تاریخی ورثے کے مجاوروں کی منطق بہت نرالی ہے۔ان کا استدلال ہے کہ پرانی عمارتوں اور آثار قدیمہ کی بقا و حفاظت زندہ انسانوں کی تعمیر و ترقی اور سہولت و آسائش سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ہاں جب ہم لوگ مر کھپ جائیں گے تو تین سو سال بعد ان مجاوروں کے سجادہ نشین اٹھیں گے اور خستہ حال عمارتوں کی جانچ پڑتال لگا کر یہ سراغ پانے کی جستجو کریں گے کون سا پتھر کتنا پرانا ہے۔جب ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ چکی ہونگی تب ہمیں وہ حقوق حاصل ہونگے جو آج اورنج ٹرین کے راستے میں آنے والی مقدس عمارتوں کو حاصل ہیں۔گاہے خیال آتا ہے کہ جب ان بلند و بالا تاریخی عمارتوں کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا ،تب بھی آثار قدیمہ کی حیثیت رکھنے والے ماضی کے کئی نشانات کو منہدم کیا گیا ہو گا؟اگر ایسے ہی مجاور اس وقت مغلیہ دربار میں موجود ہوتے تو کیا کچھ تعمیر ہو پاتا؟
اگر تاریخ انسانی کے ہر دور میں ثقافتی ورثے کی حفاظت کا یہی مفہوم لیا گیا ہوتا کہ ماضی سے منسوب کسی شے کو نہ چھیڑا جائے تو تعمیر و ترقی کا سفر شروع ہی نہ ہو پاتا،نئے شہر نہ بسائے جاتے تو نسل انسانی برسہا برس پہلے معدوم ہو چکی ہوتی اور آج آثار قدیمہ کے سوا کچھ بھی باقی نہ ہوتا۔ترقی یافتہ ممالک کو تو چھوڑیں ،دہلی میں میٹرو چلانے کا فیصلہ ہوا تو کسی کے پیٹ میں مروڑ نہیں اٹھا۔ دہلی میٹرو کے ٹریک میں سے9.4کلومیٹر طویل روٹ جو تاریخی عمارتوں کے پاس سے گزرتا ہے اسے ’’ہیریٹیج کاریڈور‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔جنترمنتر،دہلی گیٹ،خونی دروازہ،فیروز شاہ کوٹلہ،سنہری مسجداور لال قلعہ جیسی تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں کے اوپر ،نیچے ،دائیں ،بائیں سے میٹرو گزرتی ہے مگر آثار قدیمہ کے کسی مجاور نے صف ماتم نہیں بچھائی۔کھدائی کے دوران کشمیری گیٹ کے قریب 113سالہ پرانی عمارت مسمار ہو گئی مگر کسی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت محسوس نہیں کی البتہ بھارتی حکومت نے ’’ماس سپرنگ سسٹم ٹیکنالوجی‘‘ کو بروئے کار لانے کے لئے ایک آسٹرین فرم کی خدمات حاصل کیں تاکہ ٹریک کی کھدائی کے نیچے ایک ایسا ’’کشن‘‘ فراہم کردیا جائے جو میٹرو ٹرین کی تھرتھراہٹ جذب کر لے اور تاریخی عمارتوں کو نقصان نہ پہنچے۔
جب تاریخی ورثے کے مجاوروں نے عدالت میں دلائل دیئے تو جلال الدین محمد اکبر کے دور کا ایک شاہی فرمان بھی پیش کیا گیا کہ حضرت موج دریا کا مزار اور اس سے ملحق احاطہ محفوظ عمارتوں میں شامل ہیں اور مہابلی کے حکم کی روشنی میں یہاں کوئی دوسری عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی۔تاریخی نظائر پیش کرنے والوں میں اخلاقی جرات ہوتی تو یہ بھی بتایا ہوتا کہ اکبراعظم کے دور میں کسی عدالت کو کار سرکار میں مداخلت کا حق حاصل نہ تھا۔مغلیہ سلطنت کی نشانیوں سے محبت کرنے والے ان مجاوروں کو فرصت ملے اپنے آبائو اجداد کے کارنامے بھی پڑھ دیکھیں۔
خافی خان نے لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے اپنے بھائی مُراد کو چکمہ دینے کے لئے خط لکھااور کہا’’میں تو تمہیں تخت پر بٹھا کر خود گوشہ نشین ہونا چاہتا ہوں تاکہ اپنے آپ کو ریاضت و عبادت کے لئے وقف کر سکوں۔‘‘دھوکے سے مُراد کو گرفتار کر کے قلعہ گوالیار میں قید کر دیا اور پھر اس پھندے کی تلاش شروع ہوئی جو مُراد کی گردن ماپ سکے۔جلد ہی ایک ایسا شخص ڈھونڈ نکالا گیا جس نے الزام عائد کیا کہ اس کے باپ کو مُراد نے قتل کیا تھا۔یوںاورنگ زیب عالمگیر نے عدل و انصاف کی عدیم النظیر مثال قائم کرتے ہوئے اپنے پہلے سے گرفتار بھائی کو پھانسی دیدی اور اپنے تاج و تخت کو محفوظ کر لیا۔مشاہدے اور مطالعے کی بات یہ ہے کہ اس نے نہ کوئی نماز ترک کی اور نہ ہی اپنے کسی بھائی کو زندہ چھوڑا۔یہ ہیں وہ آبائو اجداد جن کی تاریخی عمارات پر ہمیں اپنا حال اور مستقبل قربان کرنے کو کہا جا رہا ہے۔
اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساء کا مقبرہ جس کے پاس میٹرو کا ٹریک گزرنے پر غُل مچ گیا ہے ،وہاں مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ زیب النساء کے درمیان پہلے ہی ریل کی پٹری گزر رہی ہے ،بلا ناغہ وہاں سے مال بردار ریل گاڑیاں گزرتی ہیں ،آس پاس کی سڑکوں سے ہر قسم کا ٹریفک رواں دواں ہے مگر کبھی ان تاریخی مقامات کے تقدس و حرمت پر حرف نہیں آیا لیکن میٹرو کاٹریک بننے لگا تو دہائی پڑ گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مورخین کو اس بات پر اتفاق ہی نہیں کہ اس مزار میں کون دفن ہے ،کسی کا خیال ہے کہ یہ زیب النساء کا ،مقبرہ ہے جبکہ بعض روایات کے مطابق یہاں اس کی چہیتی نوکرانی انامیا بائی دفن ہے۔چوبرجی میں زیب النساء کا باغ ہوا کرتا تھا جو قیام پاکستان سے پہلے ہی مٹ چکا اور اس کے مرکزی دروازے کی چوبرجیاں باقی تھیں۔یہاں برسہا برس سے نشے کے عادی افراد کے ڈیرے ہیں اور ’’چوبرجی والے جہاز‘‘ کی اصطلاح لاہور بھر میں مستعمل ہے لیکن کبھی کسی مجاور کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس تذلیل و تحقیر پر آواز اٹھائے۔ان چوبرجیوں کے چاروں طرف 200گز تو کیا محض دو گز کے فاصلے پر سڑکیں بنیں ،دن رات وہاں سے ٹریفک گزرتا ہے لیکن کسی کو کو ئی اعتراض نہیں ہوا۔مگر جب میٹرو کا ٹریک بننا شروع ہوا تو یہ مجاور اٹھ کھڑے ہوئے۔
گلابی باغ کے تقدس کی یہ اہمیت بتائی جاتی ہے کہ یہاں شاہ جہاںکی خادمہ دائی انگہ کا مزار ہے۔بدھو کا آوا یوں تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ بدھو نامی ایک کمہار نے اینٹیں بیچ بیچ کر اتنی دولت جمع کر لی کہ اپنے لئے شاندار مقبرہ تعمیر کروایا۔جی پی او کی تاریخی اہمیت یہ بتائی جاتی ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی یاد میں 1887ء میں یہ عمارت تعمیر ہوئی۔لکشمی بلڈنگ،ایوان اوقاف،سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کی عمارت اور سینٹ اینڈریو پریسٹرئین چرچ کی عمارتیں اس لئے مقدس ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے تعمیر ہوئیں۔ان میں سے کسی بھی تاریخی عمارت کو کلی یا جزوی طور پر مسمار نہیں کیا جا رہا،اس طرح کا کوئی خدشہ نہیں کہ میٹرو ٹرین چلنے سے ان میں سے کسی عمارت کو کوئی نقصان پہنچے ۔
آثار قدیمہ کے مجاوروں کا اعتراض یہ ہے ان عمارتوں کی بغل سے میٹرو گزرے گی تو اس تاریخی ورثے کاحسن ماند پڑ جائے گا۔سادہ سا سوال یہ ہے کہ کیا ان میں سے کوئی ایک تاریخی مقام ایسا ہے جہاں پہلے سے ٹریفک نہ گزرتا ہو؟اگر اس ٹریفک کی روانی سے تاریخی مقامات کی بے حرمتی نہیں ہوتی تو میٹرو ٹرین چلنے سے ان کی شان میں گستاخی کیسے ہو سکتی ہے؟اگر آپ کو میٹرو پروجیکٹ پر تکنیکی اعتبار سے کوئی اعتراض ہے تو ضرور تنقید کریں۔یہ بات ہو سکتی ہے کہ مواصلاتی منصوبوں کی طرح صحت و تعلیم کے شعبوں کو ترجیحات میں سرفہرست رکھا جائے،یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ تمام صوبے کے وسائل لاہور پر خرچ کیوں کئے جا رہے ہیں لیکن آثار قدیمہ کے مجاور اس بات پر تو بغلیں نہ بجائیں کہ بے جان پرانی عمارتوں کو زندہ انسانوں پر فوقیت دیدی گئی۔
تبصرہ لکھیے