نوٹ: بنیادی طور پہ مضامین کا یہ سلسلہ مرد حضرات کے لیے ہے، خصوصا ان کے لیے جو اپنے کنبے کے سربراہ ہیں لیکن خواتین بھی اس سے استفادہ کر سکتی ہیں.
روایتی طور پہ اس وقت سے جب انسان غاروں اور جنگلوں میں رہا کرتا تھا، مرد کی بنیادی ذمہ داری اپنے خاندان کا تحفظ رہی ہے اور ہمارے ہاں رائج ’’مردانگی‘‘ کے تصور کا یہ ایک اہم حصہ ہے. آج کے مہذب معاشرے میں جب ہم نے اپنی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کو سونپ دی ہے، بطور ایک محافظ کے اپنے کردار کو ہم بڑی حد تک فراموش کر چکے ہیں. ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا کیونکہ ایک تو ہماری ریاست اپنی ذمہ داریاں کس حد تک نبھا رہی ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں اور دوسرا یہ کہ بہرحال ریاست کتنی ہی فرض شناس کیوں نہ ہو، اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا تحفظ آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے اور ہمیشہ رہے گی.
مضامین کے اس سلسلے میں کوشش یہ ہوگی کہ پڑھنے والے کم از کم چند بنیادی نکات سے آگاہ ہو جائیں اور تھوڑی سی کوشش سے اس آگاہی کا مثبت استعمال کر سکیں. تو چلیے، آج ابتدا آپ کے گھر سے کرتے ہیں.
’’خطرات سے آگاہی‘‘
سکیورٹی امور سے وابستہ احباب جانتے ہوں گے کہ بنیادی اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ درپیش خطرات کا ادراک رکھتے ہوں، ان خطرات کی پیش بندی یا مقابلے کا مرحلہ بعد میں آتا ہے. آپ کے گھر کو خدانخواستہ جو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، انہیں آسانی کےلیے تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.
1- قدرتی آفات
2- گھریلو حادثات
3- بیرونی خطرات (چوری چکاری، ڈکیتی، بچوں کا اغوا وغیرہ)
’’قدرتی آفات‘‘
اس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپ سب سے پہلے تو اپنے گھر کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ......
★ جس عمارت کو آپ گھر کہتے ہیں، قدرتی آفات سے وہ کس حد تک محفوظ ہے، اگر آپ کا گھر کسی قدرتی نالے، ندی یا دریا کے کنارے ہے تو شدید بارش اسے کس حد تک متاثر کر سکتی ہے؟ پہاڑی علاقے میں اگر آپ کا گھر واقع ہے تو وہاں لینڈ سلائیڈنگ کا امکان کتنا ہے؟ کیا آسمانی بجلی سے آپ کا گھر محفوظ بنایا گیا ہے؟ کیا زمینی بجلی کو ارتھ کیا گیا ہے؟ اگر آپ کسی نشیبی علاقے میں رہتے ہیں تو کہیں بارش کی صورت میں پانی آپ کے گھر تو نہیں داخل ہوتا؟ آپ کی گلی یا محلے کا سیوریج سسٹم کیسا ہے؟ گھر سے پانی کی نکاسی کا کیا انتظام ہے؟ عمارت کتنی پرانی ہے اور کس حد تک محفوظ ہے؟ گھر کے قرب و جوار میں کوئی ایسا تعمیراتی کام تو نہیں جاری جس کے نتیجے میں آپ کے گھر کی بنیادیں کمزور ہونے کا خدشہ ہو؟ زیرِزمین پانی کس سطح پر ہے؟ کیا آپ کے گھر کی عمارت اتنی مضبوط ہے کہ ایک سخت زلزلے کو برداشت کر سکے؟
★ گھر کے بیرونی سٹرکچر کا ایک تنقیدی جائزہ لیجیے اور جہاں جو کمی دکھائی دے اسے دور کرنے کی کوشش کیجیے. اگر آپ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اور وہ آپ کو محفوظ نہیں لگتا تو مکان بدل لیجیے.
