ہوم << انسانی ضرورت، نظام یا انتظام؟ نصیر احمد ناصر

انسانی ضرورت، نظام یا انتظام؟ نصیر احمد ناصر

نصیر ناصر وطن عزیز اپنے قیام کے دن سے ہی انقلابات کی یلغار مسلسل سہہ رہا ہے، حالیہ دور میں کہیں سونامی سے تقدیریں بدلنے کا غلغلہ ہے، تو کہیں کینیڈا میڈ انقلاب ریاست بچانے کے لیے کمر باندھے نظر آتا ہے، کوئی جمہوریت بچانے کے درد میں مبتلا ہے تو کوئی مارشل لاء کے نفاذ میں ہی عافیت کے سبق پڑھا رہا ہے، ایک طبقہ خودکش بمباروں کے ذریعے ’’نظامِ ظلم ‘‘ بدلنے کا داعی ہے تو دوسرا اپنے ہی ملک کی آبادی کو ڈرون حملوں سے تہس نہس کرا کے تبدیلی کے خوش نما مناظر دکھا رہا ہے.
انقلاب اور تبدیلی کی خواہش اور امید کے ساتھ 70سال کا طویل دورانیہ گذارتے گذارتے اس بے کس قوم کی کتنی ہی نسلیں ناامیدی کی موت مرچکی ہیں اور موجود نسلوں میں سے ہر پیر و جواں نت نئے انداز کے نعروں اور وعدوں کو دیکھتے ہوئے آج اس حالت کو پہنچ چکا ہے کہ اسے ہر قائد انقلاب مداری، ہر طرزِ انقلاب دھوکہ، اور ہر منزل انقلاب سراب نظر آتی ہے، اور ہر لگنے والے تماشے کے بعد نئے تماشے کا انتظار شروع ہوجاتا ہے. نصف صدی سے زائد مدت میں پارلیمانی، صدارتی، سول و فوجی آمریت سمیت ہر اس نظام کو اس ملک کی بدقسمت عوام پر تجرباتی بنیاد پر آزمایا گیا ہے، جس کا تصور بھی دنیا کے کسی دوسرے خطے میں ممکن نہیں، رنگ برنگی دستوری موشگافیوں، آئینی ترمیموں، قانون سازی اور نام نہاد عوامی و قومی مفاد کے بینر تلے نمائش کے لیے پیش کی گئی ہارر، فنی اور ٹریجڈی فلموں کے ذریعے عوام کے اعتبار، وقار اور جان و مال کو حصول اقتدار کا ذریعہ بنا کر ملک و قوم کو پستی و تباہی کے پاتال میں دھکیلنے کا سلسلہ جاری ہے، اور اس مکروہ کھیل میں صرف خون آشام سیاسی اشرافیہ ہی نہیں، جبہ ودستار کے حاملین بھی پوری تندہی اور جانفشانی سے شریک ہیں، جن کی سیاسی میدان میں ’’عوامی خدمات‘‘ نے عوام کو صرف’’ اسلامی سیاست ‘‘سے ہی بیزار نہیں کیا بلکہ ’’اسلام‘‘جیسے نفیس اور کامل ضابطہ حیات سے بھی برگشتہ کرنا شروع کردیا ہے.
ایوان ہائے اقتدار تک ہرجائز یا ناجائز طریقہ سے پہنچنے والے تمام سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور فوجی آمروں نے قوم اور ملک کے ساتھ کھلواڑ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، لیکن عوام کے مفادات کی نام نہاد جنگ میں برسر پیکار ان رہنمایان قوم کے کوڑھ زدہ دماغوں میں کبھی ایک لمحہ کےلیے بھی یہ خیال نہیں گزرا کہ ریاست ہو یا حکومت، جمہوریت ہو یا آمریت، ان سب کی بنیاد انسانی معاشرہ ہے، جس کی ابتداء و انتہاء ’’انسان‘‘ہے. حکومت اور نظام حکومت کا وجود انسانی معاشرہ کی فلاح وبقا کے لیے تشکیل پاتا ہے، نہ کہ علاقہ، ملک یا خطہ زمین کے لیے، یہی وجہ ہے کہ ہر ترقی یافتہ معاشرہ اور ریاست میں ہمیشہ ریاست