آج مسلم عورت کے وقار کے اظہار و تحفظ کے لیے عالمی یوم حجاب منایا گیا. 2009ء میں جرمنی کی عدالت میں باحجاب مسلمہ مروہ الشربینی کے شہادت کے بعد اس کی یاد میں منایا جانے والا یہ دن مسلمان عورتوں کےلیے عالمی ایونٹ بن گیا ہے جبکہ اہل مغرب اور ان کے پروردہ 8 مارچ کو خواتین کے حقوق اور ان کی آزادی کا دن مناتے ہیں۔ کیا خواتین کو واقعی آزادی میسر ہے؟ کیا ایک سیکولر (لادین) معاشرے نے واقعی عورت کو اس کی مرضی سے جینے کا حق دیا ہے؟ جرمنی میں مروہ کی شہادت سے فرانس میں حالیہ برکینی ایشو سمیت اس موضوع پر ویسے تو آپ بہت کچھ پڑھ چکے ہوں گے البتہ آج میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں ایک امریکن فلم کی کہانی سے ایک مثال۔
یہ کہانی امریکی معاشرے میں جوان ہونے والی ایک ایسی لڑکی کی ہے جو کہ اپنی عزت کو شادی سے پہلے تار تار نہیں کروانا چاہتی، وہ چاہتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے جنسی اختلاط نہ کرے ۔ ایک سیکولر معاشرہ جہاں ہر دم ”فرد کی آزادی“ کے بھاشن دیے جاتے ہوں، کیا وہاں ایک انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے آیا اس نے شادی سے پہلے جنسی اختلاط کرنا ہے یا نہیں؟
یہ فلم بتاتی ہے کہ اگر آپ حقوق نسواں اور انسانی آزادی کے علمبردار اس معاشرے میں ایسا سوچتے ہیں تو یہ معاشرہ شاید آپ سے جینے کا حق بھی چھین لے گا۔ سیکولر معاشرہ آپ سے وہی کرنے کا تقاضا کرے گا جو کچھ وہاں چل رہا ہے چنانچہ عزت سے انسانی زندگی گزارنے کی اس خواہشمند لڑکی کو معاشرہ طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کا گلا گھونٹ کر اپنا جسم معاشرے کے حوالے کردے۔ فلم ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح ایک سیکولر معاشرہ اپنے فرد کو اس کی حقیقی آزادی چھین کر اپنے اشاروں پر ناچنے پہ مجبور کرتا ہے، چنانچہ اس لڑکی کو زبردستی سرعام لوگوں کے سامنے برہنہ کیا جاتا ہے، اس کی فلم بنائی جاتی ہے، اور اسے انتہائی جبر کے ساتھ ایک ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے جو وہ بالکل پسند نہیں کرتی۔
ذرا سوچیے! کیا ہوگا اس معاشرے کا حال جس میں غیرت مند والدین کے لیے سب سے بڑی درد سری اپنی بیٹی کو مہذب اور تعلیم یافتہ جنسی درندوں سے بچانا ہو؟ آپ اس معاشرے کو کس نظر سے دیکھیں گے جس میں ہاسٹل میں پڑھنے والی لڑکی کسی پریشانی کے سبب اپنے والدین کو فون کرے تو وہ اس کی پریشان آواز سن کرسب سے پہلے یہ نتیجہ نکالیں اور پوچھیں ”بیٹا کیا تم نے اپنی عصمت گنوا دی؟“
فلم ہمیں بتاتی ہے کہ آزادی کی شمع تھامے ہوئے عورت کے مجسمے کو اپنا نیشنل سائن دکھانے والا امریکی سیکولر معاشرہ آخرکار اس لڑکی کو سر بازار اپنے منگیتر کو اس کی دوست کے ساتھ جنسی فعل کرتے ہوئے دیکھنے کے بعد اس قدر دلبرداشتہ کردیتا ہے کہ وہ اس ماحول میں اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی خود کو تنہا پاگل محسوس کرتی ہے اور آخرکار غصے میں آ کر وہ اپنی شخصی آزادی و خواہش کو بھلا کر اسی معاشرے کے رنگ میں رنگ کر اپنی عصمت لٹا دیتی ہے۔
فلم مکمل طور پر یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ سیکولر معاشرے کے بارے مغرب کا یہ دعوٰی کہ وہاں ہر فرد کو اس کی مرضی سے جینے کی آزادی ہوتی ہے بالکل لغو ہے بلکہ حقیقت وہی ہے جو طارق جان صاحب نے اپنی کتاب ”سیکولرازم مباحث و مغالطے“ میں بیان کی کہ ”لادینیت ابتداء میں تنقیدی بیانیہ کی شکل میں آتی ہے جس کا ہدف کسی معاشرے کی قدامت اور اس کی روایات ہوتی ہیں، یہ سب کھیل ترقی اور جدیدیت کے نام پر ہوتا ہے. دوسرے مرحلے میں وہ قدروں پر حملہ آور ہوتی ہے تاکہ معاشرہ لڑکھڑانے لگے، اور تیسرے مرحلے میں وہ دوسروں کے مقابل ایک جدلیاتی انداز (جنگی انداز) میں سامنے آتی ہے، جس کا رویہ جارحانہ اور کلیت پرستانہ ہوتا ہے، اور جو زندگی کے ہر شعبہ پر اپنی گرفت قائم کرنا چاہتی ہے.“
چنانچہ اگر ہم پاکستان میں میڈیا پر موجود لبرلز سے لے کر فیس بک کے لبرلز تک کو دیکھیں تو ان کے لہجوں اور لفظوں میں طنز و تشنیع نیز نفرت کے زہر میں بجھے روح کو زخمی کرنے والے جملوں اور خطرناک ارادوں سے بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر پاکستان خدانخواستہ ایک سیکولر معاشرہ بن جائے تو یہ اپنے نظریات کے برعکس جینے کی تمنا رکھنے والے انسانوں کو کس حد تک آزادی دے سکیں گے۔
تبصرہ لکھیے