’’گھریلو حادثات‘‘
اب اپنے گھر کے اندرونی حصے کا ایک تنقیدی جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ
★ آپ کے گھر کی بجلی کی وائرنگ کتنی پرانی ہے اور کس حد تک معیاری کہی جا سکتی ہے؟ اگر آپ اکثر وولٹیج کی کمی بیشی کا شکار رہتے ہیں جبکہ آپ کے ہمسائے اس سے محفوظ ہیں تو پہلی فرصت میں وائرنگ چیک کروائیے.
★ کیا آپ کے ہر کمرے اور باورچی خانے کو علیحدہ سرکٹ بریکر ملا ہوا ہے؟ یا پورا گھر ایک ہی بریکر اور ایک ہی مین سوئچ پہ چل رہا ہے؟ یاد رکھیے کہ اس مد میں معمولی سا خرچ آپ کو کسی مہلک حادثے سے بچا سکتا ہے اور ذرا سی لاپرواہی بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے.
★ گھر کے کمروں میں لگے سوئچ بورڈز کو چیک کیجیے، اگر کوئی سوئچ ساکٹ خراب حالت میں ہے تو اسے خود تبدیل کر لیجیے، یا پھر پورے گھر کا جائزہ لے کر کسی اچھے الیکٹریشن کو بلوا لیجیے، یہ ایک بار کا خرچہ آپ کو بہت سی سر دردی سے بچا سکتا ہے.
★ بجلی کے آلات کا جائزہ لیجیے، زیادہ بجلی استعمال کرنے والے آلات مثلا موٹر، ائر کنڈیشنر، ریفریجریٹر وغیرہ اگر علیحدہ سے ارتھ ہوں تو بہتر ہے. ان آلات کو پوری وولٹیج ملتی رہے، یہ یقینی بنانے کے لیے مارکیٹ میں بہت سے سستے آلات دستیاب ہیں، ان سے استفادہ کیجیے.
★ گھر میں استری کثرت استعمال کی وجہ سے بہت جلد خراب ہو جاتی ہے، اس کی تار اور ایلیمنٹ چیک کیجیے، استری سے لگنے والا شاک مہلک ثابت ہوسکتا ہے.
★ اگر جنریٹر استعمال ہوتا ہے تو یقینی بنائیے کہ اس کی خارج کردہ گیس گھر گھر داخل نہ ہونے پائے. اسے بارش، پانی اور دھوپ سے محفوظ رکھیں اور سال میں ایک بار سروس کروا لیں.
★ گیس کی پائپ لائن میٹر سے گھر کے آخری گوشے تک چیک کیجیے، کہیں کوئی لیکج ہے تو فوری مرمت کروائیے. اپنے گیس کے آلات چولہے، کوکنگ رینج اور ہیٹرز وغیرہ کا معائنہ کیجیے، کوئی نقص ہو تو دور کروائیے.
★ گیس کی ترسیل کے لیے پلاسٹک کے پائپ کا استعمال بہت خطرناک ہے، جن کمروں میں سردیوں میں ہیٹر استعمال کیا جانا ہو وہاں تک گیس پائپس نصب کیے جائیں، اور یقینی بنائیں کہ ہر کنکشن کا سیفٹی والو علیحدہ ہے.
★ اپنے واٹر ٹینکس کو دیکھیے، اگر انڈر گراؤنڈ ٹینک ہے تو اس کا ڈھکن خراب تو نہیں، اس میں کائی تو نہیں جمتی، کیڑے مکوڑوں، چھپکلی یا چوہوں نے گھر تو نہیں بنا رکھا؟ پانی زندگی ہے اسے ممکنہ حد تک پاک رکھیے.
★ اوورہیڈ ٹینک کی بلندی کتنی ہے، کیا اس کا ڈھکن مضبوطی سے بند ہے، اگر پلاسٹک ٹینک ہے تو گرمی سے بچائیں، کسی بھی قسم کی لیکج یا سیپج کی فوری مرمت کروائیں، چھت سے رسنے والا پانی دیواروں کو خراب کرتا ہوا گھر کی بنیادوں تک پہنچ جاتا ہے.
