وفاقی حکومت نے ایک ممتاز عالم دین سے فتوی حاصل کیا ہے جس کی رو سے ہمارا دستور مکمل طور پر اسلامی ہے کیونکہ اس میں وہ 22 ”اسلامی“ دفعات شامل ہیں جو اس ملک کے ممتاز علماے کرام نے متفقہ طور پر تجویز کیے تھے۔ (ایکسپریس ٹریبیون، 9 فروری2015ء ) پچھلے مضمون (عدلیہ کی شریعت، جناب والا) میں ہم نے تجویز کیا تھا کہ محض قوانین وضع کرنے سے وہ اسلامی نہیں ہوجاتے؛ بلکہ یہ تبھی اسلامی ہوں گے جب عدالتیں ان کی اسلامی تعبیر کریں گی۔ زیر نظر مضمون میں یہ واضح کیا جارہا ہے کہ ان 22 نکات کی شمولیت سے دستور اسلامی نہیں ہوجاتا؛ دستور تبھی اسلامی ہوگا جب عدالتیں صرف ان 22 نکات کی ہی نہیں بلکہ دستور کی ہر ہر دفعہ کی اسلامی تعبیر کریں گی۔
سوال یہ ہے کہ عدالتیں کیوں دستور کی اسلامی تعبیر نہیں کر رہیں؟ ہمارے علماے کرام اور صحافی حضرات کو، جو اس موضوع پر لکھ رہے ہیں، معلوم ہونا چاہیے کہ اگر عدالتیں دستور کی ہر شق کی اسلامی تعبیر نہیں کر پا رہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب عدالت ِ عظمی نے حاکم خان بنام حکومت ِپاکستان میں دیا ہے۔ ( PLD 1992 SC 559) اس مقدمے میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ قصاص کے مقدمات میں قاتل کی معافی کا اختیار صرف مقتول کے ورثا کے پاس ہے یا ورثا کی مرضی کے بغیر بھی صدر قاتل کو معاف کرسکتا ہے؟ دستوری اصطلاح میں بظاہر دفعہ 2– الف ، جو دستور کو اسلامی بنانے کی کوشش کرتی ہے، اور دفعہ 45، جو صدر کو ہر سزا کی معافی کا اختیار دیتی ہے، کے درمیان تصادم تھا۔
اگر یہ فرض کرتے ہوئے کہ دستور اسلامی ہے، دفعہ 45 کی بھی اسلامی تعبیر کی گئی ہوتی تو معزز عدالت نے قرار دیا ہوتا کہ دفعہ 45 کا اطلاق قصاص کی سزا پر نہیں ہوتا۔ تاہم عدالت نے یہ نہیں کہا۔ اس کے برعکس اس نے قرار دیا کہ دفعہ 2– الف ”دستور پر حاوی“ نہیں ہے اور دفعہ 2– الف دستور کی کسی دوسری شق کی تخصیص یا تقیید نہیں کر سکتی۔ بالفاظ دیگر، صرف وہ ”22 نکات“ ہی اسلامی ہیں؛ باقی ہر شق اپنا انفرادی مفہوم رکھتی ہے۔
پورے دستور کو اسلامی بنانے کا طریقہ پھر کیا ہے؟ معزز عدالت نے اس کے لیے یہ طریقہ سجھایا ہے:
پس اگر دستور کی موجودہ شقوں میں سے کسی کے متعلق یہ سوال اٹھایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ جن حدود کے اندر لوگوں کو قانون سازی کا اختیار ہے، یہ شق ان حدود سے تجاوز کی بنا پر ناجائز ہے، تو اس مسئلے کا حل صرف مجلس شوری ( پارلیمنٹ ) کے پاس ہے جو اگر اس راے سے متفق ہو تو متعلقہ شق کو ٹھیک کرکے اسے واپس اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر لانے کے لیے مناسب ترمیم کرسکتی ہے۔ ( PLD 1992 SC 559, 621, emphasis added)
یہ موقف دستوری لحاظ سے انتہائی دور رس نتائج کا حامل ہے اور اس کا تفصیلی تجزیہ ضروری ہے۔
