ہوم << کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد واضح‌ تبدیلیاں

کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد واضح‌ تبدیلیاں

564549_3009762303274_1489617525_nکے الیکڑک کی نجکاری کے بعد اگر کہیں کوئی واضع تبدیلی دیکھنی ہو تو ایک اس کے اعلی افسران کا روز بروز بڑھتا ہوا شاہانہ انداز ہے اور دوسرا نام کی تبدیلی. دوسری طرف پچھلے ماہ رمضان میں شدید گرمی ہو یا رواں ماہ مبارک 33 ملی لیٹر بارش، کے الیکڑک عام صارفین کے لیے بدستور اسی طرح درد سر ہے جیسے دس سال قبل بطور سرکاری ادارہ تھی. آج بارش کو اب پانچواں دن ہے لیکن کئی علاقے بدستور متاثر ہیں، کہیں بجلی غائب ہے تو کہیں والٹیج 180 پر دھرا ہے اور کہیں سڑک کے بیچ و بیچ ننگے تار اہلیان کراچی کی بے بسی کا مذاق اڑارہے ہیں. فیڈر ٹرپ ہونے کا معاملہ بھی کم باعث تشویش نہیں ہے، سال میں کئی بار پورا پورا شہر ان نازک اندام فیڈرز کی بدولت اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے.
ٹی وی اور اخبارات کے اشتہارات سے لیکر مختلف سیمینارز تک، ایک طرف تو کنڈا سسٹم کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف ہیلپ لائنز پر لاتعداد شکایتوں کے باوجود عملے کی ملی بھگت سے بجلی چوری کا کاروبار جاری و ساری ہے. یعنی ایماندار صارفین تو زیادہ بل کے خوف سے اپنے اضافی پنکھے بھی نہ کھولیں اور چور مزے سے ائیر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہوائوں میں خواب خرگوش کے مزے لیں. اس سے بھی بڑھ کر کے الیکٹرک خود چائنہ کٹنگ، کچی آبادیوں، تجاوزات اور بغیر لیز کے مکانات کو "کنڈا کنیکشن" فراہم کررہی ہے. اس طرح یہ صارف ایک مقرر رقم ادا کرکے جتنی مرضی چاہیں بجلی استعمال کرسکتے ہیں.
ایک دوسری ناانصافی لوڈ شیڈنگ کے غیرمساویانہ اوقات کار ہیں. ادارہ کہتا ہے کہ جس علاقے میں انکی وصولی زیادہ ہے وہاں لوڈشیڈن کم ہوگی، جہاں وصولی کم ہے وہاں لوڈ شیڈنگ زیادہ ہوگی اور جہاں وصولی برابر ہے اس علاقے کو لوڈ شیڈنگ سے استشناء حاصل ہوگا. اس طرح آپ ان صارفین کو خوامخوا نشانہ بنارہے جو خود تو ایمانداری سے بجلی استعمال کررہے ہیں لیکن انکے محلے یا علاقے کے کچھ لوگ چوری میں ملوث ہیں. اگر کسی علاقے میں بجلی چوری ہورہی ہے یا وصولی کم ہے تو اسکے ذمہ دار اس علاقے کے تمام صارف کیسے ہوگئے؟ ذمہ داری تو بہرحال کے الیکڑیک پر بحثیت ادارہ، اس کے ناہل اور بدعنوان عملے پر بحثیت معاون اور ملوث صارفین پر بحثیت چور عائد ہوتی ہے. اسی طرح ایک ایماندار صارف کا کیا قصور ہے کہ اس کے علاقے یا محلے کے ساتھ کچھ چائنہ کٹنگ اور کچی آبادیاں ملحق ہیں، جنھیں خود کے الیکڑک نے کنڈا کنیکشن فراہم کر رکھا ہے یا یہ کہ اس کے علاقے میں کچھ میٹر خراب اور پرانے ہیں.
لوڈ شیڈنگ کے معاملے میں پیپلزپارٹی دور یوں کسی حد تک بہتر تھا کہ حکومت نے اتوار اور چھٹی کے دن کو لوڈ شیڈنگ سے مبرا قرار دے رکھا تھا لیکن اب لوڈ شیڈنگ کے اس نئے ڈھنگ کے بعد چھٹی کے دن بھی عام دنوں کی طرح ہی بجلی بند کی جاتی ہے. اس سے بھی بڑھ کر پچھلے چند ماہ سے رات بارہ بجے کے بعد بھی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی حالانکہ چند سال قبل گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے حکم پر رات بارہ بجے سے صبح آٹھ بجے تک لوڈ شیڈنگ پر مکمل پابندی تھی.