★ پانی کی موٹر کا سوئچ اکثر قریب ہی رکھا جاتا ہے, اس کے پانی سے متاثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے- اس کا خاص خیال رکھیں-
★ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ بجلی اور گیس کے آلات کو آن/آف کرنے کی ذمہ داری بچوں کو نہ سونپی جائے. کسی ایک پوائنٹ پہ بہت زیادہ لوڈ مت ڈالا جائے. کمپیوٹر، پرنٹر، چارجرز وغیرہ کےلیے پراپر ساکٹس یا مضبوط ایکسٹنشن کیبلز استعمال کیجیے.
یہ چند بہت آسان سے اقدامات آپ کو کسی حادثے کی صورت میں فوری مدد دے سکتے ہیں اور کسی بڑے نقصان سے بچا سکتے ہیں- ان کے علاوہ
★ گھر میں ایک فرسٹ ایڈ باکس ہمیشہ رکھیے، یقینی بنائیے کہ اس میں دو تین سائز کی بینڈیجز، پایوڈین، سکاٹرن پاؤڈر، پولی فیکس، برنول، درد کش ادویات، بخار، پیٹ کی خرابی، الرجی وغیرہ کی عام استعمال ہونے والی ادویات، سپرٹ وغیرہ نہ صرف موجود رہیں بلکہ ایکسپائری سے پہلے پہلے تبدیل ہوتی رہیں. یہ باکس ایسی جگہ ہونا چاہیے جہاں سے ہر بڑے فرد کو اس تک رسائی حاصل ہو. اہلِ خانہ کو ان اشیاء کے استعمال کا طریقہ بھی سکھا دیجیے.
★ اگر ممکن ہو تو کچن میں یا اس کے قریب فائر ایکسٹنگشر بھی نصب کر دیجیے. گھر کے تمام بڑوں کا اس کے استعمال کا طریقہ آنا چاہیے.
★ فائر بریگیڈ، ریسکیو، پولیس ایمرجنسی، متعلقہ پولیس سٹیشن یا چوکی، قریب ترین ایک سرکاری اور ایک پرائیویٹ ہسپتال کا نمبر، ایک دو قریبی ہمسائیوں یا ایسے رشتہ داروں کے نمبرز جو فوری پہنچ سکتے ہوں، آپ کے پاس بھی سیو ہونے چاہییں اور انہیں گھر میں کسی نمایاں جگہ مثلا کچن یا لیونگ روم میں بھی لکھ کر رکھ دیا جائے.
★ اپنے بیوی بچوں یا بہن بھائیوں سے ہلکے پھلکے ماحول میں تفصیلی تبادلہ خیال کیجیے، کسی ایمرجنسی کی صورت میں کون کیا کرے گا؟ کس کس کو اطلاع دینی ہے؟ کس سے مدد طلب کرنی ہے؟ یہ سب طے شدہ ہونا چاہیے. اس امکان کو مدنظر رکھا جائے کہ اگر ایمرجنسی کی صورت میں آپ سے کسی وجہ سے رابطہ نہیں ہوتا تو دوسرا اور تیسرا آپشن کون لوگ ہوں گے.
’’بیرونی خطرات‘‘
بیرونی خطرات سے آگاہی، ان کا تدارک اور کسی خطرناک صورتحال کا مقابلہ کرنے کی تدابیر بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنا کہ گھریلو حادثات سے بچاؤ کی تدابیر.
