قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہمارے ملک میں مخلص اور دیانتدار سیاسی لیڈر شپ ناپید ہو گئی تھی، اس خلا کو پورا کرنے کے لیے طالع آزما لیڈر شپ نے جنم لیا مگر اس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جمہوریت پر ایسے وار کیے کہ یہ بےچاری لولی لنگڑی ہو کر رہ گئی۔ مفاد پرست لیڈروں کے مسلسل اقتدار میں رہنے سے ملک کو ایک تو صاف ستھری لیڈر شپ نصیب نہ ہوسکی اور دوسرا یہ کہ آمریت کو مسلسل فروغ ملا جس سے جمہوری ادارے نیم جان ہو کر رہ گئے اور ذرائع ابلاغ کو ذاتی تشہیر کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی باگ ڈور ہمیشہ سے جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے ہاتھوں میں جکڑی رہی ہے، جنھوں نے مجبور و بے کس جمہوریت کو دولت کے بل بوتے پر خریدے رکھا اور ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے بجائے ذاتی جاگیر سمجھ کر لوٹ کھسوٹ کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے ملکی دولت سے اپنی تجوریاں خوب بھریں۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عوام جمہوریت کو پسند تو کرتی ہے لیکن دل سے قبول نہیں کرتی۔ اس کی اصل وجہ ملک میں مخلص اور دیانتدارانہ قیادت کا فقدان اور مفاد پرست لیڈروں کی بھر مار ہے۔ ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے جن بنیادی عوامل کی شدید ضرورت ہے اس سے انحراف ان خود غرض سیاستدانوں کی عادت بن گئی ہے۔ فلور کراسنگ کی پابندی کے باوجود ارکان اسمبلی کے روز بروز فارورڈ بلاک کی مسلسل تشکیل نے اس بات کو سچ کر دکھایا ہے کہ جمہوریت کی اصل قاتل یہ سیاسی لیڈر شپ ہی ہے جو اپنے مفادات کو عوامی مفادات پر ہرگز قربان نہیں کرنا چاہتی اور جمہوریت کے استحکام کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنے کی متمنی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جمہوریت میں بھی غریبوں کو سستے بھائو انصاف ملتا ہے نہ ان کے چھوٹے موٹے مسائل حل ہوتے ہیں، وہ بےچارے دکھوں کے مارے سسک سسک کر اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔ چوکیاں، تھانے، عدالتیں اور ثالثی کونسلیں، یہ سب کے سب ادارے غریبوں اور دکھ کے مارے لوگوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ یہاں بھی سیاسی اور صحافتی بلائوں اور آفتوں اور کالے جنوں کا قبضہ ہے۔ تھانے اور چوکیوں میں بھی کسی شریف آدمی کو بیٹھے نہیں دیکھا بلکہ دو نمبری صحافیوں، کن ٹٹے سیاسی ورکروں اور پولیس ٹائوٹوں اور مخبروں کو اکثر براجمان دیکھا ہے۔ امید تھی کہ مارشل لا کے ظلم سے تنگ آئے سیاستدان اور افسران اپنا قبلہ درست کرکے جمہوریت کو چار چاند لگائیں گے، غریبوں، مفلسوں اور مسکینوں کے مسائل و مشکلات کا مداوا کرنے کے جتن کریں گے مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا. غریبوں، مسکینوں اور بے سہارا لوگوں کے مسائل بڑھ گئے ہیں، یہ لوگ سیاسی ڈیروں پر سارا دن زمین پر بیٹھ کر اپنی انگلیوں سے دائرے بناتے تھک ہار کر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی ایسا ہنر نہیں ہوتا جس سے وہ کسی ایم پی اے یا ایم این اے کو رام کر سکیں. ایسے ڈیروں پر کن ٹٹے ورکروں اور دو نمبریوں کو چوہدراہٹ نصیب ہوتی ہے اور پھر یہ لوگ ڈیروں پر آئے ہوئے مجبور بے کس لوگوں سے سودے بازی کرتے ہیں اور اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں. جو دے جائے اس کو دیدار کرا دیا جاتا ہے ورنہ تسلی کے جام پلا کر گھروں کو واپس بھیج دیا جاتا ہے.
ملک کی اقتصادی، معاشی حالت روز بروز دگرگوں ہوتی جا رہی ہے، سرمایہ کاری کا عمل سست پڑ رہا ہے، صنعتی ترقی کا عمل رک گیاہے، امن و امان درہم برہم ہو رہا ہے، غیر ملکی سرمایہ کار ایسی صورتحال میں سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں، تعلیمی سرگرمیاں مانند پڑ رہی ہیں، سنگین جرائم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، بااثر افراد قانون کو ہاتھ میں لے کر نقص امن کے مرتکب ہو رہے ہیں، سیاسی مصلحتوں نے غریب عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے، جنگل کا قانون فروغ پا رہا ہے، شریف آدمی کی عزت نفس سر بازار مجروح کی جا رہی ہے، انصاف خاموش ہو رہا ہے اور ظلم کی سیاہ راتیں طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ سیاستدانوں کے لیے یہ ایک عظیم لمحہ فکریہ ہے۔
ہمارے سیاسی نظام کی بدقسمتی اور بدنصیبی یہ رہی ہے کہ فوج اقتدار پر مسلط ہو کر جانے کا نام نہیں لیتی۔ جو سیاستدان فوج کو اقتدار میں آنے پر مجبور کرتے ہیں پھر وہی فوج پر انگلیاں بھی اُٹھانا شروع کر دیتے ہیں، بار بار فوج کو اقتدار میں آنے سے جہاں اس کے وقار کو زک پہنچی وہاں جمہوری نظام بھی متزلزل ہوا. اب امید رکھنی چاہیے کہ سیاستدان ایسی غلطیاں نہیں دہرائیں گے جس سے فوج اقتدار پر قابض ہو کر جمہوریت کی بساط لپیٹ دے ۔ سیاستدانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سیاسی یکجہتی، برداشت، رواداری اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اختلافات و تنازعات مٹائیں، اور ایک جگہ بیٹھ کر ملک کے گھمبیر مسائل کا مثبت حل تلاش کریں۔
تبصرہ لکھیے