برطانیہ میں دستور عام قوانین کی صورت میں بکھرا پڑا ہے جس کی وجہ سے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہاں (یکجا صورت میں) تحریری دستور موجود نہیں ہے۔ دستور کی جگہ وہاں پارلیمنٹ کا فیصلہ بالادست حیثیت رکھتا ہے۔ اس بنا پر وہاں جج کہا کرتے تھے کہ: ”ہم ملکۂ عظمیٰ اور پارلیمنٹ کے معزز اراکین کے خادم ہیں۔“ چنانچہ کسی قانون میں ترمیم کی ضرورت ہوتی تھی تو جج اسے واپس پارلیمنٹ بھیجا کرتے تھے۔ تعبیر قانون کے لیے وہ لفظ کے ظاہری مفہوم پر اصرار کرتے تھے اور قانون میں اپنی جانب سے کسی مفہوم یا پہلو کا اضافہ نہیں کرتےتھے۔ تمام فیصلے پارلیمنٹ سادہ اکثریت کے ذریعے کرتی تھی۔ جہاں تحریری دستور ہو، جیسا کہ امریکا میں ہے، وہاں ایسا نہیں کیا جاتا۔ برطانیہ میں بھی اب یہ موقف بتدریج تبدیل ہوتا جارہا ہے اور وہاں بھی جج بعض اوقات مدون دستور کے مفروضے پر عمل کرتے ہیں۔
غیر مدون دستور کے برعکس تحریری طور پر مدون دستور قانون کے مآخذ کے درمیان ترتیب مقرر کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں تحریری دستور کو بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ دستور کو عام قانون پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی بالادستی کے مفروضے کی بنا پر عدالتوں کے لیے یہ اختیار تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ دستور سے تصادم کی بنیاد پر قوانین کو کالعدم قرار دیں۔ پاکستان میں بھی ماضیِ قریب میں عدالت ِ عظمیٰ نے اس قاعدے کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔ چونکہ برطانیہ میں قوانین کے درمیان اس نوعیت کی ترتیب کا عنصر مفقود ہے، اس لیے وہاں عدالتوں کے پاس اس طرح کا اختیار موجود نہیں جس طرح امریکا میں ماربری بنام میڈی سن کے مشہور مقدمے سے عدالت ِ عظمیٰ نے حاصل کیا۔ برطانیہ میں یہ عدالتی اختیار صرف انتظامی فیصلوں کے جائزے تک ہی محدود ہے۔ اگر ہم اپنے دستور کی شقوں کے مفہوم کے تعین اور اسلام کے ساتھ ان کی ہم آہنگی کا فیصلہ کرنے کے لیے اسی طرح پارلیمنٹ کی طرف بھیجیں گے تو اس سے قوانین کے درمیان اس ترتیب اور عدالتوں کے اس اختیار کی نفی ہوتی ہے جسے ہمارے دستور نے تسلیم کیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حاکم خان کیس میں معاملہ پارلیمنٹ کی طرف بھیجنے کے بجاے اگر عدالتِ عظمیٰ نے اپنے اس اختیار کا استعمال کیا ہوتا تو وہ یہ فیصلہ بھی سنا سکتی تھی کہ مقتول کے ورثا کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا حق دستور کی دفعہ 45 سے متصادم ہے! عدالت نے ایسا نہیں کیا اور پورا معاملہ پارلیمنٹ کی طرف بھیج دیا۔ پارلیمنٹ نے دستور میں ترمیم کرنے کے بجاے مجموعۂ تعزیرات ِ پاکستان میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا۔ چنانچہ 1997ء میں اس مجموعے کی دفعہ 54 میں، جو سزائوں کی معافی کے بارے میں حکومت کے اختیار کے بارے میں ہے، حسب ِ ذیل ترمیم کی گئی: ”البتہ اگر مجرم کو قتل کے کسی جرم میں سزاے موت سنائی جاتی، تو مقتول کے ورثا کی مرضی کے بغیر ایسی سزا میں تخفیف نہیں کی جائے گی۔“ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کام عدالت نہیں کرسکی، وہ عدالت نے ایک عام قانون کے ذریعے کردیا کہ اس نے دستور کی دفعہ 45 کی تخصیص ایک عام قانون کے ذریعے کی۔ گویا دستور میں ترمیم سادہ اکثریت کے ذریعے کی گئی!
