں پوری امت کا قیمتی ترین اثاثہ تھے، بینکنگ کے نظام میں، ذرائع ابلاغ کے میدان میں، تعلیم، صحت اور ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں اس قدر گراں خدمات کہ عقل دنگ رہ جائے۔ ایک آدمی اور اتنے کارنامے۔
میر قاسم علی بنگلہ دیش کی ایک آئی کون شخصیت، معروف سیاستدان، کامیاب بزنس ٹائی کون، اور بنگلہ دیش میں سوشل انٹرپنورشپ کے بانی اور کمال درجے کی انسان دوست شخصیت تھے۔ 1976ء میں بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن اسلامی چھاترو شبر کے بانی صدر رہے۔ اور 1979ء میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔
میر قاسم علی بنگلہ دیش اسلامک بنک کے ڈائریکٹر تھے۔ 12سال اسلامک بنک کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چئیرمین اور چار سال وائس چئرمین رہے۔ ان کی سربراہی میں اسلامی بنک پرائیویٹ سیکٹر میں بنگلہ دیش کو سب سے زیاد ہ ٹیکس ادا کرنے والا اور تمام کارپوریشنز میں دوسرا بڑا ٹیکس ادا کرنے والا بنک رہا ہے۔
میر قاسم چیئرمین ڈی جنتا میڈیا کارپوریشن تھے، جس کے تحت ڈی جنتا ٹی وی، روزنامہ ڈی جنتا سمیت دو ماہانہ میگزین شائع ہو رہے ہیں، جبکہ ایک ایف ایم ریڈیو، ایک انگریزی زبان کا قومی اخبار، ایک انگریزی اور بنگلہ زبان میں ویب نیوز چینل کے پراجیکٹس زیر تکمیل مراحل میں ہیں.
میر قاسم بانی ابن سینا ٹرسٹ اور ابن سینا فارماسیوٹیکل انڈسٹریز تھے، فواد الخطیب چیریٹی فائونڈیشن سمیت ویلفئیر کے 6 بڑے ادارے چلا رہے تھے، 12اسپتال،11 تعلیمی ادارے، یتیم بچوں اور خواتین کے تحفظ کے بہت سے مراکز، فری میڈیکل سنٹرز اور مساجد آپ کے زیرانتظام چل رہی تھی۔ کیری ٹیلی کمیونیکیشن اور کیری ٹورازم کی کمپنیاں بھی چلا رہے تھے.
میر قاسم علی دو یونیورسٹیز کے سینڈی کیٹ ممبر تھے۔ ڈائریکٹر رابطہ العالم الاسلامی سمیت دو بڑے تھنک ٹینک اسلامک اکنامک ریسرچ بیورو اور سنٹر فار اسٹریٹیجی اینڈ پیس اسٹیڈیز آپ نے قائم کیے۔ امریکہ اور یورپ کے تھنک ٹینکس کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے۔ اسلام کا درست تصور اور بنگلہ دیش کی ترقی سے متعلق امور پر بات کرتے۔ 25 سے زائد ممالک کا دورہ کرچکے تھے۔ اور بیرون ملک ہی تھے جب حسینہ واجد نے 2010ء میں جنگی جرائم کا ٹربیونل بنایا، چاہتے تو واپس نہ آتے مگر صاحب ایمان اور صاحب کردار تھے، اپنے ملک آئے، جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا، اپنے اخبار کے دفتر سے ہی گرفتار ہوئے، ان کے جوان بیٹے کو لاپتہ کر دیا گیا مگر استقامت کے کوہ گراں ثابت ہوئے۔ سزائے موت سنائی گئی، مطمئن دکھائی دیے، سرکار نے رحم کی اپیل کا پیغام بھجوایا، جذبہ شہادت سے سرشار عظیم مجاہد نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا، اور پھانسی کے پھندے پر جھول کر حسینی قافلے میں شامل ہوگیا. امام ابن تیمیہ، سید مودودی، حسن البنا اور سید قطب بھی اپنے وقتوں میں جس قافلے کے شاہسوار رہے، میر قاسم علی نے اسی قافلے کا راہرو بن کر عبدالمالک شہید سے لے کر مطیع الرحمان نظامی شہید تک اپنے پیشروئوں کے ساتھ اپنے رب کی جنت میں بسیرا کر لیا.
بڑے کم ظرف ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ آج کی دنیا میں کوئی اصولوں اور نظریات پر جان نہیں دیا کرتا اور جو مرنے کو ترجیح دیتے ہیں ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہوتا۔ اے کم ظرفو! دیکھو اور بتائو کہ میر قاسم کے چاروں طرف دنیا بکھری ہوئی تھی، اس کے پاس تو کھونے کو سب کچھ تھا، اس کے بیوی بچے، خاندان، دوست احباب، ساتھی غمگسار، بینک بیلنس، روپیہ پیسہ، سونا چاندی جواہرات، عزت شہرت، سب کچھ ہی تو تھا اس کے پاس۔
جی ہاں! میر قاسم نے خوب دنیا سمیٹی مگر اسے دنیا اور دولت کی ہوس ہرگز نہ تھی، اس کے پیش نظر ہمیشہ رضائے الِہی کا حصول رہا، وہ تاجر تھا اور کامیاب بزنس مین سمجھا جاتا تھا سو اس نے اپنے رب سے دنیا کے بدلے ہمیشہ رہنے والی آخرت کا سودا کر لیا، اور کیا خوب نفع کا سودا کیا۔
آج بنگلہ دیش کا میر قاسم علی اپنے ملک، اپنے دین اور اپنے نظریات پر قربان ہو گیا، اس کی جان پاکستان سے محبت اور وفاداری کے جرم میں لی گئی۔ بنگلہ دیش ہزاروں یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کرنے والے، شہر شہر پھیلے اسپتالوں میں مفت علاج کروانے والوں کے انسان دوست سرپرست سے محروم ہو ا ہے تو ملت اسلامیہ اپنے عالی دماغ پالیسی ساز شخصیت سے محروم ہوئی ہے. اور پاکستان کی بد نصیبی کہ اٹھارہ سال کی عمر میں بھارت نواز مکتی باہنی کے سامنے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والا نہ رہا۔
سمجھ نہیں آتا کہ کیا لکھیں، مرثیہ، نوحہ یا پرسہ لکھیں، ماتم کریں یا سوگ منائیں، ہاتھ شل ہو چکے اور قلم خشک، دل چاہتا ہے کہ کوئی نوحہ لکھے اور خوب لکھے، پاکستان کی گونگی حکومت اور خاموش سماج پر لکھے۔
میں تو سلام لکھوں گا اس عظیم سپوت پر جو وفا کی انمول داستان رقم کر گیا
عجیب ہو تم غریب ہو تم ، صلیب پر مسکرانے والو!
تمھاری یادیں بسی ہیں دل میں، افق کے اس پار جانے والو ۔۔۔ سلام تم پر ۔۔۔ سلام تم پر ۔۔۔!

Comments

Click here to post a comment