آزادی کی جنگ کی شرعی حیثیت پر الگ گفتگو کی ضرورت ہے لیکن چوں کہ بعض لوگ بین الاقوامی قانون سے ناواقفیت کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ معاصر قانون کی رو سے اسے ناجائز سمجھا جاتا ہے ، اس لیے یہاں اس ضمن میں بین الاقوامی قانون کی کچھ تفصیلات دی جارہی ہیں ۔
بین الاقوامی قانون میں آزادی کی جنگ کے جواز اور عدم جواز پر بحث ”حق خود ارادیت“ (Right of Self-determination) کے لیے جد و جہد پر بحث کے ضمن میں شروع ہوئی۔
معاصر بین الاقوامی قانونی نظام کی ابتدا یورپ میں ”قومی ریاست“(Nation-state) کے تصور سے ہوئی۔ اس تصور کا بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ ایک ریاست کے اندر رہنے والے لوگ ایک قوم ہیں۔ یورپ میں یہ تصور جس طرح وجود میں آیا اور جس طرح اس نے پرانے نظام کی جگہ لی، اس پس منظر میں یورپ کی حد تک اس تصور سے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا، اگرچہ کہیں کہیں ایک ریاست کے اندر رہنے والے لوگ خود کو ”الگ قوم“ متصور کرکے ”آزادی“ حاصل کرنے اور ”الگ ریاست“ کی تشکیل کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ البتہ جب یورپی اقوام کے قبضے کے خلاف ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوا تو ”قومی آزادی کی جنگ“ (War of National Liberation) کے جواز اور عدم جواز پر بحث بھی شروع ہوئی۔
ظاہر ہے کہ قابض قوتیں ابتدا میں اس کے جواز کی قائل نہیں ہوسکتی تھیں، اور چوں کہ بیسویں صدی کے ربع اول تک یورپی قوموں کا تصور یہی تھا کہ ریاست کو جنگ شروع کرنے کا مطلق اختیار ہے جو اس کے اقتدار اعلی (Sovereignty)کا لازمی نتیجہ ہے، اس لیے یورپی قبضے اور تسلط کے خلاف جہاں بھی مزاحمت ہوئی اسے ناجائز قرار دیا گیا اور مزاحمت کاروں کو ”دہشت گرد“ (Terrorists) کا خطاب دیا گیا۔ یہیں سے آزادی کی جنگ اور دہشت گردی کے تعلق پر بحث شروع ہوئی۔ پھر آزادی کی جنگ لڑنے والوں نے بھی دہشت گردی کے خطاب کو اپنے لیے اعزاز سمجھنا شروع کیا اور یہ بات مشہور ہوگئی کہ ایک شخص جسے دہشت گرد کہتا ہے وہ دوسرے کے نزدیک آزادی کی جنگ لڑنے والا مجاہد ہے:
One man's terrorist is another's freedom fighter.
