90 کی دہائی میں قصور کے جاوید اقبال نامی ایک شخص نے جب یہ اعتراف کیا کہ اس نے 100 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا ہے توگمشدہ بچوں کےگھروں میں کہرام سا مچ گیا اور والدین اسی وقت پولیس کے ہمراہی ملزم کے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ 80 گمشدہ بچوں کے والدین کو اپنے پیاروں کی باقیات، جوتیوں اور کپڑوں کی صورت میں مل گئیں۔ ٹی وی پر وہ منظر دیکھا نہ جا سکتا تھا جب وہ والدین دھاڑیں مار مار کر اپنے پیارے بچوں کے کپڑوں کو چوم رہے تھے اور آنکھوں سے لگا رہے تھے۔ کسی کو یاد ہے کہ پھر کیا ہوا؟ ملزم ایک دن پراسرار طور پر لاک اپ ہی میں مر گیا، جبکہ کیس ابھی عدالت میں چل رہا تھا۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ مکروہ کام اکیلے شخص کا ہو نہیں سکتا اور ضرور پولیس کے کچھ لوگ اس دھندے میں ملوث ہوں گے۔
ابھی ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ آج جھلم سے ایک اور 14سالہ بچے کو اغوا کرلیا گیا ہے۔ جس منظم انداز میں اور وسیع پیمانہ پر بچوں کے اغوا کاسلسلہ چل رہا ہے اس سے کم از کم دو باتیں تو واضح ہو گئی ہیں کہ حکومت کے لیے بچوں کے اغوا کے واقعات کوئی بڑی بات نہیں کہ اس پر وہ کوئی خصوصی توجہ دیں۔ دوسری یہ کہ اتنا شور بلند ہونے کے باوجود اغواکار جس تندہی اور یکسوئی سے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اس سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ اس گروہ کی پشت پر کچھ بڑے لوگوں کا ہاتھ ہے، ورنہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میڈیا میں اتنی خبریں آنے کے باوجود یہ گروہ اتنی دلیری کے ساتھ اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکے۔
روزنامہ نوائےوقت کی ایک رپورٹ کے مطابق:
’’بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ لاہور کی ماتحت عدالتوں میں 6 ماہ کے دوران بچوں کے اغوا کے 219 مقدمات پیش ک یے گئے۔ 6ماہ میں اغوا اور لاپتہ بچوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی جو گذشتہ شرح سے تین گنا زیادہ ہے۔ راوی روڈ، داتا دربار، بھاٹی گیٹ، مغلپورہ اور باغبانپورہ میں سب سے زیادہ بچوں کے اغوا کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ صرف راوی روڈ کے علاقے میں 6ماہ کے دوران 15بچوں کو اغوا کیا گیا۔ اقبال ٹائون ڈویژن سے19صدر ڈویژن سے30، ماڈل ٹان ڈویژن سے 31بچے اغوا ہوئے جبکہ کینٹ ڈویژن میں سب سے زیادہ 59بچے اغوا ہوئے۔ سٹی ڈویژن 52بچوں کے اغوا کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ سول لائن ڈویژن میں سب سے کم 17بچے اغوا ہوئے۔ 200 زائد اغوا ہونے والے بچوں میں سے صرف 43بچوں کو بازیاب کرایا جا سکا۔ تھانوں میں بچوں کے اغوا کی 181 ایف آئی آرز درج کی گئی، جو کیس عدالتوں میں بھیجے گئے جبکہ باقی اکیس شہریوں نے پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کرنے پر اندراج مقدمہ کے لیے عدالتوں میں درج کرائے‘‘۔