وحکومت کی تمام تر ذمہ داریوں کا محور ’’انسان‘‘کو بنایا گیا ہے، اور اسی نظریہ کی بنیاد پر ریاستیں اور حکومتیں اپنے شہریوں کی عزت وحرمت، جان ومال کی حفاظت اور فلاح وبہبود کےلیے آخری حد تک چلی جاتی ہیں، اور ان کے نزدیک ہر وہ چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی سخت ترین گرفت کا موجب قرار پاتا ہے، جو ریاست کے بنیادی عنصر ’’انسان‘‘ کی بقا و ترقی اور فلاح کو متاثر کرتا نظر آئے، اور یہ خصوصیت کسی مخصوص ’’نظام ‘‘سے نہیں بلکہ’’ انتظام ‘‘کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے.
لیکن شاید منظم دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں آج تک انتظام کے بجائے نظام سے تبدیلی لانے کی خواہش لاحاصل نے جنت ارضی کے مصداق اس ملک کو نہ صرف ایک انوکھی تجربہ گاہ میں بدل ڈالا ہے بلکہ اقتدار کے بھوکے بھیڑیوں نے ہوس اقتدار اور دوامِ اقتدار کےلیے حکومتی اداروں، نظام حکومت اور عناصر ریاست کےلیے ریاست و حکومت کے بنیادی محور’’انسان‘‘ کے بنیادی حقوق کی پامالی، انصاف کی عدم فراہمی، حقوق معیشت کی سلبی، اور امن و تحفظ سے محرومی کو صرف حلال ہی قرار نہیں دیا بلکہ انسانی خون کو بھی غیر تحریری معاہدہ کے تحت جائز قرار دے رکھا ہے. سیاسی، سماجی، مذہبی و معاشی اور ریاستی و حکومتی طاقت و قوت کے بل بوتے پر انسانوں کو انسانوں پر ظلم و بربریت کے تمام تر اختیارات تفویض کرکے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عوام جمہوریت پسند کرتے ہیں یا آمریت، صدارتی نظام کے دلدادہ ہیں یا پارلیمانی نظام کے خواہاں، بنیادی جمہوریتوں سے لطف اٹھانا چاہتے ہیں یا سول آمریت سے؟ ان سب سوالوں کا شافی جواب صرف ان ماؤں سے لیا جا سکتا ہے جن کی گودیں اس ظالمانہ انتظام نے اجاڑ ڈالی ہیں، اور یہ خون خرابے کا سلسلہ تھما ہے اور نہ رکنے کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں، کیوں کہ نام نہاد انقلابیوں کے روزگار کا واحد ذریعہ بھی انسانی خون ہے اور عوام کے دکھ میں ہلکان ہوتے حکمرانوں کے اقتدار کےلیے آبِ حیات بھی یہی انسانی خون قرار پاچکا ہے.
مسلسل تجربات سے تھکی ہاری اور نت نئے عذابوں میں مبتلا قوم کےلیے نظام کے نام یا طرز میں کوئی چاشنی باقی ہے نہ نعروں اور وعدوں میں کوئی دلکشی، عوام تو ایسے انتظام کے خواہاں ہیں جس میں انسان کی توقیر سلامت رہے، عزت وحرمت محفوظ ہو، معاشی، سماجی، مذہبی حقوق اور ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں، بلاتفریق حصول ِانصاف کا حق میسر ہو، اور کوئی بھی فرد یا ادارہ، گروہ یا جماعت، طبقہ یا مسلک کسی دوسرے کے حقوق غصب نہ کرسکے، ایسا انتظام جس نظام نے بھی فراہم کردیا، وہی نظام کامیاب بھی ہوگا اور عوامی امنگوں کا ترجمان بھی قرار پائے گا.

Comments

Click here to post a comment