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے (1918ء) پر جو بین الاقوامی نظام وجود میں آیا اس میں آزادی کی جنگ اور حق خود ارادیت کی جد و جہد کی بحث کو ایک نیا رخ دیا۔
اس جنگ عظیم میں ترکی اور جرمنی نے شکست کھائی اور ان کے زیر تسلط علاقوں پر برطانیہ، فرانس اور ان کے اتحادیوں کا قبضہ ہوگیا۔ جنگ کے دوران میں ہی انہوں نے مستقبل کے متعلق جن امور پر آپس میں اتفاق کیا تھا ان میں ایک امر یہ تھا کہ جنگ کے بعد ان علاقوں کو کس طرح تقسیم کرنا ہے، بالخصوص مشرق وسطی کے نقشے کو نئے سرے سے بنانے (Redrawing the Map of the Middle East) کا منصوبہ بنایا جاچکا تھا۔ اسی طرح افریقہ کے وہ علاقے جو اس وقت تک جرمنی کے قبضے میں تھے ان کی تقسیم کا بھی فیصلہ ہوچکا تھا۔ 1918ء میں ”میثاقِ مجلسِ اقوام“ (Covenant of the League of Nations) کے ذریعے ایک عالمی تنظیم قائم کی گئی۔ ان علاقوں کی تقسیم کے لیے میثاق کے تحت ایک ”نظامِ انتداب“ (Mandate System) وضع کیا گیا جس کے تحت طے پایا کہ یہ علاقے مختلف یورپی طاقتوں کو بطور ”ذمہ داری“ (Mandate) دیے جائیں گے اور ان یورپی طاقتوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانے (Self-rule) کا اہل بنائیں اور اس مقصد کے لیے ان کی تربیت کریں۔ پھر جب وہ اس کے اہل ہوجائیں گے تو یورپی طاقتیں ان پر قبضہ ختم کرلیں گی۔ یوں دو صدیوں سے جاری ظلم و استحصال کو ایک قانونی شکل دے دی گئی۔
اس نظام کے تحت مقبوضہ علاقوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا:
درجۂ اول (Mandate 'A'): اس درجے میں رکھے گئے علاقوں کو کاغذات کی حد تک یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے اوپر قبضے کے لیے یورپی طاقتوں میں کسی کو اپنی مرضی سے چن سکتے ہیں۔ ویسے عملاً ایسا کچھ نہیں ہوا اور عراق کے امیر فیصل نے فرانس جاکر جب اس سلسلے میں مذاکرات کی کوشش کی تو کسی نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ ان علاقوں میں قابض یورپی طاقت کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کو ”انتظامی امور میں مشورے اور تعاون“دیں یہاں تک کہ یہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے اہل ہوجائیں۔ عرب علاقے جو اس وقت تک عثمانی سلطنت کا حصہ تھے اس درجے میں رکھے گئے۔ شام کا علاقہ فرانس کے سپرد کیا گیا جبکہ عراق، فلسطین اور دریائے اردن کے پار کا علاقہ برطانیہ کو دیا گیا۔ یاد رہے کہ 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے عالمی صہیونی تنظیم کے سربراہ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جنگ کے خاتمے پر برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ”قومی وطن“ (National Home) کی تشکیل میں ہر ممکن مدد دے گا۔
درجۂ دوم (Mandate 'B'): اس درجے میں زیادہ تر افریقہ کے وہ علاقے رکھے گئے جو اس وقت تک جرمنی کے مقبوضہ جات تھے۔ ان علاقوں کو مجلس اقوام کی تمام ممبر ریاستوں کی تجارت کے لیے آزاد رکھا گیا۔ البتہ قابض ریاستوں کی ذمہ داری قرار دی گئی کہ وہ ان علاقوں میں غلاموں کی تجارت اور اسلحے کی ترسیل ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ٹانگانائیکا کو برطانیہ، بیلجیم اور پرتگال میں، جبکہ کیمرون اور ٹوگولینڈ کو برطانیہ اور فرانس میں تقسیم کردیا گیا۔
