اسلامی قانون اعتباری شخصیت کے تصور کو کیوں نہیں مانتا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے ’’شخصیت‘‘ کے لیے ’’ذمۃ ‘‘ ضروری ہے اور ذمہ سے مراد وہ عہد ہے جو انسانوں نے اپنے پروردگار سے کیا ہے۔ اسی عہد کی بنیاد پر اسلامی قانون نے انسان کو خطاب ِ شارع کا مستحق قرار دیا ہے اور پھر اسی خطاب ِ شارع کے نتیجے میں اس کو مکلف مانا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، اس عہد کے نتیجے میں انسان کو ’’اہلیت‘‘ حاصل ہوگئی۔ یہ اہلیت، جیسا کہ معروف ہے، دو طرح کی ہے : اہلیت ِوجوب ، جس کے نتیجے میں انسان کو حقوق و فرائض حاصل ہوتے ہیں ؛ اور اہلیت ِادا ، جس کےنتیجے میں وہ ان حقوق و فرائض کی ادائیگی کا اہل ہوجاتا ہے۔ اہلیت ِ وجوب کے لیے مناط ’’انسان ہونا‘‘ ہے؛ جبکہ اہلیت ِادا کے لیے مناط’’عقل‘‘ ہے ۔ پس غیر انسان کے لیے نہ ذمہ ہے، نہ اہلیت ِوجوب ۔ اسی لیے اصولیین بتاتے ہیں کہ اگر کسی مادی وجود کے لیے فرض بھی کیا جائے کہ وہ عقل رکھتی ہے، تب بھی اس کے لیے ذمہ تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔
اس بات پر بھی غور کریں کہ مسئلہ صرف شخص اعتباری کو ماننے یا نہ ماننے کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسائل تو اس تصور کو مان لینے کے بعد پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ شخص اعتباری کے تصور کو ماننے کے نتیجے میں چند بدیہیات کو بھی ماننا پڑے گا۔ ان میں سے ایک اہم یہ ہے کہ قانون کے ماہرین مانتے ہیں، اور مانے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے، کہ شخص اعتباری پر کسی قسم کی دینی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اس بات کی تعبیر فقہی اصطلاح میں یوں کریں گے کہ خطاب العبادات شخص اعتباری کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا۔
مثال کے طور پر اگر کارپوریشن کو شخص اعتباری مان لیا جائے تو اس شخص کی املاک پر زکوۃ عائد نہیں ہوگی۔ اسی طرح ریاست کو شخص اعتباری کہا جائے تو ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ اس کی طرف خطاب العبادات متوجہ نہیں ہے۔ پس جہاد کا مطالبہ ریاست سے نہیں کیا جاسکے گا۔ یہی بات امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اقامت صلاۃ و ایتاء زکوۃ اور اس طرح کے دیگر فرائض کے متعلق بھی کہی جائے گی۔
بہ الفاظ دیگر قانونی و فقہی لحاظ سے ریاست کا اسلامی یا غیر اسلامی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ ریاست شخص حقیقی نہیں بلکہ شخص اعتباری ہے۔ اس لیے ریاست جیسے مسلمان نہیں ہوسکتی اسی طرح مرتد یا فاسق بھی نہیں ہوسکتی!
تبصرہ لکھیے