کالچکر تفسیر ”بے داغ روشنی“ کہتی ہے کہ ”محمد، رحمن کے ایک اوتار تھے۔ وہ مسلمانوں کے گرو اور آقا تھے.“ بودھی اصطلاحات میں یہ تشبیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی نرمانکا یا تجلی کہنے کے مترادف ہو گی۔
دوسری جانب، کیا مہاتما بدھ کو واقعی خدا کا نبی یا پیغمبر گردانا جا سکتا ہے؟
(سورۃ النساء، آیت: ۱۶۳ ۱۶۴) میں آیا ہے ”ہم نے تیری طرف وحی بھیجی جیسی نوح پر وحی بھیجی اور ان نبیوں پر جو اس کے بعد آئے اور ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد اور عیسی اور ایوب اوریونس اور ھارون اور سلیمان پر وحی بھیجی اور ہم نے داؤد کو زبور دی۔ اور ایسے رسول بھیجے جن کا حال اس سے پہلے ہم تمہیں سنا چکے ہیں اور ایسے رسول جن کا ہم نے تم سے بیان نہیں کیا۔“ پس مہاتما بدھ کا شمار ان انبیاء میں کیا جا سکتا ہے جن کا صریحاً ذکر نہیں ہوا۔
”ایک بدھ کے بارہ منور اعمال“ کے بیان کے مطابق، ایک بدھ مختلف اوقات میں آتا ہے جب مخلوق اس کی آمد کے لیے تیار ہوتی ہے اور وہ ہر عہد میں دھرم مختلف طرح سکھاتا ہے اُس زمانہ کی مخلوق کی مناسبت سے۔ دنیا میں ہزاروں نرمانکایا بدھ تشریف لا چکے ہیں، جن میں سے ہر ایک کے درمیان بےشمار دورِ زمان ہیں، کئی ایک نرمانکایا عالی بشر بھی بیچ میں آتے ہیں۔ نرمانکایوں کے ان دونوں گروہوں کو ”دھرم کے پیغمبر“ کہا جا سکتا ہے۔ مزید از آن، ہر بدھ مختلف لوگوں کو دھرم مختلف ماہرانہ طریقوں سے سکھاتا ہے۔ قران (سورۃ ابراہیم، آیت ۴) میں آیا ہے ”اور ہم نے ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ انہیں سمجھا سکے، پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے۔“
مسلمان مہاتما بدھ کو خدا کا پیغمبر تسلیم کر سکتے ہیں۔ جس طرح ہم بدھسٹ لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ محمد صلى اللہ عليہ و سلم اور حضرت عیسی، حضرت ابراہیم، اور حضرت داؤد، نرمانا کا یا بدھ یا خدا کے اوتار تھے۔
بدھ مت کے ان دعووں کو اسلامی اصطلاحات سے سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ ناگارجن نے ”پرجنا پارمتا“ تعلیم کو ظاہر کیا جسے منجوشری نے ناگوں کی حفاظت میں دیا جنہوں نے اسے سمندر کی تہہ میں چھپا دیا، یا یہ کہ اسانگ کو جب توشیتا جنت پر لے جایا گیا تو وہاں اس نے مائیتریا سے محبت، دردمندی اور بودھی چت پر ”گستردہ اقدام تعلیم“ حاصل کی؟ ؟ کیا یہ بودھی دعوے پیغمبروں کے خدا سے الہام پانے کے اسلام کے دعووں سےمشابہ نہیں ہیں؟
حامد عبدالقادر بیسویں صدی کے وسط کے اہلِ علم میں سے ہیں۔ وہ اپنی عربی کتاب ”بدھ فلسفی – حیات و فلسفہ“ میں خیال ظاہر کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں دو جگہ (لانباء، ۸۵ اور ص، ۴۸) انبیاء کے تذکرے میں جو ذوالکفل ”کفل والا شخص“ کا نام آیا ہے، جسے صالحین اور صابرین میں سے کہا گیا ہے، تو اس سے اشارہ شاکیہ مُنی گوتم بودھ کی طرف ہے۔ اکثر علماء نے ذوالکفل کو بنی اسرائیل کے نبی حزقيل کا حوالہ قرار دیا ہے لیکن حامد عبدالقادر نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ ”کفل“ کپل کی معّرب صورت ہے جو کپيل وستو کا مخفف ہے۔ عبدالقادر کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں جو انجیر کا ذکر ہے (والتین، ۱-۵) وہ بھی بدھ فلسفی ہی کا حوالہ ہے کیونکہ مہاتما کو روشن ضمیری انجیر کے درخت تلے حاصل ہوا تھا۔ بعض علماء کو اس تعبیر سے اتفاق ہے اور اپنی رائے کی تائید میں وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ گیارھویں صدی عیسوی کے ہندوستانی تاریخ کے فارسی مسلم عالم البیرونی نے بدھ فلسفی کا بطور نبی ذکر کیا ہے
بدھ مذہبی کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کی پیش گوئی موجود ہے. بدھ مذہب کی مذہبی کتاب ’’تری پٹیکا‘‘ کہلاتی ہیں جن کے جاپانی، چینی، انگریزی و دیگر زبانوں میں بھی تراجم موجود ہیں جبکہ اس کی اصل زبان پالی کے بھی متعدد نسخے دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ علماء کا خیال یہ ہے کہ بدھ مذہبی کتاب میں مستقبل میں جس بودھا مائیتریا، رؤف و رحیم شخصیت کے آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے وہ محمد (صلى اللہ عليہ وسلم) رسول اللہ کی ذات ہے۔
اگر ہم دوسروں کے مذاہب کے بارے میں کچھ حد تک واقفیت پیدا کریں گے تو ہم باہمی احترام اور تحسین پیدا کریں گے اور غنی تر ہو جائیں گے۔ لہذا ہمیں ادیان کے درمیان تفہیم کو ترویج دینے کے لیے پیہم کاوش کی ضرورت ہے.
پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
[…] تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
ماشااللہ