درجۂ سوم (Mandate 'C'): اس درجے میں مغربی افریقہ اور بحر الکاہل میں جرمنی کے سابقہ مقبوضہ جات کو رکھا گیا۔ مغربی افریقہ کے علاقوں کو جنوبی افریقہ کے حوالے کیا گیا جبکہ بحر الکاہل کے علاقوں کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان میں تقسیم کیا گیا۔ مجلس اقوام کی ممبر ریاستوں کو ان علاقوں میں تجارت کی قطعاً اجازت نہیں تھی۔ واضح رہے کہ درجۂ دوم اور درجۂ سوم کے علاقوں کے لوگوں کو قابض فوج میں ملازمت کی اجازت بھی نہیں تھی۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل ان یورپی طاقتوں نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا ان پر وہ اپنا قبضہ قانونی طور پر جائز اور مستقل سمجھتی تھیں اور انتداب کا نظام ان کے لیے نہیں تھا۔ چنانچہ مثال کے طور پر برصغیر کو 1857ء سے ”برطانیۂ عظمی“کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور اسے ”برطانوی ہند“ کہا جاتا تھا۔ برطانیہ کے بادشاہ کے القابات میں ایک لقب ”شہنشاہِ ہند“ کا بھی تھا۔
1919ء کے ورسائی معاہدے (Treaty of Versailles) میں یورپ کی حد تک علاقائی تنازعات کے حل بھی کوشش کی گئی۔ چنانچہ جرمنی کے مقبوضہ علاقے ”طاس ِسار“ (Saar Basin) کو فرانس کے قبضے میں دیا گیا تاکہ جرمنی کے حملے سے فرانس کو جو نقصان پہنچا اس کی تلافی ہوسکے! البتہ ساتھ ہی طے پایا کہ اس علاقے کے لوگوں سے پندرہ سال بعد استصواب رائے (Plebiscite) کیا جائے گا۔ 1935ء میں کیے گئے استصواب رائے میں لوگوں کی غالب اکثریت نے جرمنی کے ساتھ الحاق کے حق میں رائے دی۔
1864ء میں جرمنی نے ڈنمارک سے شمالی اور مرکزی شلیز وگ (Schlezwig) کے علاقے قبضے میں لیے تھے۔ یہاں جب استصواب رائے کیا گیا تو شمالی علاقے نے ڈنمارک کے ساتھ اور مرکزی علاقے نے جرمنی کے ساتھ الحاق کو اختیار کیا۔
ایک اور استصواب رائے کے ذریعے بالائی سلیشیا (Upper Silesia) کو جرمنی اور پولینڈ کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔
1917ء میں امریکی صدر ووڈرو ولسن نے یورپی طاقتوں کو تنبیہ کی تھی کہ اگر انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں بندربانٹ کی اور لوگوں کی خواہشات اور حقوق کا خیال نہ رکھا تو ان علاقوں میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکے گا اور یہ دنیا کے امن کے لیے بھی خطرے کا باعث بنیں گے۔ ولسن کے ان الفاظ کو حق خود ارادایت کی بہترین وضاحت سمجھا جاتا ہے:
We beleive first, that every people have the right to choose the sovereignty under which it shall live; second, that the small states of the world have a right to enjoy the same respect for their sovereignty and for their territorial integrity that the powerful nations expect and insist upon; third, that the world has a right to be free from every disturbance of its peace that has its origin in aggression and disregard of the right of peoples and nations.
(ہم یقین رکھتے ہیں اولاً کہ تمام لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود اپنے لیے وہ حکومت پسند کریں جس کے تحت وہ رہنا چاہتے ہیں؛ ثانیاً کہ دنیا کی چھوٹی ریاستیں اپنے اقتدار اعلی اور اپنی علاقائی سا لمیت کے احترام کا اتنا ہی حق رکھتی ہیں جتنا بڑی طاقتیں اپنے لیے توقع رکھتی ہیں اور اصرار کرتی ہیں؛ ثالثاً کہ دنیا کویہ حق حاصل ہے کہ اس کا امن ہر طرح کی خرابی سے محفوظ رہے جس کی جڑیں جارحیت اور لوگوں اور اقوام کے حقوق کے عدم احترام میں پائی جاتی ہیں۔)
No peace can last, or ought to last, which does not accept the principle that governments derive all their just powers from the consent of the governed, and that no right anywhere exists to hand people from sovereignty to sovereignty as if they were property.
(کوئی امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، نہ ہی قائم ہونا چاہیے، جب تک اس کی بنیاد اصول کے تسلیم کرنے پر نہ ہو کہ حکومتیں اپنے تمام جائز اختیارات عوام کی رضامندی سے حاصل کرتی ہیں اور کوئی ایسا حق کہیں پایا نہیں جاتا جس کے تحت لوگوں کو ایک حکومت سے دوسری حکومت کے حوالے یوں کیا جائے جیسے وہ انسان نہیں بلکہ اموال ہوں۔ )
اپنے مشہور ”چودہ نکات“میں ولسن نے ایک طرف آسٹریا اور ہنگری کے لوگوں کے لیے ”زیادہ سے زیادہ“آزادی کے مواقع دینے کی بات کی اور رومانیہ، سربیا اور مونٹے نیگرو سے غیر ملکی فوجوں کے مکمل انخلا کو ضروری قرار دیا تو دوسری طرف اس پر بھی زور دیا کہ عثمانی سلطنت میں موجود ”ترک علاقوں“ پر مشتمل ریاست کی خودمختاری کو محفوظ بنانا نہایت ضروری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف ولسن نے حق خود ارادیت کا چیمپئن بننے کی کوشش کی اور دوسری طرف امریکی حکومت نے روسی صدر لینن کو اس بنا پر مذمت کا نشانہ بنایا ہوا تھا کہ لینن نے افریقہ اور ایشیا کی تمام اقوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے پر زور دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ لینزگ نے صراحتاً قرار دیا کہ اگر حق خود ارادیت کو افریقہ اور ایشیا کی اقوام کے لیے تسلیم کیا گیا تو مستقبل کا عالمی نظام عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ امریکی صدر نے جس حق خود ارادیت کی بات کی اس سے مراد صرف یورپی اقوام کا حق خود ارادیت تھا! یہی وہ دوہرا معیار ہے جو حق خود ارادیت کی جد و جہد اور آزادی کی جنگ کے سلسلے میں مغربی طاقتوں کی پالیسی کا رکن ِ رکین رہا ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر 1941ء میں امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جسے ”منشور اوقیانوس“ (Atlantic Charter) کہا جاتا ہے۔ اس منشور میں بشمول دیگر امور کے کہا گیا:
They desire to see no territorial changes that do not accord with the freely expressed wishes of the people concerned. They respect the right of all peoples to choose the form of geovernment under which they live; and they wish to see sovereign rights and self-government to those who have been forcibly deprived of them.
(وہ کوئی ایسی جغرافیائی تبدیلی دیکھنا نہیں چاہتے جو لوگوں کی مرضی کے آزادانہ اظہار کے مطابق نہ ہو۔ وہ تمام لوگوں کے اپنی پسند کی حکومت کے تحت رہنے کا حق کا احترام کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو جبراً اقتدار اعلی اور اپنی حکومت سے محروم کیا گیا ہے انہیں یہ حقوق پھر میسر ہوں۔ )
تاہم بعد میں چرچل نے دار العوام سے خطاب کے دوران میں قرار دیا کہ یہ وعدہ صرف یورپی اقوام کے لیے اور ان کے لیے کیا گیا تھا جو جرمن نازی مظالم کے تحت گھرے ہوئے تھے۔
1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی تنظیم وجود میں لائی گئی۔ اس تنظیم کے منشور میں حق خود ارادیت کو تمام انسانوں کا بنیادی حق قرار دیا گیا۔ اگرچہ یورپی قابض طاقتوں، بالخصوص بیلجیم نے اس شق پر بہت اعتراض کیا تھا لیکن اس شق کو منشور سے حذف نہیں کیا گیا۔ تاہم ان قابض طاقتوں کے دباؤ کی وجہ سے اصل شق میں تبدیلی کی گئی اور ایک نسبتاً کمزور شق منشور میں داخل کی گئی۔
منشور کے تحت ”لوگوں کے حق خود ارادیت کے احترام پر مبنی بین الاقوامی تعلقات“ کی تشکیل کو تنظیم کا بنیادی مقصد قرار دیا گیا۔ منشور نے تمام چھوٹی بڑی ریاستوں کے لیے مساوات کا اصول بھی تسلیم کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“میں مداخلت کو ناجائز بھی قرار دیا ہے۔ منشور میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے حق خود ارادیت کا احترام کیا جائے۔ واضح رہے کہ منشور کے تحت تمام رکن ریاستوں پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر تنظیم کے بنیادی مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کریں۔