یہ اعداد و شمار صرف لاہور کے ہیں، اگر ملک بھر سے اغوا ہونے والے بچوں کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے تو تصویر اور بھیانک ہوگی۔ درج بالا رپورٹ دیکھنے کے بعد کم از کم مجھے تو موجودہ حکومت سے کسی بہتری کی امید نظر نہیں آتی۔ والدین سمجھ لیں کہ ملک میں کوئی حکومت، کوئی عدالت، کوئی پولیس، کوئی نظام نہیں۔ اب یہ کام انہوں نے خود کرنا ہے۔ اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ بچوں کو اغوا ہونے سے بچانے کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر کا ذکر کیا جائے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ (اللہ نہ کرے) جب کوئی اغواکار کسی بچے تک پنہچ جاتا ہے تو پھر اس کا بچنا تقریباََ ناممکن ہی ہوجاتا ہے الا یہ کہ اللہ ہی کوئی غیبی امداد بھیج دے، لہٰذا یہاں اکثر باتوں کا تعلق اغوا سے قبل کی احتیاطی تدابیر سے ہوگا۔ ان میں کچھ احتیاطیں والدین نے کرنی ہیں اور کچھ بچوں نے۔ بچوں کو ان احتیاطوں پر عمل کروانا بھی والدین ہی کی ذمہ داری ہے۔
احتیاطی تدابیر:
1. بچوں کو اپنے والدین کا ٹیلی فون یا موبائل نمبر، گھر کا ایڈریس، محلہ یا علاقہ کا نام ، ذات اور برادری یاد ہونا چاہیے تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں اگر کوئی اس کی مدد کرنا چاہے تو فوری طور پرکرسکے۔
2. اپنے بچوں کی تھوڑے تھوڑے وقت کے بعد تصویریں، مختلف زاویوں سے لیتے رہنی چاہییں اور ان کو کسی محفوظ جگہ پر رکھنا چاہیے۔ تاکہ بوقت ضرورت فوری دستیاب ہوں اور بلا تاخیر استعمال کی جاسکیں۔
3. بچے کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دی جائے کہ کوئی بھی ایسا شخص جسے وہ نہیں جانتا یا اگر جانتا بھی ہے تو گھر کے باہر اس کے ہاتھ سے کوئی چیز (ٹافی یا چاکلیٹ وغیرہ) لے کر نہ کھائے۔ پھر چاہے دینے والا کتنا ہی اسرار کرے ۔ اس کے علاوہ کوئی پرفیوم ، کوئی شیشی، ٹیشو یا رومال سونگھانے کی کوشش کرے تو ہرگز نہ سونگھے اور فوراََ وہاں سے بھاگ جائے۔
4. بچوں کو یہ بات بھی سمجھا دینی چاہیے کہ کوئی اگر ان سے کسی کا ایڈریس پوچھے، یا گاڑی میں بیٹھنے کا بولے یا کوئی کہیں چل کر کوئی چیز دکھانے کی بات کرے تو ہرگز اس کے ساتھ نہ جائیں بلکہ فوراََ وہاں سے دور بھاگ جائیں۔ اگر کوئی انہیں پکڑنے یا زبردستی گاڑی میں لے جانے کی کوشش کرے تو پوری قوت سے چلائیں۔
5. بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر والدین بازار وغیرہ چلے جاتے ہیں۔ کوشش ہونی چاہیے کہ یہ عمل کم سے کم ہو۔ اگر مجبوری میں کبھی ایسا کرنا ہی پڑ جائے تو بچوں کو تاکید کرنی چاہیے کہ وہ بیل بجنے پر ہرگز دروازہ نہ کھولیں اور نہ گھر کے باہر قدم رکھیں اور نہ ہی کسی کو یہ بتائیں کہ وہ گھر پر اکیلے ہیں۔
6. بچے کو اگر کوئی ان کے نام سے پکارے تو انہیں خوشی ہوتی ہے کہ اچھا، یہ شخص مجھے جانتا ہے! لہٰذا اس پر فوراََ اعتماد کرلیتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کے کپڑوں پر یا بیگ پر یا ٹفن وغیرہ پر ان کے نام نہ لکھیں جن کو کوئی اجنبی پڑھ کر کسی غلط مقصد کے لیے استعمال کرے۔
7. ان کے کھیل کود کے مقامات اور وقت متعین ہونے چاہییں اور والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے بچے اس وقت کہاں اور کسی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ مقررہ وقت گزرنے کے بعد بھی اگر بچہ واپس نہ آئے تو فکر کرنی چاہیے۔
8. بچوں کے دوستوں کے نام اور کچھ مزید تفصیل (ان کا رابطہ کا نمبر،کہاں رہائش ہے، والد صاحب کیا کیام کرتے ہیں وغیرہ) سے والدین کو آگاہ ہونا چاہیے۔ بچوں کو یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ کہیں بھی بلا اجازت نہیں جائیں گے بلکہ لازماََ اجازت اور اطلاع کے ساتھ جائیں گے۔
9. بارہ تیرہ سال سے چھوٹے بچے کو اکیلا اسکول، مدرسہ ، ٹیوشن یا بازار سے سامان لینے کے لیے نہ بھیجا جائے بلکہ ضرور ان کے ساتھ کوئی بڑا ہونا چاہیے۔ بازار سے سامان لینے کا کام کوشش کرکے ایک ہی بار بڑے خود کرلیا کریں، بچوں کو ایک ایک چیز کے لیے باہر بھیجنا درست نہیں۔ بچوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دی جائے کہ اگر دوکاندار اسے دوکان کے اندرونی کمرے یا اسٹور میں چلنے کو کہے یا کہے تمہیں جو چیز چاہیے وہ وہاں رکھی ہے چل کر دیکھ لو، تو ہرگز اس کے ساتھ نہ جائے۔
10. بچوں کے ساتھ جنسی وارداتیں اکثر خاندان ہی کے افراد کرتے ہیں اور اس غرض سے بچوں کے اغوا کی وارداتیں بھی انہی کے ہاتھوں ہوتی ہیں جو اکثر بچوں کے قتل پر منتج ہوتی ہیں، اس لیے والدین کو چاہیے کہ اپنےبچے کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں اور اپنے بچے کی دوستی اس کی عمر کے بڑے لڑکوں کے ساتھ نہ ہونے دیں۔ اگر بچہ کسی فرد کے اندر غیرمعمولی دلچسپی لے رہا ہے تو اس چیز کو نوٹ کریں۔
11. مغرب کے بعد بچے ہرگز گھر کے باہر نہ رہیں اور سورج ڈھلتے ہی لازماََ گھر کے اندر آ جائیں۔ بچوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت کی دعا یاد کروالیں۔ آیت الکرسی بھی یاد ہو تو بہت ہی اچھا۔
12. جب کسی سفر پر جانا ہو تو بچوں کو باتوں ہی باتوں میں بتادیں کہ سفر کس طرح ہوگا، بس کون سے اڈے سے ملے گی، آپ جن کے پاس جا رہے ہیں ان تک پنہچنے کا کیا طریقہ ہے۔ دوران سفر بچوں کو بتایا جائے کہ اس وقت آپ کہاں سے گزر رہے ہیں، یہ کون سا علاقہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح بعد میں، سفر مکمل ہونے پر دوبارہ سوالات کرکے امتحان لیا جاسکتا ہے کہ بچے نے کتنا اخذ کیا۔ اس سے بچے کے اندر اعتماد پیدا ہوگا۔
13. بچوں کی انٹرنیٹ سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور انہیں اچھی طرح سمجھا دیں کہ وہ اجنبیوں سے فیس بک وغیرہ پر دوستی نہ کریں اور نہ ہی اپنے متعلق معلومات شیئر کریں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی تصاویر اور ان کے نام شیئر کرتے وقت احتیاط برتیں کیوں کہ آج کل کے جرائم پیشہ لوگ سوشل میڈیا کی مدد سے بھی اپنا شکار پھانستے ہیں۔ اس لیے پرائیویسی بہتر ہے۔