اپنے گھر کا ایک بار پھر سے تنقیدی جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ
★ آپ کی گلی یا محلے میں داخل یا خارج ہونے کے راستے کیسے ہیں؟ کیا گلی عام طور پہ سنسان رہتی ہے یا بارونق علاقہ ہے؟ چوکیداری کا نظام رائج ہے یا نہیں؟
★ ایک چور یا ڈاکو کی نظر سے اپنے گھر کو دیکھیے. داخلی گیٹ کس قدر مضبوط ہے؟ بیرونی دیواریں کس قدر بلند ہیں؟ گھر کے بیرونی پیرامیٹرز کے ساتھ کوئی ایسا درخت یا کھمبا وغیرہ تو نہیں جس کے سہارے اندر داخل ہوا جا سکے؟ ہمسائیوں کے گھر سے ملحقہ دیواریں یا چھت کیسی ہے؟ کھڑکیاں یا روشندان کتنے ہیں؟ پڑوسیوں کے گھر سے آپ کے گھر داخل ہونا آسان ہے یا مشکل؟
★ اگر افورڈ کر سکتے ہیں تو کسی اچھی سیکیورٹی کمپنی کے گارڈ رکھ لیجیے. اگر نہیں کرسکتے تو گلی والوں کو قائل کیجیے کہ مشترکہ گارڈز رکھ لیے جائیں، اگر یہ بھی ممکن نہیں تو ایک کتا رکھ لیجیے، کتا کاٹنے والا بیشک نہ ہو اسے بھونکنے والا لازمی ہونا چاہیے. اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو لمبی گردن والی بطخیں رکھ لیجیے، اجنبیوں کو دیکھ کر یہ بھی اتنا ہی شور مچاتی ہیں جتنا کتا، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو بھی فکر مت کیجیے اور بہت طریقے ہیں.
★ گھروں میں سکیورٹی کیمرے محض بعد از مرگ واویلے کا کام دیتے ہیں، ان پہ اپنا وقت اور سرمایہ برباد مت کیجیے. زیادہ ضروری ہو تو محض داخلی راستے پہ ایک کیمرا نصب کر دیجیے.
★ اپنے گھر کی تمام کھڑکیوں اور روشن دانوں پہ مضبوط قسم کی جالیاں لگوائیے یا سلاخیں نصب کیجیے.
★ گھر کی چھت یا بیرونی دیوار پہ چڑھنا یا اس سے گھر میں داخل ہونا آسان نہ ہو، اس کےلیے مناسب اقدامات کیجیے مثلا پیراپیٹ وال کو مزید اونچا کرنا، اس پہ خاردار تار لگانا، چھت سے نیچے جانے والی سیڑھیوں پہ مضبوط دروازہ اور دروازے میں مضبوط تالا نصب کرنا اور اسے روزانہ رات کو بند کرنا.
★ کوشش کیجیے کہ گھر کے کام کاج کےلیے ماسی وغیرہ دیکھ بھال کر رکھیں، اگر کسی پارٹ ٹائم ملازم کے ملنے والے بہت آتے ہیں تو اسے بدل دیجیے. جزوقتی ملازمین کے بجائے باقاعدہ ملازم بہتر رہتے ہیں، لیکن افورڈ نہ کر سکتے ہوں تو ان کی مناسب نگرانی کی ہدایت سختی سے گھر والوں کو دیجیے.
★ گھر پہ کام کے لیے آنے والے الیکٹریشن اور پلمبر وغیرہ قابل بھروسہ لوگ ہونے چاہییں، آپ خود کسی کو نہیں جانتے تو کسی جاننے والے کی مدد لیجیے. انہیں صرف وہاں تک رسائی دی جائے جہاں ان کا کام ہے، اگر پورا گھر دکھانا ضروری ہو تو خصوصی احتیاط برتیے-
★ ایسے مہمان جن سے آپ زیادہ واقف نہیں یا جن سے اتفاقا پالا پڑا ہو، کو ڈرائنگ روم یا گیسٹ روم تک محدود رکھیں، ضرورت سے زیادہ مروت مت برتیں.
★ گھر کے تمام دروازوں پہ اندرونی جانب حفاظتی زنجیریں لگوائیں، بیرونی دروازے پہ تو یہ بہت ہی ضروری ہے.
