گئے وقتوں کی بات ہے، ایک ملک میں دو باشاہ بیک وقت حکومت کیا کرتے تھے. چونکہ اس ملک میں یہ محاورہ کسی نے نہیں سنا تھا کہ ایک نیام میں دو تلواریں اور ایک مملکت میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے، اس لیے معاملہ بہت عشروں سے خوش اسلوبی سے چل رہا تھا، دو بادشاہوں میں ایک سادہ بادشاہ ہوتا تھا اور ایک وردی والا بادشاہ۔
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، سادہ بادشاہ بہت سادہ ہوتا تھا، اسے صرف کرپشن کرنے کی اجازت اور آزادی حاصل ہوتی تھی، اس کے دوسرے فرائض منصبی میں وردی والے کو راضی کرنا اور راضی رکھنا شامل ہوتا تھا پھر بھی وردی والا بادشاہ بعض دفعہ ناراض ہو جاتا اور سادے کو گھر بھیج دیتا تھا۔ شیدے کا خیال ہے بیوی کو گھر بھیجنے والی اصطلاح یہی سے مستعار لی گئی ہے۔ ساری طاقت اور اختیار اپنے پاس ہونے کے باوجود یہ وردی والے بادشاہوں کا زہد و تقویٰ ہی تھا کہ وہ عموماً تین سال بعد امور مملکت اپنے نائب کو سونپ کے اپنی چیک بکس اور تسبیح سنبھال کے کسی دور افتادہ ملک میں گوشہ نشین ہو جاتے اور باقی زندگی اللہ اللہ کرتے ہوئے گزار دیتے۔ ان میں سے بھی کئی ایسے مرد مجاہد بھی ہوتے جو مرتے دم تک قوم کی خدمت کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنائے رکھتے۔
ایک دفعہ ایک ایسا ہی اولعزم وردی والا بادشاہ اقتدار کی پیڑھی پر چوکڑی مار کے بیٹھا ہوا تھا۔ سابقہ سادے بادشاہ کو کسی گستاخی کی پاداش میں گھر بھیج دیا گیا تھا بلکہ گھر والوں سمیت ملک خداداد کے ماما جی کو پارسل کر دیا گیا تھا۔ آجو باجو کے ممالک اور عوام الناس کی پرزور فرمائش تھی کہ سادے بادشاہ والی روایت کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ وردی والا بادشاہ بہت دل شکستہ اور جزبز ہوا، اس نے عوام کو بہتیرا سمجھایا کہ جب میں دن دگنی اور رات چگنی محنت کر رہا ہوں اور امور مملکت کو بحسن و خوبی چلا رہا ہوں بلکہ دوڑا رہا ہوں تو دوسرے بادشاہ کی ضرورت چہ معنی دارد؟ پر جھلے لوگ نہ مانے، تو مجبورا وردی والے بادشاہ نے جو کہ بلحاظ ترتیب بڑا صاحب سوئم کہلواتا تھا، سادے بادشاہ کے لیے لوگوں کے انٹریو کرنے شروع کر دیے۔ جو لوگ انٹریو میں ناکام ہوئے ان میں ایک بڑا سادہ سا اور بادشاہ ٹائپ ایمی نامی آدمی بھی تھا۔ بڑا صاحب ایمی کو مل کے بڑا خوش ہوا اور کہا یار تم تو پہلے ہی اتنے سادے اور بادشاہ ہو، میں تمھارے سٹیٹس میں مزید کیا اضافہ کر سکتا ہوں۔ میرے لائق کوئی اور خدمت ہوئی تو بتانا۔ اس کے ساتھ ہی بڑی سرکار نے تالی بجا کے تخلیہ پکارا اور دربار برخاست ہو گیا۔ ایمی کو اپنی توہین کا احساس تو ہوا لیکن وہ یہ سوچ کے خوش تھا کہ اگر وہ بادشاہ بننے کے قابل نہ ہوتا تو اسے بلایا کیوں جاتا۔ اس دن سے ایمی نے خود کو بادشاہ اِن ویٹنگ سمجھنا شروع کر دیا اور بڑے صاحب سوئم کے بعد بادشاہ بننے کی کوششیں تیز کر دیں، لیکن پہلے علی بابا بادشاہ کے عہدے پر فائز ہو گیا پھر نومی کی باری آ گئی تو ایمی کا غم و غصے سے برا حال ہو گیا۔