اقوام متحدہ کی تنظیم کے قیام کے وقت چوہتر (۴۷) علاقے ایسے تھے جن کو Non-self-governing territories کہا جاتا تھا، یعنی وہ علاقے جن پر وہاں کے لوگوں کی اپنی حکومت نہیں ہے۔ منشور کے گیارھویں باب میں ان علاقوں کو ان کے اوپر قابض طاقتوں کے پاس ”امانت“ (Trust) قرار دیا گیا اور ان کی ذمہ داری یہ قرار دی گئی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کی بہبود اور ترقی کا خیال رکھیں گے۔ میثاقِ مجلسِ اقوام کے نظامِ انتداب کو اب منشور کے بارھویں باب کے تحت ”نظامِ امانت“ (Trusteeship System) میں تبدیل کردیا گیا اور اس کی نگرانی کے لیے تیرھویں باب کے تحت Trusteeship Council قائم کی گئی۔ نظامِ انتداب کے تحت جو علاقے ایسی طاقتوں کو دیے گئے تھے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں شکست کھائی ان کو اب اس نئے نظام کے تحت دیگر ریاستوں کو دیا گیا۔ ان Trust Territories کی تعداد گیارہ تھی۔
اس نظام کے تحت مشرقی تیمور کا علاقہ بھی تھا جس پر انڈونیشیا اور پرتگال کا تنازعہ بھی تھا۔ انڈونیشیا نے مشرقی تیمور کے لیے اندرونی خود مختاری کا بھی وعدہ کیا لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق جب 1999ء میں مشرقی تیمور کے لوگوں سے استصواب رائے کیا گیا تو ان کی اکثریت نے آزادی کو ترجیح دی۔
فلسطین اور ماورائے اردن کا علاقہ 1918ء سے برطانوی انتداب کے تحت تھا۔ 1948ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے سامنے اپنی معذوری ظاہر کی اور کہا کہ اب وہ انتداب کی ذمہ داری مزید اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس دوران میں صہیونی تنظیم کے پیروکاروں کی کاوشوں سے برطانیہ، امریکا، فرانس اور دیگر مغربی طاقتوں کے تعاون اور مدد اور جرمن نازیوں کے مظالم کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی دنیا کے کونے کونے سے فلسطین میں آبادکاری کے لیے پہنچ گئے تھے۔ ان کے اور مقامی عرب آبادی کے درمیان خونریز جھڑپیں بھی ہوتی رہیں۔ بعض یہودیوں نے عرب آبادی اور برطانوی حکومتی اہلکاروں پر حملوں کے لیے تنظیمیں بھی بنائیں۔ بالآخر جب معاملہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش ہوا تو جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کا فیصلہ کرلیا۔ واضح رہے کہ اس وقت جنرل اسمبلی میں اکثریت مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں کی تھی۔ اس تقسیم کے اعلان کے ساتھ فسادات پھوٹ پڑے۔ برطانیہ نے فلسطین سے نکلنے کا اعلان کیا لیکن صہیونی تنظیم کی باقاعدہ مدد جاری رکھی۔ مئی 1948ء میں صہیونی تنظیم بالآخر ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ عربوں کو جنگ میں شکست ہو گئی۔ البتہ یروشلم اور ماورائے دریائے اردن کے علاقے پر ہاشمی امیر عبد اللہ کی حکومت برقرار رہی۔
1956ء میں نہر سویز کے بحران کے موقع پر اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مشترکہ طور پر مصر پر حملہ کیا لیکن عالمی دباؤ کے نتیجے میں انہیں واپس ہٹنا پڑا۔ اس جنگ کا اور کوئی نتیجہ نکلا ہو یا نہ نکلا ہو، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ عرب قوم پرستی کو مزید تقویت ملی اور جمال عبد الناصر کو قوم پرستی کے اس مذہب کے پیغمبر کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ 1967ء میں تیسری جنگ کے موقع پر عربوں کی مشترک طاقت کو عبرتناک اور انتہائی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسرائیل نے مزید کئی علاقوں پر قبضہ قائم کرلیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ ہوا۔ اس قبضے کے بعد ”عرب اسرائیل“ تنازعے نے ”فلسطیینوں اور یہودیوں“ کے تنازعے کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ 1967ء کی جنگ میں جو علاقے اسرائیل نے قبضے میں لیے یروشلم سمیت ان تمام علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ اقوام متحدہ کے موقف کے مطابق ناجائز ہے اور وہ ریاست اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ ان علاقوں میں اسرائیل کو قابض طاقت (Occupying Power) کی حیثیت حاصل ہے۔