دفعہ 45 کی تخصیص اس طریقے سے، یعنی ایک عام قانون کے ذریعے حالانکہ اس کے الفاظ عام ہیں اور اس میں”قانون کے تحت“ جیسی کوئی ترکیب بھی استعمال نہیں کی گئی۔ اگر اس کے باوجود پارلیمنٹ یہاں یہ کرسکتی ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ بنیادی حقوق سے متعلق دفعات کے ساتھ وہ کیا کچھ کرسکے گی کیونکہ ان دفعات میں تو یہ ترکیب بھی استعمال کی گئی ہے! مثال کے طور پر ”مفاد عامہ کی خاطر قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قید کے اندر“ ؛( دفعہ 15) ”نظم اجتماعی کے مفاد کی خاطر قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قیود کے اندر“ ؛( دفعہ 16) ”قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قیود کے اندر“۔ ( دفعہ 17) چنانچہ پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے بنیادی حقوق پر کئی قیود عائد کرسکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان دفعات میں پنکچر لگے ہوئے ہیں۔ ( پنکچر میں کسی اور بات کی طرف تلمیح نہ سمجھی جائے۔)
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر صدارتی اور دیگر نوعیتوں کی استثنی سے متعلق دفعہ 248 کا جائزہ اسلامی قانون کی روشنی میں لیا گیا تو اس کی تعبیر کیسی ہوگی؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضی ِ قریب میں جب عدالت میں اس دفعہ پر بحث ہو رہی تھی تو اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا۔ تاہم دفعہ 6 تو اس وقت بھی عدالتوں میں زیر غور ہے۔ ہمارے دستور کی اسلامیت جانچنے کا یہ ایک اور موقع ہے۔ ہمیں انتظار ہے اس بات کا کہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں عدالت ”غداری“ کا کیا مفہوم متعین کرتی ہے؟
پس بنیادی نکتہ یہ ہے کہ محض قانون سازی کافی نہیں ہے؛ نہ ہی قوانین میں محض یہ تصریح کرنے سے کہ یہ اسلامی ہیں، کام چل سکتا ہے۔ دستور یا قانون میں اسلامی دفعات کی شمولیت سے صرف آدھا کام ہی ہوا ہے۔ اصل میں اہمیت اس امر کی ہے کہ عدالتیں دستور اور قوانین کی تعبیر کس طرح کرتی ہیں۔ شاید حاکم خان کیس کا فیصلہ اب بھی نافذ ہے۔ تاہم اسلامی قانون کی روشنی میں دستور کی عدالتی تعبیر کی راہ میں یہ فیصلہ رکاوٹ نہیں بن سکتا۔
1898ء کے ایک فیصلے کی بنا پر 1966ء تک انگلستان میں برطانوی دار الامراء پر خود اس کے اپنے فیصلوں کی پابندی لازم تھی۔ یہ اصول پہلی دفعہ لندن سٹریٹ ٹرام ویز بنام لندن سٹی کونسل کے مقدمے میں طے کیا گیا۔ دار الامراء نے قرار دیا کہ ”کسی قانونی امر کے متعلق اس ایوان کا فیصلہ حتمی ہے اور پارلیمنٹ کے قانون کے سوا کوئی چیز بھی اس ایوان کے فیصلے میں موجود کسی مزعومہ غلطی کی تصحیح نہیں کرسکتی۔“ 1966ء میں دار الامراء نےایک ”تعامل کی دستاویز“ کے ذریعے یہ موقف تبدیل کرلیا اور قرار دیا کہ ”ایوان کے سابقہ فیصلوں کو عام طور پر لازمی ماننے کے باوجود ایوان ان سے انحراف کرسکتا ہے اگر اسے یہ انحراف صحیح معلوم ہو۔“ پس اس وقت زیادہ سے زیادہ جو کچھ چاہیے وہ صرف عدالت ِ عظمیٰ کی جانب سے جاری کردی ایک ”تعامل کی دستاویز“ ہے جس میں یہ قرار دیا جائے کہ آج سے پاکستان کے دستور اور قوانین کی تعبیر اسلامی قانون کی روشنی میں کی جائے گی۔ اس کے بعد کوئی یہ سوال نہیں کرسکے گا کہ کیا پاکستان کا دستور اسلامی ہے ؟
(تحریر : عمران احسن خان نیازی مترجم : محمد مشتاق احمد)
تبصرہ لکھیے