یہ ایک تلخ اور مسلسل دہرائی جانے والی حقیقت ہے کہ عورت کو انسان نہیں، ایک چیز سمجھا جاتا ہے . ایسی چیز جس پر ملکیت کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ وہ جیتی جاگتی روح نہیں، بلکہ گویا کوئی جامد اثاثہ ہے، جس پر اختیار صرف مرد کے پاس محفوظ ہے: باپ کا، بھائی کا، شوہر کا، بیٹے کا۔
اگر وہ اپنی مرضی سے جینے کی تمنا کرے، کچھ سوچے، کچھ بننے کی خواہش کرے، تو معاشرہ اس کی سوچ پر پہرےلگا دیتا ہے۔ اس کی خواہش کو بغاوت، اور اس کی خودی کو گناہ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس کی ’ہاں‘ یا ’نہ‘، ایک اعلانِ جنگ بن جاتی ہے جس کا جواب اکثر گولی، غیرت، یا خاموش جنازے کی صورت میں ملتا ہے۔یہی عورت جب قرآن کے مطابق اپنے حقِ وراثت کا تقاضا کرتی ہے، تو رشتوں کے بندھن کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن کہتا ہے:
"مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اس میں سے جو مال والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر جائیں، اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے، خواہ وہ مال تھوڑا ہو یا زیادہ۔ یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر کیا گیا فرض ہے۔"
(سورۃ النساء، آیت 7)
مگر ہم نے قرآن کے ان الفاظ کو ثقافتی تعصبات کے سامنے دفن کر دیا۔ خدا کے واضح احکامات کی پاسداری عورت پر لازم، اور اس کے فطری و شرعی حقوق ہماری خودساختہ روایات کی "اگر، مگر، چونکہ، چناں چہ" کی فہرست میں ڈال دیے گئے۔
پدر سری نظام صرف دیہات، قبائل یا جاگیرداروں کا حصار نہیں—یہ جدید شہروں کے ایئرکنڈیشنڈ ڈرائنگ رومز میں بھی سانپ کی طرح لپٹا بیٹھا ہے۔ اسلام آباد جیسے مہذب شہروں میں بھی عورت کو انکار کی سزا موت دی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ چہروں کے پیچھے جہالت کے ناگ پلتے ہیں، اور خاموشی کی دیواریں خون آلود دعاؤں سے بھری پڑی ہیں۔قبائلی علاقے ونی اور کاروکاری کی آگ میں عورت کو جھونکتے ہیں، اور شہری دانشور “بغاوت” کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ ایک عورت اگر ہاں کہے، تو بے غیرت، نہ کہے تو بدکردار۔
اس کا جرم کیا ہے؟ بس اتنا کہ وہ خود بھی کچھ چاہتی ہے، خود بھی کچھ بننا چاہتی ہے۔ ہمارے واعظ، منبر، مسندیں ہمیشہ عورت کے لباس، اس کی آواز، اس کی چال اور اس کی مرضی کو زوال کی وجہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے مرد کی حرص، خودغرضی، اور جبر کو بھی خدا کے عذاب کی بنیاد کہا؟ دینِ اسلام نے عورت کو صرف عزت ہی نہیں، رُوحانی توقیر عطا کی۔ لیکن ہمارے ہاں یہی دین عورت کے لیے پابندی کا استعارہ بنا دیا گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو"
(صحیح مسلم، حدیث 1218)
اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہو"
(جامع ترمذی، حدیث 3895)
مگر ہم نے ان احادیث کو صرف تقاریر تک محدود کر دیا ہے۔ گھروں میں، عدالتوں میں، وراثت کے کاغذوں میں، عورت آج بھی اپنی شناخت تلاش کر رہی ہے۔ وہ عزت نہیں مانگتی، صرف وہ مقام چاہتی ہے جو خدا نے اسے دیا ہے، نصفِ کائنات ہونے کا۔ تاریخ انسانی میں جب بھی عورت کو اُس کے اصل مقام پر بٹھایا گیا، معاشرے نے ترقی کی، نسلوں نے شعور پایا، اور تہذیب نے جَلا پائی۔ مگر جہاں عورت کو کمتر، تابع اور خاموش رکھنے کی کوشش کی گئی، وہاں زوال نے ڈیرے ڈالے، اندھی تقلید نے جنم لیا، اور انسانیت نے سسک سسک کر سانس لی۔
وجودِ زن ہی سے تو ہے تصویرِ کائنات میں رنگ!
مگر جانے کیوں ہم اس وجود کو ماننے کو تیار ہی نہیں؟ اس کے جذبات، اس کی ترجیحات ہم طے کرتے ہیں۔ زندگی کے فیصلے، محبت کے معیار، خاموشی کے اوقات، سب ہم لکھتے ہیںاور وہ صرف پیروی کرے، یہی ہمارا تقاضا ہے۔
کیا اسے اپنی مرضی سے جینے کا حق بھی نہیں دیا جائے گا؟ کیا وہ صرف مرد کی ملکیت ہے، یا ایک مکمل انسان، جو خدا کی تخلیق ہے اور اپنے فیصلوں میں آزاد ہے؟ یہ سوال ہر ضمیر دار انسان سے ہے۔
تبصرہ لکھیے