13 جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں طلبہ سے خطاب کے دوران قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“ ریاست پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ ایک ملک حاصل کر کے وہاں اسلامی اصولوں کے عین مطابق اسلامی فلاحی ریاست قائم کی جائے بلکل اسی طرح جیسے 14 سو سال قبل مدینہ نام کی ایک ریاست وجود میں آئی اور اسلامی معاشرے کو فروغ ملا۔ جب ہم اسلامی معاشرہ کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد مذہبی بحث و مباحثے والا معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ اس معاشرے کا قیام ہوتا ہے جہاں اسلامی قوانین کی حد میں رہتے ہوئے شخصی آزادی حاصل ہو اور فرد کو مجموعی و انفرادی حیثیت میں ایسا ماحول میسر ہو جس میں بتدریج وہ بالیدگی اختیار کرتے ہوئے اپنی روح کو عرفان کی بلندیوں پر لے جا سکے۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی قوانین کی موجودگی میں یا ان کے اندر رہتے ہوئے کون سی شخصی آزادی ہے۔ جس کا سادہ اور حقیقت پر مبنی جواب یہ ہے کہ دنیا کا کون سا معاشرہ یا ملک ہے جو قوانین سے آزاد ہو؟ آزادی کی اپنی اپنی تعریف ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف انداز میں رائج ہے۔ کہیں پر انسان کی آزادی کا مطلب ہے جنسی آزادی، کہیں پر انسان کی آزادی کا مطلب ہے کہ افعال و اعمال میں کوئی شخص کسی دوسرے پر اثر انداز ہوئے بغیر جو مرضی کرنا چاہے کر لے۔ ایسے آزاد معاشروں کے اندر بھی قوانین ہیں جن کی پابندی لازم ہے۔ تو کیا وہ اقوام جو قوانین کی پابندی کرتی ہیں غیر آزاد کہلاتی ہیں؟ یقینا اس کا جواب ہر انسان نہیں میں ہی دے گا۔ کیونکہ فلاحِ انسانیت کےلیے بنائے گئے قوانین کی پاسداری اور ان کا احترام کرنا غلامی نہیں کہلاتا ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست کے اندر معاشرے اور فرد کی انفرادی و اجتماعی فلاح اور بہتر عقلی و فکری نشو و نما کے اپنے الگ قوانین ہیں جیسے دیگر ریاستوں کے اپنے قوانین۔ فرق محض یہ ہے کہ دیگر اقوام فرد کےلیے فرد کے بنائے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور ہم مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کے بنائے افراد کےلیے قوانین بہتر ہیں بہ نسبت ان قوانین کے جو افراد افراد کےلیے بناتے ہیں۔ بطورِ انسان اگر میں کسی شخص کو یہ اختیار دیتا ہوں کہ میرے جینے کے ضابطے مقرر کرے تو وہ کس حیثیت سے وہ ضابطے طے کرے گا کیونکہ ہے تو وہ بھی ایک انسان ہی؟ اور اگر مجھے کہا جائے کہ کسی انسان کے میرے لیے مقرر کردہ ضابطے اور قوانین کی پیروی کروں تو میں کس حیثیت سے ان کی پیروی کرنے کا پابند ہوں؟
ایک آفاقی حقیقت یہ بھی ہے کہ طاقت کے اپنے قوانین ہوتے ہیں اور طاقت کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں۔ کون ہے جو جھٹلا سکے کہ کمزور اور طاقتور انسان کے بنائے قانون میں سے نفاذ اسی کے قانون کا ہوتا ہے جو طاقتور ہے۔ 11/09 کے بعد چند سو افراد کے مرنے پر جو امریکہ نے افغانستان میں کیا، وہ طاقت کا قانون تھا۔ جو عراق میں امریکہ نے ویپین آف ماس ڈسٹرکشن کے نام پر کیا، وہ طاقت کی اخلاقیات تھیں۔ اوپینیئن ریسرچ بزنس سروے کے مطابق دس لاکھ سے زائد افراد امریکہ عراق جنگ میں مرے مگر طاقت کا قانون آج بھی اسے ایک تنازعہ قرار دیتا ہے۔ میڈیا میں امریکہ عراق جنگ کے بجائے امریکہ عراق تنازعے کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ 5 لاکھ کے لگ بھگ لوگ افغانستان میں مرے الگ ہیں۔ اقوامِ متحدہ کو دنیا کا سب سے بااثر ادارہ سمجھا جاتا ہے، کیا وہ بااثر ادارہ ان 15 لاکھ افراد میں سے کسی ایک کو بھی بچا سکا؟ چلیں امریکہ کے خلاف کوئی ایک عمل ثابت کر دیں جو اقوامِ متحدہ نے ان اموات کے بدلے کیا ہو۔ اتنی بڑی زمینی حقیقت کے باوجود کون ہے جو یہ تسلیم نہ کرے کہ طاقتور کا قانون کمزور کے قانون سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس پر یہ کہنا کہ انسان کے انسان کےلیے بنائے قانون انسان کےلیے موزوں ہوتے ہیں، دراصل انسان کو انسان کا غلام بنانے کے مترداف ہے اور اس عیاری یا پھر سادگی پر محض مسکرایا ہی جا سکتا ہے۔
