ہوم << انسان اور کتے برابر مگر کیسے؟ ثاقب ملک

انسان اور کتے برابر مگر کیسے؟ ثاقب ملک

Cute tri-colored Australian Shepherd reaches up with paw to greet outstretched human hand.

ہمیں کتے پالنے کا بہت شوق ہے. شومی قسمت، کتے بھی ہمارے بارے میں یہی خیالات رکھتے ہیں. سردست یہ طے نہیں ہو سکا کہ کس کا شوق غالب ہے. ہوا کچھ یوں کہ اپنی رحم دل طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہم ایک آوارہ کتے کی زلفوں کے اسیر ہوگئے.
ایک دن گھر واپسی پر ایک مسکین سی صورت والے کتے کو گیٹ کے سامنے براجمان پایا. شاپنگ کے دل اور جیب سوز صدمات جھیلنے کے بعد مزاج میں رقیق القلبی کا غلبہ تھا، سو کتے کی معصومانہ شکل و صورت میں اپنے غموں کی تشبیہ دیکھتے ہوئے اسے پچکار بیٹھے. وہ بھی شاید اسی انتظار میں تھا. فوراً دم ہلاتا میرے آگے پیچھے لوٹنیاں مارنے لگا. بےاختیار شادی کے اولین دن یاد آگئے.
اب کتے کو کچھ کھلایا پلایا تو اس کی وارفانہ محبت نے دل کو سکون دیا. کتے نے شاید دو طرفہ لگی آگ کو محسوس کر لیا تھا اس لیے لپک کر میرے منہ پر اپنی محبت کے نقوش چھوڑنا چاہے. امکان غالب ہے کہ یہ کتا مغربی تہذیب کا دلدادہ تھا. ناہنجار اپنی یہ حرکت پوری نہ کر سکا اور میری ٹانگوں پر ہی لینڈ کر گیا. خیر اب اس کا نام بھی رکھنا ضروری تھا. پہلے سوچا ٹونی رکھ لیا جائے لیکن پھر ذہن میں خیال آیا کہ میری اہلیہ کو اس سے کینفوزن ہو سکتی ہے. نام میں مشکلات دیکھ کر فی الحال اس کا ارادہ ملتوی کر دیا. کچھ دن اسی محبت میں گزرے. ایک دن گھر واپس آیا تو کتے کو ایک صنف نازک سے راز و نیاز کرتے پایا. اچنبھا ہوا. میں نے اپنے تئیں ان کی پرائیویسی کا خیال رکھتے ہوئے کھنکھار کر گلہ صاف کیا مگر اس دوران میرے حلق سے ننھی منھی سی ”ہاؤ“ نکل گئی. کتے کے ساتھ جڑی صنف نازک کا فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا، یا کم سے کم ہمیں ایسا ہی محسوس ہوا. اب برخوردار کتے صاحب نے ہماری طرف رخ کیا اور اپنی زبان میں گویا ہوئے جیسے کہہ رہے ہوں ”اوہ بھائی، اپنی عزت کا خیال نہیں تو ہماری عزت کا ہی خیال کر لو.“ کتے کی اس بے غیرتی پر ہمیں بہت تاؤ آیا مگر پھر دل کو تسلی دی کہ وہ کتا ہی کیا جو بےغیرتی نہ کرے. ہماری بلی ہمیں کو میاؤں کے محاورے میں ترمیم کا خیال ذہن میں وارد ہوا مگر سوچا ایک آدھ بے ادبی پر یوں دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے.
ایک دن اسی کتے کو دوسری گلی میں ایک گاڑی کے نیچے بیٹھے پایا تو حیرت ہوئی. ابھی میں یہ پوچھنے ہی لگا تھا کہ میاں کتے یہ کیا ماجرا ہے؟ کہ کتا کسی غیرمرئی صلاحیت کے حامل کی طرح بن کہے میری بات کو سمجھ گیا. گاڑی کے نیچے سے باہر نکلا اور کسی بیوی کی طرح ہاتھ کمر پر رکھ اپنی زبان میں بولا..”نہیں تو تم چاہتے کیا ہو؟ صرفِ تمھاری غلامی کروں؟ اللہ مجھے ہر جگہ سے رزق دیتا ہے، میں اس کی ناشکری کروں؟ تم چاہتے ہو میں ہر وقت تمھارے آگے دم ہلاؤں؟“ کتے کی یہ طولانی اور جذباتی تقریر سن کر ہم بہت پشیمان ہوئے. اس کی دلجوئی کے لیے کچھ گوشت اور ہڈیاں بطور تبرک اس کے سامنے رکھیں. کتے نے کمال بےاعتنائی سے پلیٹ کو پرے سرکا دیا اور بھونک بھونک کر بولا ”ہم فقیر لوگ ہیں دل چاہا تو کھا لیں گے.“
ایک دن ہم نے کچھ سستی کی اور گھر اکیلا دیکھ کر کتا گھر کے اندر گھس آیا. اندر آتے ہی اس کی پھرتیاں دیکھنے لائق تھیں. سارا گھر فورا پھرتی سے سونگھ ڈالا. پھر صوفہ پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور ریموٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا. ہم نے اسے منع کرنا ہی چاہا کہ بولا ”حضور ذرا اسکوبی ڈو ہی لگا دیں.“ کتے کے اس طنزیہ طرز تخاطب پر ہمیں تاؤ آیا مگر بزرگوں سے سنا تھا کہ گھر آئے مہمان کی توہین نہیں کرتے اسی واسطے چپ رہے. خاموشی سے کارٹون لگا دیے. کتا صاحب کارٹون دیکھ کر فارغ ہوئے تو میرے قریب آئے. دم ہلا کر مغموم سی آواز میں بولے ”یار ہمارے راستے جلد جدا ہونے والے ہیں. میرا اس کتی سے بریک اپ ہوگیا ہے. دراصل میں اس کی قربت کی وجہ سے اس گھر کے باہر مقیم تھا. وہ کتی واقعی کتی نکلی.“ میں جو ابھی اس دھوکے کے صدمے سے باہر ہی نکلا تھا کہ کتے نے دم ہلا کر مجھے الوداعی سلام دیا اور باہر چلنے لگا. میں نے ہمت کی اور نسبتاً غصے میں اسے کہا ”تو تم بھی تو کتے ہی نکلے ناں.“ کتا یکدم رکا اور گردن موڑ کر بولا ”میرا منہ نہ کھلواؤ، تم پوری زندگی لوگوں کو دھوکہ دیتے رہے ہو، عہد و پیمان کی تم پابندی نہیں کرتے، بےوفائی تمھاری سرشت میں شامل ہو چکی ہے تو ہم سے کیا توقع رکھتے ہو.“
ہم سوچ رہے ہیں کہ جارج آرویل کے انسانوں کے متعلق مشہور جملے میں ترمیم کے ساتھ عرض کریں گے کہ سب کتے ایک جیسے برابر ہوتے ہیں مگر کچھ کتے کچھ خاص برابر ہوتے ہیں. ہم جیسے انسان اور ایسے کتے برابر ہیں.

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment