ہوم << صفت پر ہےمنحصر، سہولت کاملنا - قاضی عبدالرحمان

صفت پر ہےمنحصر، سہولت کاملنا - قاضی عبدالرحمان

کچھ وصف تو ہوتا ہےدماغوں میں دلوں میں
یونہی کوئی سقراط و سکندر نہیں ہوتا
انٹرمیڈیٹ کے زمانے میں سوشل گیدرنگ کے موقع پرایک صاحب کا لیکچر ہوا تھا، جس کاعنوان ’’صلاحیتوں کی اہمیت‘‘ تھا. موضوع کی مناسبت سے موصوف نے یہ قول سامعین کےگوش گذار کیاتھا.
If you want to become a great man then you should cultivate good qualities and sublime norms.
(ترجمہ: اگر تم عظیم انسان بننا چاہتے ہو تو تمہیں عمدہ صفات اور اعلی معیار کو پروان چڑھاناچاہیے)
دنیامیں قبول عام کےحصول کےلیے قابل ہونا شرط ہے. قابل کے در پر کامرانی اگرچہ دیر سے سہی مگر ناک رگڑتی ہوئی آتی ہے. ناکارہ اشخاص کا حال ’یہ ناداں گرگئے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘ سے مختلف نہیں ہوتا. جوہر قابل کو ہرکہ ومہ کے در پر کاسہ گدائی پکڑنا اور جبیں کو خاک آلود کرنا نہیں پڑتا. اس کا نشیمن شاہوں کا محل نہیں ہوتا بلکہ درگاہ حق ہوتی ہے. ہرشعبہ میں اہل کمال کو پلکوں پر بٹھاتے ہیں اور نااہلوں کو باہر کا راستہ دکھاتے ہیں. اسی لیے فارسی کامقولہ ہے،
’کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی‘ (اپنے کام میں ایسا کمال پیدا کرو کہ جہاں کو عزیز ہو جائو)
ہمارے معاشرے میں پنپتا ایک عام مغالطہ یہ ہے کہ باہر موجود چیزوں کو کامیابی کی کنجی سمجھنے لگتے ہیں جو کہ کامیابی کا دھوکہ ہے، اصل کامیابی انسان کے اندرون کا بننا اور باطن کا صفات سے آراستہ ہونا ہے. اخلاق حمیدہ اور صفات سعیدہ سے مزین شخص، اپنوں اور غیروں کی نظر میں یکساں محبوب ہوتا ہے. اس کی صحبت، راحت کا سبب ہوتی ہے. یہ شخصیت کی تعمیر، کردار کی صفائی اور روح کی پاکیزگی قرآن مجید کا اہم موضوع ہے. اس موضوع پر کئی آیات قرآنیہ شاہد عدل ہیں. یہاں صرف تین آیات بطور استشہاد پیش کرنے کا ارادہ ہے.
1) جب غاصب جالوت کے ظلم و ستم سے لڑنے کے لیے بنی اسرائیل میں سے کسی کو بادشاہ بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے، اس وقت کا منظر قرآن محکم کی زبانی سنیے،
’’اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ خدا نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہے، بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں.‘‘
آگے نبی فضیلت کا سبب مال و اسباب کو نہیں بلکہ باطنی معیار بتاتے ہیں.
’’پیغمبر نے کہا کہ ترجمہ:’’خدا نے اس کو تم پر فضیلت دی ہے اور (بادشاہی کے لیے) منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور خدا (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے۔ وہ بڑا کشائش والا اور دانا ہے.‘‘ (البقرہ)
حافظ عمادالدین ابن کثیررحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بادشاہ ذی علم، شکیل، قوی، طاقتور اور بڑے دِل و دماغ والا ہونا چاہیے۔ (ابن کثیر)