”برطانوی ہند“ کا تعلق نظام انتداب سے نہیں تھا۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کے لیے ہندوستان پر قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا تھا۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے ہندوستان پر قبضہ ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ہندوستانی سیاستدانوں کا اس امر پر اختلاف تھا کہ برطانیہ کے قبضے کے خاتمے پر کیا ہندوستان ایک سیاسی وحدت کے طور پر برقرار رہے یا اسے تقسیم کردیا جائے۔ 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی نے تقسیم کی راہ ہموار کردی جس کو روکنے کی آخری کوشش کے لیے برطانیہ نے تین وزراء بھجوائے لیکن پنڈت نہرو کی ایک بھیانک سیاسی غلطی نے تقسیم کو یقینی کردیا۔
برطانوی ہند میں کچھ علاقے ایسے تھے جن پر برطانیہ کا مکمل کنٹرول تھا اور کچھ علاقوں میں مقامی سرداروں، نوابوں، راجوں، شہزادوں اور والیان کا اختیار تسلیم کیا گیا تھا۔ ان مؤخر الذکر علاقوں کو ”شاہی ریاستیں“ (Princely States) کہا جاتا تھا۔
جون 1947ء میں ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا جو منصوبہ پیش کیا اس کے تحت طے پایا کہ چونکہ بنگال اور پنجاب کے صوبوں میں ایک طرف مسلمانوں کی اکثریت ہے اور دوسری طرف غیر مسلموں کی، اس لیے اگر وہاں کی اسمبلیاں تقسیم کا فیصلہ کریں تو پھر ان صوبوں کو تقسیم کرکے مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کردیے جائیں گے۔ صوبہ سرحد کے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ یہاں کے عوام سے استصواب رائے کیا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ یہ فیصلہ اس بنا پر کیا گیا کہ اس صوبے میں کانگریس کے اتحادی سرخپوشوں کی حکومت تھی، حالانکہ یہاں کی آبادی کی انتہائی غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ استصواب رائے میں لوگوں کی غالب اکثریت نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا۔
شاہی ریاستوں کے سربراہان کو حق دیا گیا کہ بھارت یا پاکستان میں کسی کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کرلیں۔ اگرچہ بعض ریاستوں کے سربراہان نے خود مختار رہنے کا آپشن بھی مانگا مگر اسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ اکثر ریاستوں کی جغرافیائی پوزیشن ایسی تھی کہ ان کے سربراہان کے پاس عملاً کوئی آپشن نہیں تھا۔ مثال کے طور پر سوات کی ریاست کا الحاق لازماً پاکستان سے ہونا تھا اور جوناگڑھ کا الحاق لازماً بھارت سے ہی ہونا تھا۔ البتہ جموں و کشمیر کی ریاست ایسی تھی جس کے سربراہ کے پاس یقینا یہ موقع تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں کسی کے ساتھ بھی شامل ہونے کا فیصلہ کرسکتا تھا، اور یہی تنازعے کا باعث بنا۔ پھر جب تنازعے نے جنگ کی شکل اختیار کرلی اور معاملہ سلامتی کونسل کے پاس چلا گیا تو سلامتی کونسل نے فیصلہ کیا کہ جموں و کشمیر کے عوام سے استصواب رائے کیا جائے۔ یوں پہلی دفعہ حق خود ارادیت کا معاملہ نظام انتداب اور نظام امانت سے باہر علاقوں تک بھی چلا گیا۔
(موضوع کے اعتبار سے اس اہم مضمون کا اگلا حصہ آپ کل ملاحظہ کرسکیں گے)
[…] اہم مضمون کا پہلا حصہ […]