ہوم << مدینہ منورہ میں دہشت گردی، فیض اللہ خان کا تجزیہ

مدینہ منورہ میں دہشت گردی، فیض اللہ خان کا تجزیہ

بہت سے احباب مدینہ میں کی گئی دہشت گردی کی بھیانک واردات کو حرم مدنی پہ براہ راست حملہ قرار دے رہے ہیں ، میرا خیال ہے کہ اس سے گریز بہتر ہے کیونکہ ایک تو اس سے عام مسلمانوں کو بہت غلط پیغام جا رہا ہے اور دوسرا یہ کہ حملہ مسجد کے قریب تعینات سیکیورٹی فورسز پہ ہوا ہے یعنی کہ ہدف طے شدہ تھا، حملہ آور کے لیے مسجد جانا قطعی مسئلہ نہیں تھا

ابھی تک واضح نہیں کہ ان حملوں کے پیچھے کون ہے ؟ لیکن اس وقت سعودی حکام حوثی قبائل اور دولت اسلامیہ سے حالت جنگ میں ہیں اور ان سے کچھ بعید نہیں ہے۔ سعودی حکام، ان کی پولیس و فوج کی بابت دولت اسلامیہ کے کھلے عام مرتد ہونے کے فتاوی موجود ہیں ، دولت اسلامیہ کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ عام مسلمان ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ علماء کیا رائے رکھتے ہیں؟ اور ان کے عمل اسلام اور مسلمانوں کو کیا اور کتنا نقصان پہنچے گا؟ ان کی اپنی ہی فکر ہے جس پہ پوری قوت سے جمے ہوئے ہیں۔ ان کے رویے اس قدر انتہا پسندانہ رہے کہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی القاعدہ تک کو ان سے فاصلے اختیار کرنے پڑے
سعودی حکام کی پالیسیوں کے خلاف پہلی بڑی بغاوت اسامہ بن لادن نے کی تھی۔ یہاں تک کے ان دنوں ریاض و خبر میں امریکی فوجیوں پہ ہونے والے حملوں کو انھوں نے خوب سراہا، خود القاعدہ کے سعودی جنگجو عبدالعزیز عیسی المقرن نے سعودی سیکورٹی اہلکاروں اور غیر ملکیوں پہ دو ہزار تین ، چار میں متعدد حملے کیے۔ بعد ازاں المقرن ایک پولیس مقابلے کی نذر ہوا

القاعدہ نے وزیر داخلہ محمد بن نائف (جو اب ولی عہد ہیں) پر ایک خود کش حملہ بھی کرایا جو کہ ناکام رہا ، لیکن اس سب کے باوجود القاعدہ نے حرم مکی و مدنی میں حملوں سے ہمیشہ گریز کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسلم رائے عامہ اس حوالے سے کتنی حساس ہے
دوسری طرف دولت اسلامیہ ہے جسے اپنی کسی بھی کارروائی کے لیے رائے عامہ کی پروا نہیں ہوتی ، اس کے سفاک عسکریت پسند وہی کرتے ہیں جسے درست سمجھتے ہیں۔

یہ امر حیران کن ہے کہ اتنی شدت رکھنے کے باوجود اسے نیا خون مسلسل مل رہا ہے۔
اس عہد کا چیلنج دولت اسلامیہ بن چکی لیکن افسوس کہ اس سے نمٹنے کے لیے روایتی طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ ابھی بھی مئوثر انداز میں اپنی دہشت گرد کارروائیاں بیک وقت کئی ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دس دنوں کے دوران دولت اسلامیہ استنبول، ڈھاکہ و بغداد کو خون میں نہلا چکی۔

ایسے میں یہ ہلاکت خیز حملے بتا رہے ہیں کہ ابھی کشت و خون کا سیلاب مزید بہے گا اور مستقبل کئی خدشات لیے ہمارے آگے کھڑا ہے
نجانے اس کا انجام کیا ہوگا ؟

Comments

Avatar photo

فیض اللہ خان

فیض اللہ خان اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی، مذہبی اور دہشت گردی سے متعلق امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں جبکہ مختلف ڈیجٹل پلیٹ فارمز پہ عالمی اور علاقائی موضوعات پہ گفتگو کرتے ہیں۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ، ٹی آر ٹی سمیت مختلف بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور ہندوستانی و بنگلہ دیشی چینلز پر بھی تجزیہ دیتے ہیں۔ پاکستانی انگریزی اخبارات ڈان اور دی نیوز کی مختلف رپورٹس میں بھی ان کے تجزیہ شامل ہوتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر قارئین کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ افغانستان میں اپنی اسیری کے تجربات پر مشتمل کتاب ڈیورنڈ لائن کا قیدی کے مصنف ہیں۔

Click here to post a comment

  • Now the hybrid city of madina is being targeted. This is the ultimate result of political islam , formulated in the 20th Century . It's the time for many people to rethink and revisit their position about the issue. It's now or never.