تھیوری بھلے جتنی بھی کارآمد ہو تب تک محض تھیوری ہی قرار پاتی ہے جب تک اسے پریکٹیکل کی کسوٹی پر پرکھ نہ لیا جائے۔ کہنے کی حد تک ہم جتنا بھی کہہ لیں کہ ایک اسلامی معاشرہ فلاحِ انسانیت پر مبنی ہوتا ہے جب تک ہم اسے عملی طور پر جانچ نہ لیں، دوسروں کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ تو اسلامی فلاحی ریاست کو 14 سو سال قبل دنیا کے سامنے بطور ماڈل پیش کیا جا چکا ہے۔ جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مدینے کی گلیوں میں لوگ خیرات و زکوٰۃ جھولیوں میں ڈال کر پھرا کرتے تھے مگر خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ یہاں پر ایک اعتراض یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست کا وہ نظریہ 14 سو سال پرانا ہے جو آج نافذالعمل نہیں ہو سکتا۔ میرے بھولے دانشور یہ بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ جس جمہوریت کو آج جدید نظام کہا جاتا ہے، یہ جمہوریت کا نظریہ بذاتِ خود 508 قبلِ مسیح متعارف ہوا۔ اس حساب سے جمہوریت کی عمر 2524 سال بنتی ہے جبکہ اسلامی نظریہ ریاست کی عمر محض 1437 برس ہے۔ تو ڈھائی ہزار سال قبل کے ایک نظریہ کو جدید قرار دے کر 14 سو برس قبل کے نظریہ کو زیادہ پرانا آخر کس بنیاد پر قرار دیا جا سکتا ہے؟ دوسرا اور مقبول ترین اعتراض جو اسلامی نظریاتی ریاست پر کیا جاتا ہے وہ جنگیں ہیں جو مختلف مسلمان حکمرانوں کے ادوار میں ہوئیں۔ اسلامی ادوار میں جنگ و جدل کا اعتراض یوں کیا جاتا ہے جیسے اسلامی فلاحی ریاست سے قبل تو تاریخ میں کوئی جنگ کبھی ہوئی ہی نہیں۔ پتھر کے زمانے سے لے کر اسلامی فلاحی ریاست کے قیام تک کوئی ایک بھی دور ایسا نہیں گزرا جس میں انسان نہ لڑا تو کیا وہ جنگیں بھی اسلامی ریاست کی وجہ سے تھیں؟ دوسرا اہم نکتہ جسے میرا آج کا معزز دانشور درخورِ اعتنا نہیں جانتا، وہ دنیا میں ہونے والی وہ جنگیں ہیں جو جمہوری ادوار میں جمہوریت پسند انسانوں نے لڑیں۔ اگر تقابلی انداز میں اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو ہم اس نتیجے پر بلا تامل پہنچ جائیں گے کہ جمہوریت اور دیگر نظاموں میں ہونے والی جنگیں اور انسانی جانوں کا ضیاع اس سے کئی گناہ زیادہ ہے جو اسلامی ادوار میں ہوا۔ جب ہم اس نکتے پر آتے ہیں تو ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ جمہوری ادوار میں لڑی جانے والی جنگیں جمہوریت کی وجہ سے نہیں تھیں بلکہ جنگ لڑنے والوں کی”اپنی مرضی“ تھی جبکہ اسلام جہاد کا حکم دیتا ہے۔
اچھا جہاد آپ کا مسئلہ ہے بہت خوب۔ ٹھیک ہے جن جمہوری و غیر جمہوری جنگوں کے متعلق آپ یہ رائے قائم کیے بیٹھے ہیں کہ وہ لڑنے والوں کی”اپنی مرضی“ سے لڑی گئیں تھیں تو ان کی ”مرضی“ کو ڈیفائن کر دیں زرا۔ یہ جو ”ان کی مرضی“ تھی، وہ کیا تھی؟ کیا یہ محض جنگ و جدل کی خواہش تھی؟ کیا اقتدار کی خواہش تھی؟ کیا زمین اور وسائل کے قبضے کی خواہش تھی؟ کیا یہ طاقت کا نشہ تھا جو اس مرضی کا پسِ منظر تھا؟ ذرا وضاحت کر دیں اس مرضی کی۔ عقلی اعتبار سے جمہوریت اور قبلِ جمہوریت لڑی جانے والے تمام جنگوں کے اسباب و علت کا موازنہ جہاد کے اسباب و علت سے کریں اور پھر فیصلہ خود کر لیں کہ جہاد ممتاز ہے یا نہیں ہے۔ اس درخواست کے ساتھ کہ ذہنی کج روی کا جو مظاہرہ مغرب کی اقوام اسلامی نظریہ ریاست کے متعلق اپناتی ہیں اس سے اجتناب برت کر کوئی فیصلہ کیجیے گا۔
یہ چند نمایاں اعتراضات تھے جو اسلامی فلاحی ریاست کے نام پر اکثر ان لوگوں کی طرف سے سننے میں آتے ہیں جن کی تعداد پہاڑ کے مقابلے میں رائی جیسی ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ہی اس قوم کا نصب العین تھا جس کےلیے اس نے قربانیاں دیں۔ اور جلد یا بدیر یہ قوم اس نصب العین کو حاصل کر کے رہے گی۔ کسی کو گراں گزرتا ہے تو ضرور گزرے مگر اس زمانی حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا نا کہ قوم کے 80 فیصد سے زائد افراد اس ملک کو بطورِ اسلامی فلاحی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے ڈنکے بجانے والے افراد کو پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے جب اس 80 فیصد کی بات کی جاتی ہے۔ حضور ان کی رائے کا بھی تو کوئی احترام ہونا چاہیے نا۔
تبصرہ لکھیے