برصغیر کی علمی روایتوں میں کچھ نام ایسے درخشاں ستاروں کی مانند چمکتے ہیں جن کی روشنی صرف زمان و مکان کی حدود میں محدود نہیں ہوتی بلکہ نسلوں کی راہ نمائی کرتی ہے۔ انھی درخشاں ناموں میں ایک معتبر، باذوق اور جہانِ علم و ادب کے شناور ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا اسمِ گرامی نہایت احترام اور محبت سے لیا جاتا ہے۔
محمد صالحین نام ہے مگر دنیائے ادب میں وہ اپنے خوشطبع قلمی نام "تبسم کاشمیری" سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ نام صرف تبسم ہی نہیں بلکہ علم، تحقیق، تنقید، تاریخ، شاعری اور ترجمہ نگاری کا مظہر بھی ہے۔ آپ کا تعلق اس خطۂ گُل و لالہ سے ہے جسے کشمیر کہا جاتا ہےجہاں کی فضا خود علم و ادب کی سانسوں سے مہکتی ہے۔ تبسم کاشمیری کی علمی پرواز نے اڑان بھری اورینٹل کالج لاہور سے، جہاں سے آپ نے 1964ء میں اردو ادب میں ایم اے کیا اور 1973ء میں پی ایچ ڈی کی بلند چوٹی پر قدم رکھا۔
1965ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخِ ادبیاتِ مسلمانانِ پاک و ہند میں تدریسی خدمات کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ جاپان تک جا پہنچا جہاں اوساکا یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے اردو شعبہ میں کئی برس خدمات انجام دیں۔ 2005ء میں آپ نے جاپان میں تدریس سے ریٹائرمنٹ لی اور اسی برس جاپان فاؤنڈیشن ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری صرف استاد نہیں ہیں، وہ ایک رہبرِ علم و نظر ہیں۔ جامعہ کراچی، پنجاب یونیورسٹی اور فیڈرل اردو یونیورسٹی میں ان کی موجودگی نے کئی نوجوان اذہان کو سوچنے، سمجھنے اور لکھنے کے آداب سکھائے۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کتنے ہی مقالات آپ کی راہ نمائی کے زیرِ سایہ پروان چڑھے۔
تبسم کاشمیری کی تحریروں میں تحقیق کی صلابت، تنقید کی باریکی، زبان کی لطافت اور فکر کی عمق یکجا ہو کر اردو ادب کا ایک نیا منظرنامہ تشکیل دیتی ہیں۔ ان کے مباحث میں غالب، میر، حالی، انیس اور شبلی جیسے اکابرین کی تفہیم ایک نئے زاویے سے جلوہ گر ہوتی ہے۔ کلاسیکی ادب کے ساتھ ساتھ جدید نظم، افسانے اور تنقیدی رجحانات پر بھی ان کا قلم بےمثال روانی سے چلتا ہے۔ تبسم کاشمیری کی تصانیف کی فہرست ایک قیمتی خزانے کی مانند ہے:
1. اردو ادب کی تاریخ: ابتدا سے 1857ء تک (ادبی تاریخ)
2. قصبہ کہانی (ناول)
3. تمثال، نوحے تخت لہور کے، پرندے پھول تالاب، کاسنی بارش میں دھوپ، بازگشتوں کے پل پر (شاعری)
4. ادبی تحقیق کے اصول (تحقیقی رہنمائی)
5. جاپان میں اردو (لسانی و ثقافتی تحقیق)
ان کی کتاب ادبی تحقیق کے اصول پاکستان میں تحقیقی اصولوں پر شائع ہونے والی ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔ ان کا ناول قصبہ کہانی اردو افسانوی ادب میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے اور ان کی شاعری میں رنگ، خوش بو، کرب، جمال، نرمی اور تہذیب کی جلوہ گری دکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک اور نمایاں جہت ترجمہ نگاری ہے۔ انھوں نے ہسپانوی شاعروں کے کلام کو اردو کے پیرائے میں ڈھالا، ہیروشیما کی نظمیں ترجمہ کیں اور جدید جاپانی شعرا پر بھی محققانہ کام کیا۔ یہ تراجم صرف لسانی نہیں بلکہ تہذیبی مکالمہ بھی ہیں۔
ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی شخصیت میں وقار اور تبسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ان کی مجلس میں شرکت کرنے والا ہر فرد ان کے حافظے کی حیرت، اندازِ بیان کی لطافت اور علمی گہرائی کا قائل ہو جاتا ہے۔ وہ علم کی بات دھیمے لہجے میں کہتے ہیں مگر ان کی باتوں کی گونج دیر تک ذہن و دل میں باقی رہتی ہے۔ آپ کے معاصرین میں ڈاکٹر ریاض قدیر، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر انوار احمد جیسے اساتذہ شامل ہیں۔ آپ نے کتنے ہی ایسے شاگرد پیدا کیے جو آج خود دانشوری اور تدریس کے چراغ جلا رہے ہیں۔
تبسم کاشمیری ایک عہد، ایک روایت، ایک دبستان کا نام ہے۔ وہ تحقیق میں اصول پرست، تنقید میں صاحبِ نظر، شاعری میں لطیف الحسن، تاریخ میں باخبر اور ترجمے میں تہذیب آشنا ہیں۔ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو ایک ساتھ کئی میدانوں میں یکتائی رکھتے ہوں اور یہ وصف تبسم کاشمیری کو ممتاز و منفرد بناتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس علم دوست، ادب شناس، تہذیب پرور شخصیت کو صحت، عزت اور روشنی عطا فرمائے اور ان کے علم سے ہم سب کو فیض یاب ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین۔
تبصرہ لکھیے