چونکہ ذیشان نے اپنی پرانی گاڑی بیچ دی تھی اس لیے اب وہ ایک نئی گاڑی کی تلاش میں تھا۔ دوپہر سے گاڑیوں کے شورومز گھوم گھوم کے اس کا دماغ چکرا چکا تھا۔ وہ مایوس ہوکر واپس جا ہی رہا تھا کہ اس کی نظر روڈ کےکنارے کھڑی ایک لش پش گاڑی پر پڑی جس کی کھڑکی پر ’’گاڑی برائے فروخت‘‘ کا اشتہار لگا تھا۔ اتفاق سے مالک بھی گاڑی کے پاس ہی مل گیا۔ گاڑی نہیں تھی کوئی شہزادی تھی شہزادی۔ ذیشان کا پسندیدہ میرون کلر، چمکتی باڈی، نئے ٹائر، آٹومیٹک دروازے اور گیئر۔ ذیشان کو گویا اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی تھی۔
ذیشان نے مالک سے گاڑی کی قیمت پوچھی، اس نے کہا جناب پہلے اس گاڑی کی خوبیان سن لیں، قیمت کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، بات بن جائے گی۔ یہ گاڑی میری بیگم کے استعمال میں تھی اور بہت ہی کم چلی ہوئی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جب ہم نے زیرو میٹر خریدی تھی، اس وقت سے اب تک، تین سالوں میں فقط چھیالیس ہزار کلومیٹر چلی ہے۔ کوئی خراش نہیں، کلر اوریجنل ہے، انجن جینوئن ہے، ٹائر الوئی ہیں، ڈورز اور گیئر آٹومیٹک ہے۔ ڈیش بورڈ، ڈیشنگ، سیٹیں آرامدہ، اے سی شاندار، ہارن سریلا اور ڈگی کشادہ ہے۔
بس ایک چیز۔
ذیشان نے مالک کی بات کاٹتے ہوئے کہا، بھئی باقی باتیں چھوڑو، جلدی سے قیمت تو بتاؤ، مجھے گاڑی پسند ہے؟
سر، وہ ایک بات۔
یار تم ایک بات چھوڑو، جتنی تعریف تم نے کردی ہے، اس سے زیادہ مجھے نظر آرہا ہے، بس تم جلدی سے قیمت بتاؤ کہ کتنے کی ہے؟
سر قیمت صرف پچاس ہزار روپے ہے۔
پچاس ہزار؟ بھائی تم ہوش میں تو ہو؟ پچاس ہزار میں آج کل موٹرسائیکل نہیں ملتی اور تم اس گاڑی کے پچاس ہزار مانگ رہے ہو؟
سر اس میں ایک مسئلہ ہے۔
کیا مسئلہ ہے؟ ذیشان نے حیران ہوکر پوچھا۔
سر اس میں بریک نہیں ہے اور شہر کے تمام مکینکس نے چیک کرنے کے بعد بول دیا ہے کہ اس میں کبھی بھی بریک لگ ہی نہیں سکتا، ہینڈ بریک سے کام چلانا ہوگا۔
بھائی آپ کا دماغ تو درست ہے؟ بغیر بریک کی گاڑی پچاس ہزار کیا میں تو مفت میں بھی نہ لوں۔ کیوں میرا وقت برباد کیا، پہلے کیوں نہ بتایا؟ ایسی گاڑی کیا میں دیوار سے ٹکرا کر روکوں گا؟ ذیشان غصہ سے بولا۔
سر آپ میری بات سن ہی نہیں رہے تھے تو میں کیا کرتا؟
ہونہہ، بریک ہے نہیں اور چلا ہے گاڑی بیچنے! ذیشان دل ہی دل میں بڑبڑایا۔
ذیشان کی کہانی ہم نے پڑھ لی، چلیں آج ہم اپنی اپنی کہانی خود کو سناتے ہیں۔ اس زندگی کی کہانی جو بڑی شاندار، چمکیلی اور لش پش ہے۔ مزہ ہی مزہ ہے۔ سرور ہی سرور ہے۔ ہم سب ایک ایسی گاڑی کو ڈرائیو کر رہے ہیں جس میں کمپنی نے ضروریات زندگی کی ہر چیز رکھ دی ہے۔ اس گاڑی کو ہم چوبیس گھنٹے بگ ٹٹ دوڑاتے رہتے ہیں، نہ صرف دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں بلکہ خود بھی مجروح ہوتے ہیں۔
اس گاڑی میں کمپنی نے جو جو چیزیں لگا کر دی تھیں ہم نے ویسے ہی رہنے دیں لیکن اس میں سےصرف بریک نکال کر کہیں سائیڈ پر رکھ دیا ہے۔ اب کیفیت یہ ہے کہ:
دن میں کئی بار ہماری آنکھوں کے ایکسڈنٹ ہوتے ہیں،
بریک جو نہیں تو ہم نہیں رکتے، ٹھوک دیتے ہیں،
ہماری زبان بہت تیز دوڑتی ہے اور بیشتر بےقابو ہوکر کسی کی کھیتی میں گھس جاتی ہے، بریک جو نہیں تو گاڑی کیسے کنٹرول میں آئے گی؟
ہمارے ہاتھ کمزوروں پر اٹھتے ہیں، بریک جو نہیں تو ہاتھ کیسے قابو میں آئیں گے؟
ہمارے پاؤں بے قابو ہوکر برائی کی طرف چل پڑتے ہیں،
بریک جو نہیں تو پاؤں کیسے رکیں گے؟
ہماری سوچ، ہمارے خیالات، ہماری خواہشات، آوارگی کی حد تک بے قابو ہیں
ہاں بھائی بتا تو رہا ہوں کہ: بریک جو نہیں، ایسا تو ہوگا۔
اچھا؟ بھائی تو یہ بریک کیا ہے، جو ہماری زندگیوں سے نکل گیا ہے اور ہم شتر بےمہار بن گئے ہیں؟ ذرا بتلاؤ تو، سمجھاؤ تو؟
سنو! اگر سننا چاہتے ہو۔ سمجھو اگر سمجھنا چاہتے ہو۔
وہ بریک ہے’’تقویٰ۔‘‘ اللہ کا خوف۔ مالک کے سامنے حاضری اور جوابدہی کا احساس۔
ایک مسلمان کی زندگی سے تقویٰ نکل گیا گویا کہ گاڑی سے بریک نکل گیا۔
تبصرہ لکھیے