اور یہ کتنی عجیب بات تھی کہ اُس کی عمر کے دوسرے لڑکوں اور اس کے ہم جماعتوں کے دوستوں کی تعداد کم از کم انگلیوں کی گنتی سے تو تجاوز کر ہی چکی تھی مگر خود اس کا کوئی ایک دوست بھی نہیں تھا. بظاہر اس کی کوئی خاص وجہ بھی نظر نہ آتی تھی. جب کبھی اس نے دوست بنانے کی شعوری کوشش کی بھی تو کامیابی نہ مل سکی کیونکہ کوئی بھی اس کے میعارِ دوستی پر پورا ہی نہیں اترتا تھا.
کاشف حد سے زیادہ باتونی تھا تو ناصر کا قد بہت لمبا تھا، اس کی موجودگی میں انس اچھے خاصے قد کے باوجود چھوٹا لگنے لگتا. آصف بظاہر بہت پر کشش اور خوبصورت تھا، ہمیشہ عمدہ لباس زیب تن کرتا مگر اس کے جسم اور منہ سے ناگوار بو آتی. عامر کی توجہ انس کی ذات سے زیادہ اس کی جیب پر ہوتی. اسے دیکھ کر تو انس کو اپنا پریپ کلاس کا دوست عاشر یاد آ جاتا جس کے ساتھ دوستی بمشکل ایک ہفتہ چل سکی تھی کیونکہ وہ بلا ناغہ انس کا آدھے سے زیادہ لنچ ہڑپ کر جاتا.
حاسب کا بناوٹی لب و لہجہ عجیب سا لگتا. عارف کی ہر بات مَیں سے شروع ہو کر مَیں پر ہی ختم ہو جاتی اور حسین کو اپنی امارت کے قصے سنانے سے ہی فرصت نہ تھی. صارم کے ساتھ دوستی کچھ بہتر چل رہی تھی مگر وہ ایک دن سکول آتا ہے اور پھر تین دن کے لیے غائب ہو جاتا. پوچھنے پر بڑی صفائی سے ٹال جاتا، عجیب پر اسرار شخصیت تھی اس کی. عاقل دھونس جمانے کا قائل تھا اور انس کو کسی دوسرے کی مرضی پر چلنا بہت ناپسند تھا. اسے اپنی عزتِ نفس اور خود داری ہر حال میں عزیز تھی. ہشام کے تیزی سے بدلتے موڈ سمجھ سے باہر تھے. سو کوئی دوستی بھی پنپ نہ سکی اور وہ "تنہا" ہی یونیورسٹی پہنچا تھا. کزنز بھی یا تو دور رہتے تھے یا اس کے ہم عمر نہ تھے. اتنا عرصہ بنا دوست کے رہتے ہوئے بھی وہ اس معمول پر سمجھوتہ بہرحال نہ کر پایا تھا اور ہمیشہ کسی اچھے انسان کی تلاش میں رہتا جسے دوست بنا سکے.
اس جستجو میں نیا موڑ تب آیا جب یونیورسٹی میں قرآن سرکل کے زیرِ اہتمام منعقدہ دس منٹ کے درسِ قرآن میں شرکت ہوئی۔ وہ مدرس کی طرف کچھ زیادہ متوجہ نہیں تھا اور کھڑکی سے باہر یونیورسٹی گراؤنڈ میں گروہوں کی شکل میں چہل قدمی کرتے خوش باش و بے فکرے دوستوں کے گروپس دیکھنے میں مگن تھا جب اگلی آیت کے ترجمے نے اسے چونکا دیا:
”اور ہم نے ابراہیم کو اپنا مخلص دوست بنا لیا.“
وہ خوش گوار حیرت میں مبتلا ہو گیا... ارے واقعی... اللّٰہ نے بھلا کن خصوصیات کو میعار بنایا ہو گا اپنے دوست کے انتخاب میں..؟ اگلے دو منٹ میں درس کا اختتام ہو چکا تھا. وہ سیدھا مدرس کے پاس گیا اور آج بیان کی گئی آیات کے نمبرز اور سورۃ کا نام پوچھ کر نوٹ کر لیا.
اب اس کی توجہ دوسری ہر چیز سے ہٹ چکی تھی. انٹرنیٹ پر سرچ کرنے سے حضرت ابراہیم کے حالاتِ زندگی پر مبنی صفحہ کھل گیا مگر وہ تو اس سے بڑھ کر کچھ جاننا چاہتا تھا. امی ابو سے تو اس سلسلے میں رہنمائی ملنے کے امکانات کم ہی تھے کیونکہ دونوں سائنس ٹیچرز تھے. دادا ابو، تایا ابو کے ہاں اسلام آباد گ ئے ہوئے تھے...