14. اگر آپ اپنے بچوں کو خود اسکول سے لینے جایا کرتے ہیں تو ان کو اچھی طرح سمجھا دیں کہ آپ کے لیٹ ہوجانے کی صورت میں وہ کیا کریں، کہاں انتظار کریں۔ ان کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دیں کہ اگر کوئی ان سے کہے کہ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیتا ہوں تو ہرگز اس کے ساتھ نہ جائیں۔
15. بڑوں کی بات ماننا یا ان کا ادب۔ یہ چیز بھی ایک بچہ کے ذہن میں غلط فہمی پیدا کرسکتی ہے کہ کوئی بڑی عمر کا اجنبی بچے کو کوئی کام کہے اور بچہ صرف اس لیے انکار نہ کرسکے کہ اس سے بڑے کی نافرمانی ہوگی۔ لہٰذا بچوں کے سامنے اس طرح کی تمام باتیں کلیئر کر دیں کہ اغواکار کس کس طرح کا روپ اور رنگ ڈھنگ اختیار کرسکتے ہیں۔ کسی طرح کوئی عورت لاچار اور مجبور انسان کا روپ دھار کر گھر کا دروازہ کھلوا سکتی ہے۔ بچوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کریں کہ وہ اگر چاہیں تو کسی چیز کا انکار بھی کرسکیں۔
آخر میں یہ بات کہ اگر کوئی سمجھے کہ اس طرح کی گفتگو سے بچے خوفزدہ ہوجائیں گے تو اس طرح کر سکتے ہیں کہ مثال کے طور پر یا کہانی کی صورت بھی یہ ساری تربیت اپنے بچوں کو دے سکتے ہیں۔ مثلا:
’’انور بہت ذہن بچہ تھا۔ اس کو اس کی ماں نے بازار سے دہی لانے کے لیے بھیجا۔ راستہ میں ایک گاڑی والا انور کے قریب آ کر رکا اور پوچھا کہ یہاں دودھ کی دوکان کس جگہ ہے؟ انور گاڑی سےتین چار قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگیا اور جواب دیا کہ اس گلی کے آخر میں ہے۔ گاڑی والے نے اسے کہا، کیا تم میرے ساتھ گاڑی میں ساتھ چل کر دکھاؤ گے کیوں کہ میں وہاں سے ایک چکر لگا کر آیا ہوں، مجھے تو نظر نہیں آئی؟۔ انور نے یہ سنتے ہی دوڑ لگائی کیوں کہ اس نے اپنے پپا سے سن رکھا تھا کہ کبھی بھی کسی اجنبی کے ساتھ لمبی بات نہیں کرنی اور کسی کے ساتھ گاڑی میں تو ہرگز نہیں بیٹھنا۔‘‘
اس طرح خود ہی مندرجہ بالا نکات کو کہانی کا روپ دے کر بچوں کو سمجھایا جا سکتا ہے۔
اغواکار دو طریقوں سے بچوں کو اغوا کرتے ہیں۔ بہلا پھسلا کر یا پھر زبردستی۔ مندرجہ بالا تمام تجاویز اول الذکر طریقہ واردات سے متعلق ہیں۔ ثانی الذکر کا تعلق والدین کی احتیاط اور ملک کی امن و امان کی صورتحال سے ہے۔ اس لیے اللہ سے ہر حال میں عافیت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ بچوں کا اغوا صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ میں بھی ہر سال سینکڑوں بچے اغوا ہوتے ہیں جن میں سے اکثر قتل کردیے جاتے ہیں۔ بچوں کے اغوا کے اسباب میں سب سے بڑا عنصر تکمیل ہوس کا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مقاصد کے تحت ان کی خریدوفروخت کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بچوں کو اغوا کرکے، ان کو ہاتھ پاؤں سے معذور کرکے یا نابینا بنا کر بھیک مانگنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اب جیسا کہ سننے میں آ رہا ہے کہ بچوں کو انسانی اعضاء (گردے وغیرہ) نکال کر بیچنے کے لیے بھی اغوا کیا جا رہا ہے۔
اللہ تمام بچوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور والدین کو ان کے بچوں کی طرف سے ہر طرح کے صدمہ سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
تبصرہ لکھیے