2) جیل سے باعزت رہائی کے بعد، جب بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنا مصاحب خاص بنایا اور عہدہ کی پیشکش کی تو وزیرخزانہ کے عہدے کے لیے آپ علیہ السلام نے اپنی شخصیت کی موزونیت کا اظہار خاندانی عظمت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس عہدہ کےلیے درکار صفات کی بنیاد پر کیا. فرمانےلگے،
ترجمہ: ’’مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے کیونکہ میں حفاظت بھی کرسکتا ہوں اور اس کام سے واقف ہوں.‘‘ (سورہ یوسف)
تفسیرمظہری میں اس آیت کےذیل میں لکھاہےکہ میں ناجائز اخراجات سے خزانے کی حفاظت کرسکتا ہوں اور مفید اور نفع بخش مقامات پر خرچ کرنے کے اصولوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔
3) حضرت موسی علیہ السلام، فرعون کے شر سے بچنے کی خاطر مدین پہنچتے ہیں. قول مشہور کے مطابق حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کے بکریوں کے ریوڑ کو پانی پلاتے ہیں جس کاحال وہ اپنے والد کے سامنے بیان کرتی ہیں. قرآنی منظر کے مطابق ایک لڑکی بولی کہ ابّا ان کو نوکر رکھ لیجیے. آگے بیان ہو رہی ہیں وہ خوبیاں جن کے سبب وہ انہیں ملازمت کا اہل قرار دیتی ہے ترجمہ:’’ کیونکہ بہتر نوکر جو آپ رکھیں وہ ہے (جو) توانا اور امانت دار (ہو).‘‘ (سورہ قصص)
علامہ شبیراحمدعثمانی فرماتے ہیں، یعنی موسٰیؑ میں دونوں باتیں موجود ہیں۔ زور دیکھا ڈول نکالنے یا مجمع کو ہٹا دینے سے، اور امانت دار سمجھا بے طمع اور عفیف ہونے سے. (تفسیرعثمانی)
یہ آیات اس کائناتی سچائی کو مبرہن کرتی ہیں کہ اللہ جل جلالہ کے یہاں حسب نسب معیار نہیں ہیں (چاہے فرد کا نسب انبیاء علیھم السلام سے ہی کیوں نہ جاملے!) بلکہ شمائل و خصائل معیار ہیں. یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ فاطر ہستی کی کائنات قانون یہ ہے کہ صلاحیتیں، شدائد و حوادث کے راستے سے گزر کر ہی نکھار خالص ہوتی ہیں. جب پھول کچلا جاتا ہے تو عطر برآمد ہوتا ہے، پھلوں کو نچوڑنے سےجوس ملتا ہے، زیتون اور سرسوں پر دبائو پڑتا ہے تو روغن عطا ہوتا ہے، جب خون کا قطرہ ہرن کے نافہ میں قید ہونا قبول کرتا ہے تو مشک بن کر خواص کی توجہ حاصل کرتا ہے، عود جب آگ میں جلتا ہے تو اس کی خوشبو چہار سمت پھیلتی ہے. یہی سبب ہے کہ طالوت کی صلاحیتیں عین حالت جنگ سے قبل پتہ چلتی ہیں. حضرت موسی علیہ السلام کی خوبیاں حالت مسافرت میں توجہ حاصل کرتی ہیں. حضرت یوسف علیہ السلام کی صفات جیل میں قید ہونے کے دوران خوشبو کی مانند اطراف و اکناف میں پھیلتی ہیں. اسمعیل میرٹھی مرحوم نے اس موضوع کو بڑی خوبصورتی کےساتھ بیان کیاہے،
کوئی پیشہ ہو زراعت یا تجارت یا کہ علم
چاہیے انسان کو پیدا کرے اس میں کمال
کاہلوں کی عمر بڑھ جاتی ہے خود کر لو حساب
با ہنر کا ایک دن اور بے ہنر کا ایک سال
سبق:
سہولتوں کا تعاقب نہ کریں بلکہ صفات پیدا کریں. تجربہ شاہد ہے کہ جب صفات ہو تو سہولیات مل ہی جایا کرتی ہیں.

Comments

Click here to post a comment