”اوہ ہاں...!!! مجھے پہلے خیال کیوں نہیں آیا.“ اور اگلے ہی لمحے وہ فون پر نمبر ملا رہا تھا.
”السلام علیکم، ینگ مَین!.“
”وعلیکم السلام، چاچو کیا حال چال ہیں آپ کے؟ آپ کافی دن سے آئے ہی نہیں. دادو کا ہی خیال کر لیا کریں، اداس ہو گئی ہوں گی آپ سے. آپ کو پتہ بھی ہے کہ دادا ابو اسلام آباد گئے ہوئے ہیں اور...“
”سانس تو لے لو بچے، اور ہاں امی سے تو میری کل ہی بات ہوئی ہے. صاف بتاؤ آج کیا کام ہے مجھ سے؟ ورنہ یاد کرنے میں پہل تو ہمیشہ میں ہی کرتا ہوں.“
”ہاں... وہ دراصل... کچھ کام تو ہے... آپ آئیں گے کب؟“ سر کھجاتے ہوئے کہا گیا.
”جب بھی بھابھی کے ہاتھ کی بریانی کھلا دو.“
”آج... ہفتہ ہے نا... کل تو امی کو کالج نہیں جانا. وہ آسانی سے مان جائیں گی. میں خود ان کے ساتھ مل کر کل بنواتا ہوں بریانی. آپ تشریف لے آئیے گا جناب.“ اب کے شوخ لہجے میں جواب دیا گیا.
کھانے کے بعد سبز چائے کا دور چل رہا تھا جب انس نے سورۃ النساء کی آیت ١٢٥ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا سوال ان کے سامنے رکھا.
”یہ اچھا دوست نہ ملنے والا مسئلہ تو میرا بھی ہے، بابا. کوئی اچھا دوست ملتا ہی نہیں.“ بغور سنتے ہادی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا. وہ پنجم کا طالب علم تھا.
”اور بابا میری دوست ہے نا شہلا، اس نے آج میرے ساتھ کٹی کر دی ہے.“ دوم کی طالبہ عنایا کی آنکھوں میں بات مکمل ہونے سے پہلے ہی پانی بھر آیا تھا.
اوہو، تو بھئی ثابت ہوا انس، کہ یہ مسئلہ عالمگیر نوعیت کا ہے اور مباحثے کے لیے ایک اچھا موضوع بھی جس میں مختلف آراء سامنے آ سکتی ہیں مگر اس وقت زیرِ بحث ہے کہ اللہ تعالٰی نے ابراہیم علیہ السلام کو دوست کیوں بنایا؟
”تو بات یہ ہے بچو“ محسن چچا کے چہرے پر سنجیدگی اور گہری سوچ رقم تھی. وہ گورنمنٹ کالج میں اسلامیات کے پروفیسر تھے اور اپنے مضمون پر ان کی گرفت مضبوط اور مطالعہ وسیع تھا. آپ کے سوال کا ایک لفظی جواب تو ہے ”وفا“ اور چونکہ یہاں خالق و مخلوق کے تعلق پر بات ہو رہی ہے تو وفا کا اظہار کامل و یکسو فرمانبرداری کی صورت میں ہوا. اگر ہم ان کی زندگی پر غور کریں تو بت گر و بت فروش آزر کے گھر میں پیدا ہونے کے باوجود وہ اپنی قوم کی بت پرستی سے عاجز و نالاں اور خالص توحید کے داعی تھے. قوم کو ان کے واہموں سے نکالنے اور سمجھانے کے لیے کہ یہ بت ان کی زندگی و موت، نفع و نقصان کے ذمہ دار نہیں ہیں، انہوں نے ایک موقع پر سب بتوں کو پاش پاش کر دیا تھا، صرف ایک بڑے بت کو چھوڑ کر. سورج، چاند، ستاروں کی پرستش سے اعلانِ برات کر کے توحید کا پرچار کیا تو آباؤ و اجداد کی اندھی تقلید میں مگن قوم ان کی دشمن بن گئی اور ان کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا.
نمرود کے دربار میں بھی انہوں نے اس کے خدائی کے دعوے کو ببانگِ دہل مسترد کر دیا تھا اور نتیجتاً آگ میں ڈالے جانے کی سزا پائی. پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے قرآن مجید میں اپنے دوست کی بہت سی خوبیوں کو اجاگر کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دوست کی خامیوں کے بجائے خوبیوں پر نظر رکھنا بھی شرائطِ دوستی میں سے ہے.
