ہوم << میرا کھویا ہوا گھر - آفتاب اعوان

میرا کھویا ہوا گھر - آفتاب اعوان

آفتاب اعوان اگلی بار جب میں آؤں گا تو ضرور یہاں کچھ دن ٹہر کر واپس جاؤں گا، بہت دل چاہتا ہے کچھ دن سب کے ساتھ گزارنے کا.
اگلے سال جب کمیٹی کے پیسے جمع ہوئے تو گھر کی مرمت کروا دوں گا بہت خراب حالت میں ہے ناں، اب اس حالت میں بندہ آ کر کیا رہے. جب گھر کی حالت ٹھیک ہو جائے گی تو پھر ہر ہفتے آیا کریں گے.
میں نے تو اپنا بڑھاپا گاؤں میں گزارنا ہے. شہر میں بھی کوئی زندگی ہے، کوئی اپنا نہیں، کسی کے گھر بےتکلفی سے جا کر دو گھنٹے بیٹھ بھی نہیں سکتے. گاؤں میں تو کسی کے گھر بھی جی چاہے تو بغیر دستک صرف آواز دے کر چلے جاؤ اور مزے سے گپیں مارو. مزا تو صرف گاؤں کی زندگی میں ہی ہے.
بس تم لوگوں کے فرائض سے سبکدوش ہو جاؤں، پھر میں نے یہاں رہ کر کیا کرنا ہے؟ مزے سے گاؤں واپس چلا جاؤں گا اور اپنے یاروں دوستوں کے ساتھ اپنا وقت گزارا کروں گا.
یار اب جب بھی گاؤں آتا ہوں، ایک دوست اور کم ہو گیا ہوتا ہے. لگتا ہے ہماری ساتھ کو کوئی باقی ہی نہیں رہ گیا. کچھ چلے گئے، کچھ اپنے بچوں کے پاس شہروں میں منتقل ہوگئے. اب یہ گاؤں اجنبی لگتا ہے.
ہم جیسے خوبصورت مستقبل کی تلاش میں گاؤں سے آنے والوں کی زندگی بس یوں ہی گزر جاتی ہے. خوشحالی، رتبے اور مقام کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وقت کی ڈور ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے. پہلی گاڑی، نئی گاڑی، کرائے کا بڑا گھر، اپنا پلاٹ، شہر میں اپنا گھر بنتے بنتے گاؤں کا اصلی گھر اور اپنی دھرتی کہیں بہت دور پیچھے رہ جاتی ہے.
گاؤں کے گھر کا گیٹ جو دن کو کبھی بند ہی نہیں ہوتا تھا، اس کا رنگ اتر کر پہلے زنگ لگتا ہے اور پھر کالی میل اور کائی اس پر جم جاتی ہے، وہ دروازے جو ہر آنے جانے کے لیے وا تھے، ان کی کنڈیاں اور چٹخنیاں اپنی جگہ پر اتنی جم جاتی ہیں کہ ان کا کھلنا بھی دشوار ہو جاتا ہے. تالوں کی چابیاں اتنے عرصے میں کہیں گم جاتی ہیں. صحن کے فرش جہاں شام کو چارپائیاں بچھتی تھیں، جن پر لیٹ کر صاف آسمان کے دمکتے تارے دیکھتے تھے، وہاں سیمنٹ کی دراڑوں میں سے پہلے پہل گھاس کی چھوٹی چھوٹی پتیاں سر نکالتی ہیں اور پھر باقاعدہ جھاڑیوں کا روپ دھار لیتی ہیں. پڑوسیوں کے درخت سے اپنے صحن میں گرنے والے پتے جنہیں امی روز جھاڑو دے کر صاف کرتی تھیں، پہلے صحن میں ڈھیروں کی شکل میں جمع ہوتے ہیں اور پھر تیز ہوائیں انہیں برآمدے میں اور کمروں کے دروازوں کے سامنے یوں پھیلا دیتی ہیں کہ کہ گویا ان دروازوں نے پھر کبھی کھلنا ہی نہیں. بڑے کمرے کا وہ صوفہ جس پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے تھے اور جس پر بیٹھے بیٹھے صحن کے آخری کونے تک نظر جاتی تھی اور گیٹ سے داخل ہونے ولاا فورا نظر آتا تھا، وہی صوفہ اب دھول سے اٹا ہوا سالوں سے اس بات کے انتظار میں رہتا ہے کہ کب گھر کا مالک واپس آکر مجھ پر بیٹھے گا اور اس کی آواز پورے گھر میں زندگی کی لہر دوبارہ سے دوڑائے گی. وہ بیٹھک جہاں بیٹھ کر دنیا جہاں کی کتابیں پڑھی جاتی تھیں اور جہاں بیٹھ کر دوستوں سے گھنٹوں دنیا بھر کے موضوعات پر لاحاصل بحثیں کی تھیں، وہ شاید پھر اسی دن کھلتی ہے جس دن اولاد کو افسوس کے لیے آنے والے احباب کو بٹھانا مقصود ہو. وہ کتابیں جن کو پڑھ پڑھ کر وہ معلومات حاصل کی تھیں کہ جن کی مدد سے آج بھی لوگوں پر اپنی نام نہاد علمیت کی دھاک بٹھائی جاتی ہے، وہ الماریوں میں پڑی پڑی راہ تکتے تکتے کہ کوئی آئے اور پھر سے ہماری ورق گردانی کرے، دیمک کا شکار ہو جاتی ہیں. بہن کی وہ قبر جس پر روز آتے جاتے فاتحہ پڑھی جاتی تھی، آہستہ آہستہ جھاڑ جھنکار کے جنگل میں گم ہونا شروع جاتی ہے، اسی جھاڑ جھنکار میں واپس آنے کی امیدیں، ارادے اور منصوبے بھی آہستہ آہستہ گم ہو جاتے ہیں.
اور پھر جب ہم اگلی بار کسی کا جنازہ پڑھنے کے لیے گاؤں جاتے ہیں اور جنازے کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے کے سامنے سے گزرتے ہیں تو دل میں کہتے ہیں یار اس بار تو بہت ایمرجنسی میں آیا تھا، تو وقت نہیں ہے، اگلی بار آیا تو ضرور وقت نکال کر گھر کھولوں گا اور ساری صفائی کروا دوں گا. اسی میں آخری لمحہ آ پہنچتا ہے اور بس مٹی ہی نصیب ہوتی ہے. آج کل تو بعض کو وہ بھی نصیب نہیں ہوتی. رہے نام اللہ کا.

Comments

Click here to post a comment

  • بہت اعلی سر جی ..گاوں کی زندگی کا لطف اور اس میں اپنا پن شہر میں رہ کر کبھی بھی نہیں ملتا.اس تحریر میں آپ کی اپنے گاوں سے دس سالہ جدائی نے مجھے بھی اپنے گاوں سے جدائی کے پچھتاوے سے گزارا ھے مگر میں نے اس تحریر کو دو دفعہ پڑھا تاکہ میری اپنے گاوں سے تڑپ بڑھے...کیا ہی عمدہ لکھا سر