اس بات پر بھی غور کریں کہ مسئلہ صرف شخص اعتباری کو ماننے یا نہ ماننے کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسائل تو اس تصور کو مان لینے کے بعد پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ شخص اعتباری کے تصور کو ماننے کے نتیجے میں چند بدیہیات کو بھی ماننا پڑے گا۔ ان میں سے ایک اہم یہ ہے کہ قانون کے ماہرین مانتے ہیں، اور مانے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے، کہ شخص اعتباری پر کسی قسم کی دینی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اس بات کی تعبیر فقہی اصطلاح میں یوں کریں گے کہ خطاب العبادات شخص اعتباری کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا۔
مثال کے طور پر اگر کارپوریشن کو شخص اعتباری مان لیا جائے تو اس شخص کی املاک پر زکوۃ عائد نہیں ہوگی۔ اسی طرح ریاست کو شخص اعتباری کہا جائے تو ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ اس کی طرف خطاب العبادات متوجہ نہیں ہے۔ پس جہاد کا مطالبہ ریاست سے نہیں کیا جاسکے گا۔ یہی بات امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اقامت صلاۃ و ایتاء زکوۃ اور اس طرح کے دیگر فرائض کے متعلق بھی کہی جائے گی۔
بہ الفاظ دیگر قانونی و فقہی لحاظ سے ریاست کا اسلامی یا غیر اسلامی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ ریاست شخص حقیقی نہیں بلکہ شخص اعتباری ہے۔ اس لیے ریاست جیسے مسلمان نہیں ہوسکتی اسی طرح مرتد یا فاسق بھی نہیں ہوسکتی!
کیا ریاست مرتد، فاسق ہو سکتی ہے؟ محمد مشتاق

تبصرہ لکھیے