آپ نے اب تک سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، مختلف قسم کے پمفلٹس اور تصویری پیغامات میں یہ بحث تو کئی مرتبہ دیکھی اور پڑھی ہوگی کہ لفظ ان شاء اللہ کا صحیح تلفظ کیا ہے. کسی نے آپ کو ان شاء اللہ لکھنے کا صحیح طریقہ سکھایا ہوگا تو کسی نے اس کے تلفظ پر تنبیہ کی ہوگی. لیکن کیا آپ کو کسی نے بتایا کہ ان شاء اللہ کی اقسام بھی ہیں اور ہر انسان کا ان شاء اللہ اس کے ارادوں کا پرتو ہوتا ہے. اگر یہ بات آپ نہیں جانتے تو یہ تحریر آپ کے ان شاء اللہ کی حقیقت آپ پر کھول سکتی ہے.
قرآنی واقعات کے مطابق دو واقعے اس حوالے سے مذکور ہیں. پہلا واقعہ یہ کہ جب اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کو ان کے بھائی کا قاتل معلوم کرنے کی خاطر گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو وہ مختلف قسم کے حیلے بہانے سے کام لینے لگے اور کہنے لگے اجی ہمیں کیا پتا وہ گائے کیسی ہونی چاہیے ذرا اس کا رنگ ڈھنگ، چال ڈھال تو بتائیے اور ایک سوال کا جواب مل جانے پر اپنی ٹال مٹول کی پٹاری سے دوسرا سوال نکال لاتے. مقصد صرف اور صرف حکم سے جان چھڑانا تھا لیکن صاف صاف انکار کرنے کی جرات تو نہیں تھی، اس لیے کہنے لگے
[pullquote]وانا ان شاء اللہ لمھتدون[/pullquote]
”بےشک اگر اللہ نے چاہا تو ہم ضرور سیدھے راستے کو پا لیں گے.“ (یعنی حکم پر عمل کر لیں گے ) جبکہ اللہ تعالٰی ان کے اس ان شاء اللہ کی حقیقت جانتے تھے اس لیے بغیر لگی لپٹی کے فرمایا
[pullquote]فذبحوھا وما كادوا يفعلون [/pullquote]
انہوں نے گائے کو ذبح کر دیا اور قریب تھا کہ وہ یہ کام نہ کرتے (حکم سے اپنی جان چھڑاتے).
دوسرا واقعہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ہے، جب ان سے ان کے والد محترم، ہمارے جد امجد، دین حنیف کے سرخیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اے میرے لخت جگر مجھے وحی منامی کے ذریعے تمہیں ذبح کرنے کا حکم مل چکا ہے. یہ سنتے ہی فورا اس نوعمر بچے کی زبان سے جملہ ادا ہوا کہ ابا جان جس بات کا آپ کو حکم ہوا اسے کرگزریے، عشق کے اس امتحان میں پیچھے نا رہیے، جہاں تک میری بات ہے تو میں آپ کا بیٹا ہوں، حکم کو ٹالنا میں نے سیکھا ہی نہیں اور
[pullquote]ستجدني ان شاء اللہ من الصابرين [/pullquote]
”آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیںگے.“ (ادائیگی حکم میں ٹال مٹول کرتے ہوئے کوتاہی کرنے والا نہیں پائیں گے )
اب آپ غور کریں تو ان دو واقعات سے ہمیں دو قسم کے ان شاء اللہ حاصل ہوئے:
ایک ان شاء اللہ اسرائيلي
دوسرا ان شاء اللہ اسماعیلی
اس تناظر میں اب آپ اپنے ان سارے ہی ارادوں کا جائزہ لیں جن کا اظہار آپ ان شاء اللہ کے سابقے لاحقے کے ساتھ بارہا کرتے ہیں، آیا اس ارادے کے وقت آپ اسماعیلی ہوتے ہیں یا اسرائیلی. بلکہ آپ اگر اس تناظر کی ذرا اور گہرائی میں جائیں تو ایک مزیدار صورتحال کا سامنا ہوگا، وہ یہ کہ بڑے سے بڑا دیندار بھی اس راہ سے اسرائیلی بن جائے گا، اگر اس کا ان شاء اللہ ٹال مٹول کا ہے. اور لبرل اگر اپنے ان شاء اللہ میں سچا ہے تو اسماعیلی بن جائے گا. اس لیے ہم جب بھی ان شاء اللہ کہیں ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ ہمارا ان شاء اللہ اسماعیلی ہے اسرائیلی.
لگے ہاتھوں یہ بھی دیکھتے جائیں آپ کے لیڈر اسرائیلی ہیں یا اسماعیلی. اگر اسرائیلی ہیں تو ان کو اسماعیلی بنانا ہی ملت ابراہیمی ہے سو تیار ہوجائیں اور جانچ پڑتال کرلیں. کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سے ہاتھ ہوجائے اور تب تک بہت دیر ہوچکی ہو.
آپ اسماعیلی ہیں، ابراہیم آپ کے جدامجد ہیں، ان کی پیروی میں ہی پناہ ہے، اپنے ارادوں میں ان کی پیروی اپنے لیے ضروری سمجھ لیں.
تبصرہ لکھیے