دوسری طرف نومی تیسری دفعہ سادہ بادشاہ بنا تھا، اب اس کی یہ دلی تمنا تھی کہ مال پانڈا تو بہت اکٹھا کر لیا ہے، اب میری بھی کوئی عزت ہونی چاہیے اور میں سچ مچ کا بادشاہ بن جائوں۔ کم از کم باتھ روم تو بڑی سرکار کی اجازت کے بغیر جانے کی آزادی ہو۔ اسی کشمکش کے زمانے میں بادشاہ سے یہ تاریخ ساز شعر سرزد ہوا
یااللہ مجھے اتنا تو معتبر کر دے
ایوان وزیراعظم کو میرا مستقل گھر کر دے
خیر، سادے بادشاہ کو اپنے ایک گوانڈی سے بڑی محبت تھی، وہ اس سے کبھی کبھی چھپ چھپ کے اور کبھی سر عام ملنے لگا، دوسری غلطی اس نے یہ کی بڑے صاحب سوئم کو بندی خانے کا مہمان بنانے کی آرزو کی۔ وردی والے بادشاہ کو نومی کی ان حرکات کا پتہ لگا تو بہت غصہ ہوئے، پہلے تو انھوں نے ارادہ باندھا کے نومی کو گھر ہی بھیج دیں، پھر یہ سوچا کہ کم از کم ایک غلطی تو اللہ بھی معاف کر دیتا ہے۔ آخر دونوں بھگوان ایک جگہ سر جوڑ کے بیٹھے۔ وردی والی سرکار نےسادے بادشاہ نومی سے کہا، کہ جناب آپ تو تخت پر بیٹھ کے سیریس ہی ہو گئے ہیں اور غالباً خود کو ہی اصلی بادشاہ سمجھنے لگے ہیں، کیا آپ کو نہیں پتہ کہ باس کون ہے؟ سادے بادشاہ نے حیرت سے اپنی غلطی کی بابت دریافت کیا تو بڑی سرکار نے رسان سے سمجھایا کہ لالا جی نامی گوانڈی سے پیار کی پینگیں بڑھانا بند کریں اور بڑے صاحب سوئم کو سزا دینے کا خیال دل سے نکال لیں کیونکہ وہ پوتر مخلوق ہیں، انھوں نے آپ کو شراپ دے دیا تو آپ کی یہ دنیا ہی نرکھ بن جائے گی، اگلی تو پہلے ہی ہے. لیکن سادہ بادشاہ نومی پتہ نہیں کن ہوائوں میں تھا، اس نے دونوں باتیں سنی ان سنی کر دیں. آخرکار مجبوراً بڑی سرکار کے ایک کارندے نے ایمی کو بلایا اور بتلایا کہ تیرے بھاگ جاگ گئے، جا جشن منا بڑی سرکار نے تجھے فوراً سادہ بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے، تم بس بھیڑ بکریوں کے کچھ ریوڑ لے کر دارالخلافہ پہنچو اور ہاں مولانا انقلاب کو ساتھ لانا نا بھولنا۔
ایمی کی سادگی پر شیدا قربان جائے جو اس آفر کو سنجیدگی سے لے گیا اور کچھ بھیڑ بکریاں لے کے شمال کی طرف چل پڑا۔ سادے بادشاہ نے اپنے گھر کے باہر طوفان بدتمیزی دیکھا تو بہت پریشان ہوا، آخر اس نے وردی والے بادشاہ عرف بڑی سرکار کی چوکھٹ پر سجدہ سہو کیا اور اپنے کردہ ناکردہ گناہوں کی معافی مانگی، بڑی سرکار نے بھی کمال فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نومی بادشاہ کو معاف کر دیا۔
لیکن دوستو کہانی ابھی یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ ایمی ابھی تک اس امید پر ہے کہ وہ وردی والی سرکار کی بارگاہ کا برگزیدہ ہے اور ایک دن وہ اس کو بادشاہ ضرور بنائے گا، اس لیے وہ آج بھی سارا دن بھیڑ بکریوں کے پیچھے بھاگتا اور انھیں شمال کی طرف ہانکنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ اس لیے اب تو لوگ یہ کہنے لگے ہیں اس ملک میں تین بادشاہ ہیں
وردی والا بادشاہ،
سادہ بادشاہ نومی
اور انتہائی سادہ بادشاہ ایمی
واللہ اعلم
نوٹ: اس کہانی کے سارے کردار اور واقعات چاہے وہ تاریخ کے ہوں یا حال کے، قطعاً فرضی ہیں کسی قسم کی بھی مطابقت کلی طور پر اتفاقیہ تصور کی جائے جس کے لیے پپو یا شیدا ذمہ دار نہ ہو گا.
تبصرہ لکھیے