★ زیورات اور نقدی کےلیے بنکوں کو استعمال کرنا سیکھیں جو جابجا کھلے ہوئے ہیں. گھر پہ صرف روزمرہ ضرورت کا کیش اور عام استعمال والے زیورات رکھیں. دیگر قیمتی اشیاء بھی ادھر ادھر بکھری نہ ہوں، نیز اپنے گھر کے فرنیچر و الیکٹرانکس مصنوعات کی ترتیب یا جگہ بھی سال میں ایک دو بار بدلا لیا کیجیے.
★ یہ معاملہ طے شدہ ہونا چاہیے کہ دروازے پہ اگر بھکاری اور سیلزمین وغیرہ آتے ہیں تو دروازے پہ کون جائے گا اور انہیں کیسے ٹریٹ کیا جائے گا؟ سائل کو خالی ہاتھ ہرگز نہ لوٹائیں مگر اس کےلیے گھر کے دروازے وا کرنا قطعی ضروری نہیں. سیلز گرلز سے گھریلو خواتین محتاط رہیں خصوصا جب وہ غیرمعروف کمپنی کی غیر معروف سی پراڈکٹس بیچ رہی ہوں.
★ اپنے محلے یا علاقے میں اگر چوری چکاری کی وارداتیں تسلسل سے ہوتی سنیں تو خصوصی احتیاط برتیں تاوقتیکہ یہ سلسلہ کہیں اور منتقل نہ ہو جائے.
★ اگر ہتھیار چلانے کی تربیت رکھتے ہیں تو لائسنس یافتہ ہتھیار ضرور رکھیے، مگر اسے ہمیشہ درست حالت میں اور ایسی جگہ رکھیں جہاں صرف آپ کی رسائی ممکن ہو. آتشیں اسلحہ مالک کو نہیں پہچانتا.
★ اگر گھر والے خود کو خطرے میں محسوس کریں تو انہیں کیا کرنا چاہیے، یہ بھی پہلے سے طے شدہ ہو. مثلا کسی چور یا ڈاکو کے خدانخواستہ گھر میں گھس جانے کی صورت میں کیا کیا جائے؟ بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ اگر مندرجہ بالا تمام اقدامات کے بعد بھی وہ گھر میں گھس آتے ہیں تو پھر آپ کچھ نہ کیجیے، سب کچھ وہ خود ہی کر لیں گے. لیکن اگر مزاحمت یا دفاع ہی آخری حل ہے تو اس کا کیا طریقہ ہونا چاہیے، کون کیا کرے گا؟ وغیرہ. یہ سب طے کر لیا جائے.
اگلی قسط میں ہم ان شاء اللہ دیکھیں گے کہ جب اپنی فیملی کے ساتھ آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو کن کن باتوں کا خیال رکھا جانا چاہیے، اور کیا کیا تدابیر اختیار کی جائیں.
دوسری قسط یہاں ملاحظہ کیجیے
تیسری قسط یہاں ملاحظہ کیجیے
بہت اچھا اور معلوماتی مضمون ہے. یہ جملہ کہ " ایک چور یا ڈاکو کی نظر سے اپنے گھر کو دیکھیے" پڑھ کر لگا کہ پاکستان کی بات ہو رہی ہے. ~ راشد
[…] گزشتہ مضمون میں ہم نے اپنے گھر کو فیملی کے لیے زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے چند طریقے دیکھے تھے، مگر ہمیشہ گھر پہ رہنا بھی ممکن نہیں. تعلیم، روزگار یا شاپنگ کے علاوہ تفریح یا کسی خوشی یا غم میں شرکت کے لیے پوری فیملی کو سفر کرنا پڑتا ہے. یہ سفر اندرونِ شہر کا بھی ہو سکتا ہے اور کسی دوردراز مقام کا بھی. اپنی افتادِ طبع سے مجبور ہو کر میں نے اس مضمون میں سفر بسلسلہ سیر و تفریح فرض کیا ہے مگر اس کا اطلاق دیگر تمام مقاصد کے تحت کیے جانے والے سفر پہ بھی ہو سکتا ہے. […]
بے حد اچھا سلسلہ ہے. بہت شکریہ. جزاك الله!