کے الیکڑک کا اہم مسئلہ اس کے میٹرز بھی ہیں. ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طرح تمام شہر میں بجلی کے نرخ یکساں ہیں اسی طرح میٹرز بھی یکساں ہوں. لیکن آپ کو جابجا مختلف قسم کے میٹرز نظر آئیں گے. کہیں چالیس سال پرانے میٹر ہیں تو کہیں انالوگ، کہیں جدید ڈیجیٹل میٹر ہیں تو کہیں دوسرے. یہ مختلف قسم کے میٹرز ایک ہی قسم کی ریڈنگ نہیں دیتے بلکہ بعض اوقات کو ایک ہی قسم کے میٹر بھی مختلف ریڈنگ دیتے نظر آتے ہیں. سونے پر سہاگہ کے الیکڑک کا انتظامی طریقہ کار ہے. ہر زون کے ایم دیز کو زیادہ سے زیادہ وصولی پر اضافی بونس اور مراعات دی جارہی ہی، جن کے حصول کے لیے یہ ایم ڈیز انسان سے درندے بن چکے ہیں. جو صارف ان کے ہاتھ چڑھتا ہے، یہ اس کو بلی کا بکرا بنا کر پورے محلے کی چوری اس کے خاطے میں ڈال دیتے ہیں. مثال کے طور پر کسی صارف کے یہاں پرانا میٹر لگا ہوا ہے یا اس کا میٹر خراب ہوجاتا ہے، اب کے الیکڑک اس صارف کو ہر دوسرے تیسرے مہینے "اے ایس ایس ڈی" کے عنوان سے من مانا بل جاری کردیتا ہے. بے چارہ صارف جب شکایت لے کر پہنچتا ہے تو اسے اضافی بل کی تفصیل اور بریک اپ دینے کے بجائے، قسطیں تھما دی جاتی ہیں.
کے الیکڑک میں بدعنوانی بھی اپنے جوبن پر ہے، بااثر افراد کو رشوت دیکر یا سفارش حاصل کرکے تو آپ بل کم کرواسکتے ہیں لیکن فیکٹ اینڈ فیگرز کی بنیاد پر ادارے کو چیلنج کرکے اضافی بل سے خلاصی حاصل نہیں کرسکتے. لائن مین سے لیکر میٹر ٹیکنیشن اور ایم ڈی ذون سے لیکر سینٹر بلنگ آفس تک، ہر جگہ نوٹ اور سفارش عام ہے. دوسری طرف نہ حکومت نے کوئی ایسا سہل نظام ترتیب دیا ہے جہاں صارفین کے الیکڑک کے خلاف ناجائز بلنگ کے کیسز لے جاسکیں اور نہ کے الیکڑک ایسے کسی مسئلے پر خود کو جوابدہ سمجھتی ہے. خاص طور پر "اے ایس ایس ڈی" بلز کے معاملے میں آپ ان سے سوال و جواب نہیں کرسکتے. جو بل بن گیا، خاموشی سے ادا کریں. چند سال قبل جب میں خود زائد بلنگ کا شکار ہوا تو کے الیکڑک کے رویے سے تنگ اکر میں نے قانونی کاروائی کی کوشس کی. صوبائی اور وفاقی محتسب نے یہ کہ کر واپس بھیج دیا کہ وہ کسی نجی ادارے کی شکایت نہیں سن سکتے، پھر کئی روز سندھ سیکیٹریٹ کا چکر لگانے کے بعد کا کہا گیا کہ وفاقی ادارے کی شکایت کے لئے پاکستان سیکیڑیٹ کا رخ کریں. بڑی مشکل سے پاکستان سیکڑیٹ تلاش کرکے انسپیکٹر جنرل الیکٹرک کے دفتر پہنچا تو انہوں نے جس قدر طویل اور مشکل راستہ تجویز کیا، اسکا خلاصہ یہ ہے کہ صاحب متاثرہ صارف نوکری چھوڑ کر اسی کام پر لگ جائے.
معمول کی شکایتوں کے نظام کا بھی حال یہ ہے کہ کہنے کو تو جناب کال سینٹر اور سوشل میڈیا پر بڑے نرم گفتار پروفیشنل نوجوان بٹھائے ہوئے ہیں لیکن برسرزمین کوئی والی وارث نظر نہیں آتا. اگر کسی صارف کا مین لائن سے جمپر ڈھیلا ہے، والٹیج کا مسئلہ ہے، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہے یا کہیں کوئی تار توٹ گیا ہے، تو وہ کمپلین لائنز پر شکایتیں کرتا رہ جائے گا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا. یہاں تک وہ کسی نجی الیکٹریشن سے پیسے دے کر اپنا مسئلہ حل کروائے. جس طرح ہم پی ٹی سی ایل میں کمپلین لائنز کی خود کار فالونگ کا نظام دیکھتے ہیں، کے الیکٹریک اس سے کوسوں دور ہے.
کے الیکڑک کا مسئلہ اس کا سرکاری یا نجی شعبے مین ہونا نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل مسئلہ اس کے اعلی افسران اور دیگر عملے کی نااہلی اور بددیانتی کا ہے. صوبائی اور وفاقی حکومت کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ نجکاری کے معاہدے کی روح کے عین مطابق، ادارے کے معاملات پر نظر رکھیں اور ملازمین کے حقوق کے ساتھ کچھ توجہ صارفین کے حقوق پر بھی دیں. ادارے کے خلاف کم از کم اپنے نظام کو اپڈیٹ نہ کرنے، صارفین کے درمیان عدم مساوات، ناجائز بلنگ اور ظالمان لوڈشیڈنگ کے باب میں کوئی کاروائی عمل میں لائی جائے. اس کے علاوہ زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے والے اداروں کے خلاف عوامی شکایت کے ازالے کے لیے ایک موثر، آسان اور متحرک ادارے کا قیام بھی وقت کی اشد ضرورت ہے.

Comments

Click here to post a comment