سورہ البقرۃ سے کچھ آیات کا حوالہ دوں گا،
”جب کہا اُس سے اُس کے رب نے کہ فرمانبرداری اختیار کر تو اس نے (فوراً) کہا، میں فرمانبردار ہو گیا ربِ کائنات کا.“
”اور جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں تو اس نے وہ پوری کر دکھائیں.“
”کہہ دو، ابراہیم کا طریقہ(سب سے بہتر ہے)، جو سب کو چھوڑ کر اللہ کا ہو گیا تھا.“
اسی طرح ایک اور مقام پر حضرت ابراہیم کو بہت نرم دل اور بردبار انسان کہا گیا. اور سب سے بڑا سرٹیفکیٹ جو انہیں بارگاہِ الہی سے ملا وہ یہ تھا کہ،
”اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا.“
وہ اللہ کے حکم پر اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آئے اور پلٹ کر سوال نہ کیا کہ یہ رہیں گے کیسے اور کھائیں گے کہاں سے؟ کتنا گہرا یقین تھا نا کہ اللہ میرے اور میری اولاد کے حق میں اچھا ہی کریں گے. انہوں نے اللہ کے حکم سے بیت اللہ کی از سر نو تعمیر کی اور دورانِ تعمیر اپنی اولاد اور نسلِ انسانی کے لیے دعائیں اور مناجات کیں جن کا تذکرہ سورہ ابراہیم میں ملتا ہے. پھر بلاشبہ سب سے بڑا امتحان تو وہ تھا جب نو عمر بیٹے کی قربانی کا مطالبہ کر دیا گیا. مگر ابراہیم علیہ السلام ایک بار سرِ تسلیم خم کرنے کے بعد پیچھے نہ ہٹے اور ہر امتحان میں اپنے دوست کی توقعات پر پورے اترے. ان کی یہی ادا اللہ تعالٰی کو بھاتی تھی.
زمین و آسمان کے سارے اختیارات کے مالک اللہ نے بھی حقِ دوستی خوب نبھایا. ابراہیم علیہ السلام کو امام الناس بنایا. مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ قرار دیا. آگ کو حکم دیا کہ ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی والی بن جا. بے آب و گیاہ وادی میں ٹھنڈا میٹھا چشمہ جاری کیا اور ثمرات کی کثرت کر دی. حضرت ہاجرہ علیھا السلام کے صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانے کو ابدی کر دیا. ہر نماز میں ذکرِ ابراہیم لازم ٹھہرا. نوجوان بیٹے کی قربانی پر بھی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آمادہ و تیار پایا تو بر وقت جنت سے مینڈھا بھیجا اور اس عظیم قربانی کی یاد میں اِس سنت کو تاقیامت جاری و ساری کر دیا.
بچو، جب میں چھوٹا تھا نا تو مجھے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے دوستی پر رشک آتا تھا اور پھر میں نے از خود اس تعلق پر کافی تحقیق کی. یہ موضوع کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں مگر ایک لفظ میں سموئیں تو یہاں بھی ”وفا“ ہی ہے جو خلوص و بے غرضی کی شکل میں ظاہر ہوئی.
انس کا اطمینان بتاتا تھا کہ اس کو نہ صرف اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا بلکہ سوچ کے کئی اور در بھی وا ہو گئے تھے. ہادی نے بھی اپنی ذہنی سطح کے مطابق آج کی گفتگو سے بہت کچھ اخذ کر لیا تھا اور عنایا تو دورانِ گفتگو ہی محسن چچا کی گود میں سر رکھ کر سو چکی تھی.
انس نے غور کیا تو احساس ہوا کہ اس کے دوستوں میں بھی بہت سی خوبیاں تھیں مگر اس نے ہمیشہ ان کی خامیوں پر نظر رکھی. اب اس نے خود سے عہد کیا کہ وہ آج سے اپنے اندر وہ صفات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا جن کی وجہ سے اس کا شمار بھی اللہ کے دوستوں میں ہونے لگے کیونکہ دوستی کی پیشکش تو اب بھی موجود تھی.
”اللہ مومنوں کا ولی ہے، ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے.“ البقرہ ٢٥٧
اللہ سے دوستی کے لیے سچا مومن ہونا شرط ہے. اور انس کو یقین تھا کہ روشنی کے اس سفر میں اللہ تعالٰی ضرور اسے اچھے لوگوں کی معیت بھی نصیب فرما دیں گے.
تبصرہ لکھیے