ہوم << سیاحت کشمیر، وادی نیلم کا سفر - سید ساجد شاہ

سیاحت کشمیر، وادی نیلم کا سفر - سید ساجد شاہ

منزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہےتھے. غوری سے پٹیکا اور پٹیکا سے بلگراں پہنچے اور پھر دل پر ایک چوٹ لگی، جب اپنی شہ رگ پر بھارتی تلسلط دیکھا. جی ہاں یہ نیلم کے راستے میں ٹیٹوال کا گاؤں تھا. ٹیٹوال کے دو حصے ہیں ایک آزاد کشمیر میں جبکہ دوسرا حصہ مقبوضہ کشمیر میں یعنی آزاد ٹیٹوال اور مقبوضہ ٹیٹوال. دریائے نیلم دونوں حصوں کے درمیان حائل ہے.
بھارتی مقبوضہ ٹیٹوال نسبتاً زیادہ ڈویلپڈ ہے. سکول کی ایک عمارت کے علاوہ باسکٹ بال کا ایک کورٹ بھی ہے. تاہم وہاں لہراتا ہوا ترنگا مقبوضہ ٹیٹوال کو سونے کا ایک پنجرا ہی دکھاتا ہے، جہاں کشمیریوں کی روحیں قید ہیں اور نہ جانے کب سے آزادی کی نعمت کےحصول کے لیے تڑپ رہی ہیں. ٹیٹوال میں سڑک لائن آف کنٹرول کےساتھ چلتی ہے. دفاعی نقطہ نظر سے اتنی اہم شاہراہ کی خستہ حالی اور بھارتی گنوں کے عین سامنے سے اس کا گزرنا ہماری دفاعی منصوبہ بندی پر ایک سوالیہ نشان ہے.
موبائل فون سروس مظفر آباد سے کچھ آگے تک ہی دستیاب ہے. پاکستان آرمی کا ذیلی ادارہ سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (SCO) وادی کے مختلف شہروں اور قصبوں میں فون اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرتا ہے.
سقوط سرینگر کے بعد اللہ نے ہمیں کشمیر حاصل کرنے کے دو اہم ترین مواقع فراہم کیے، مگر ایوب خان کی کوتاہ اندیشی اور کم ہمتی آڑے آگئی. پہلا نادر موقع چین بھارت جنگ کا تھا. 20 اکتوبر 1962ء کو چین بھارت جنگ شروع ہوئی تو بھارتی افوج لداخ اور نیفا (ارونا چل پردیش) میں پسپا ہوتی چلی گئیں. اس جنگ کے دوران پاکستانی فوجیں کشمیر میں پیش قدمی کرکے حالات کا رخ پلٹ سکتی تھیں. پاک فوج کے کئی جرنیل بھی اس حملے کے حق میں تھے مگر بقول قدرت اللہ شہاب ’’ایوب خان نے اپنی زندگی اور دور صدارت کا اہم ترین موقع ہاتھ سے گنوا دیا. اگر ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر نیند کا غبار نہ چھایا ہوتا اور ان کے کردار میں شیوہ دیوانگی اور شیوہ مردانگی کا کچھ امتزاج بھی موجزن ہوتا تو غالباً اسی روز ہماری تاریخ کا دھارا ایک نیا رخ اختیار کرسکتاتھا.‘‘ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے ایوب خان پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ پنڈت نہرو کو فوراً ایک ذاتی پیغام بھیج کر انہیں یہ یقین دلائیں کہ چین کے ساتھ جنگ کے دوران ہندوستان کی سرحدوں پر پاکستان کی جانب سے ہرگز کوئی گڑبڑ رونما نہ ہوگی.
دوسرا موقع مئی 1965ء میں ملا جب بھارت نے کارگل اور درہ حاجی پیر کی چوکیوں پر قبضہ کر کے اوڑی کی طرف پیش قدمی شروع کر دی، اس کے جواب میں پاک فوج نے بھمبر سیکٹر میں سیزفائرلائن عبور کر کے چھمب جوڑیاں کا علاقہ بھارت سے آزاد کرالیا. پاکستانی فوج کے ایک قابل افسر میجرجنرل اختر حسین ملک نے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے ایک پلان بنایا. جس کا کوڈ نام ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ تھا. میجر جنرل اختر حسین ملک انتہائی کامیابی سے چھمب سیکٹر اور اکھنور سیکٹر پر تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک ان سے کمان لے کر جنرل یحییٰ خان (جرنل کپی) کو دے دی گئی. غالباً اس لیے کہ وہ پاکستانی فوج کو اکھنور کی فتح سے باز رکھ سکیں اور یہ فریضہ انہوں نے بخوبی سرانجام دیا.
قائد اعظم ذاتی طور پر ایوب خان کو ناپسند کرتے تھے. 1947ء میں جب مہاجرین کی آبادکاری کے سلسلے میں ایوب خان کو سردار عبد الرب نشتر کی معاونت کے لیے مقرر کیا گیا تو سردار صاحب نے قائد اعظم کو رپورٹ پیش کی کہ ایوب خان نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں. جس پر قائداعظم نے اس رپورٹ پر تحریر کیا کہ میں اس فوجی افسر کو جانتا ہوں، یہ پیشہ ورانہ معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے. یہ آئندہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرےگا. ایوب خان کے بارے میں قائداعظم کی ناپسندیدگی کی ایک اور وجہ بھی تھی. تقسیم ہند کے وقت مشرقی پنجاب سے پاکستان آنے والے مہاجرین سے بھری ٹرین میں موجود مسلمانوں کو اس و قت کے کرنل ایوب خان کی موجودگی میں ذبح کر دیا گیا تھا.
خیالات کے اس بہاؤ کے ساتھ فاصلے بھی تیزی کے ساتھ سمٹ رہے تھے. راستے میں ایک جگہ پاک آرمی کی ایک چیک پوسٹ پر کچھ دیرآرام کرنے کی غرض سے رک گئے. پاس ہی ایک مقامی بچہ ادھ پکی ناشپاتیاں بیچ رہا تھا. میں نے اس بچے سے کہا کہ مجھے تو جاپانی ناشپاتی چاہیے، جس پر اس نے فوراً کہا کہ یہی جاپانی ناشپاتی ہے. ابھی دوبارہ سفر شروع کیے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ٹریفک پولیس کی جانب سے رکنے کا اشارہ دیا گیا. پرمٹ اور کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد ہیلمٹ نہ پہننے کی وجہ سے ہمیں تنبیہ کی گئی.
دن 10 بجے کے قریب ضلع نیلم کے ضلعی ہیڈ کوارٹر آٹھمقام پہنچ گئے. سطح سمندر سے 4720 فٹ بلندی پر دریائے نیلم کے کنارے یہ خوبصورت قصبہ نسبتاً کشادہ مقام پر آباد کیا گیا ہے. باہر سے آنے والے سیاحوں کے سستانے اور رات کو ٹھہرنے کے لیے یہ ایک موزوں مقام ہے. یہاں بنک، ہسپتال.، ڈاکخانے اور ہوٹلوں کی تقریباً تمام بنیادی سہولیات موجود ہیں. آزاد کشمیر یونیورسٹی کا نیلم کیمپس بھی موجود ہے. یہاں سے کچھ فاصلے پر" کٹن"نامی ایک خوبصورت گاؤں ہے.
(جاری ہے)
سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

Comments

Click here to post a comment