سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی تحریک کا آغاز عرب کی قبائلی کم زوریوں سے فائدہ اٹھا کر کسی سیاسی انداز میں کیوں نہیں کیا؟ کسی بھی قوم میں سیاسی مقبولیت کے حصول کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انہیں ان کے مذہبی اعتقادات اور اعتقاد کی حد تک پہنچے ہوئے نظریات کے تحفظ کا یقین دلا دیا جائے۔
ہمارے ہاں پہلے ”اسلام خطرے میں ہے“ کا نعرہ لگانا اور پھر اسی اسلام کے تحفظ کے نام پر مختلف ادوار میں ووٹ وصول کرنا اس کی ایک اعلیٰ ترین مثال ہے۔ اس معاملے میں پڑوسی بھی کسی طرح ہم سے پیچھے نہیں ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرب کی قبائلی سیاست اور تجارتی مفادات کو استعمال کرنے کا بہترین راستہ موجود تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ چاہتے تو ان تمام عناصر کو اپنی تحریک کے حق میں استعمال کر سکتے تھے۔ قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف اکسا کر خود کو مقبول لیڈر بنانا یا ان کے تجارتی راستوں کی حفاظت کے وعدے کر کے اپنی حمایت کا دائرہ وسیع کرنا آپ جیسے پولیٹیکل جینئس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
ایسا کرنا بظاہر انتہائی آسان اور تیز رفتار کامیابی کا راستہ ہوتا۔ آج بھی دنیا بھر میں قیادتیں اسی طرزِ عمل پر گامزن نظر آتی ہیں. آپ کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے ہی ابرہہ نے بیت اللہ پر حملے کی جسارت کی تھی۔ یہ واقعہ اتنا بڑا تھا کہ عربوں کے لیے یہ سال عام الفیل ٹھہرا، اور ایک طرح سے ایک نئے کلینڈر کا آغاز ہو گیا۔ ”عام الفیل سے اتنا عرصہ پہلے“ یا ”عام الفیل کے اتنے عرصے بعد“ کہنا عام بول چال کا حصہ بن گیا۔ اگرچہ اکتالیس سال اس واقعے کو گزر چکے تھے، لیکن اگر آپ کی تحریک کا آغاز ان سے بدلہ لینے کے نام پر ہوتا تو ایک عام ذہن بھی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ آپ عربوں سے کتنی زبردست سیاسی حمایت سمیٹ سکتے تھے۔ لیکن ایسا کیوں نہیں کیا؟
سورۃ الفیل اور سورۂ قریش کو کچھ مفسرین نے ایک ہی سورت قرار دیا ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مصحف میں ان دونوں کے درمیان بسم اللہ کا فاصلہ نہیں تھا۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو دونوں سورتوں کی مضمونی قربت کسی بھی صاحب علم سے مخفی نہیں۔ مضمون کے شروع میں جو سوال ہے اس سوال کا جواب ہمیں ان ہی دونوں سورتوں میں غور و فکر کے بعد ملتا ہے۔ سورۂ فیل میں دشمن کی شکست کا بیان ہے، ایک ایسا معجزاتی واقعہ جس نے بیت اللہ کی حرمت کو بیرونی جارحیت سے بچایا۔
یہ واقعہ عربوں کے حافظے میں تازہ تھا اور ان کے لیے ایک قومی وقار کی علامت بھی تھا۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر ایک سیاسی تحریک کا آغاز کرنا یقیناً ایک بہت بڑا حربہ ثابت ہوتا۔ لیکن سورۂ قریش ایک مختلف زاویے سے بات کرتی ہے۔ یہ براہ راست قریش کو مخاطب کرتی ہے اور انہیں بیت اللہ کے رب کی عبادت کا حکم دیتی ہے۔ جنگ کے جواب میں عبادت؟ یہاں ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہجِ نبوت کی گہرائی سمجھ آتی ہے۔ اگر آپ کا مقصد محض سیاسی قوت حاصل کرنا ہوتا تو آپ ”دفاعِ کعبہ“ جیسے نعرے لگاتے۔ یہ نعرے اس وقت کے عرب معاشرے میں آتش فشاں کی طرح پھٹتے اور آپ کو فوری عوامی حمایت دلاتے۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔
سورۂ قریش میں محض بندگی کی دعوت واضح کرتی ہے کہ آپ کا ہدف محض ظاہری دشمن کی سرکوبی یا سیاسی اقتدار کا حصول نہیں تھا، بلکہ اندرونی اصلاح اور دلوں کی پاکیزگی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ توحید کے اعلان کے باوجود بھی آپ نے بت کدے کو چھوا تک نہیں۔ بیت اللہ میں موجود بتوں کر گرانے کے لیے آپ نے بیس سال انتظار کیا، اور اس دوران آپ کی ضربِ خلیلی کا نشانہ وہ وہ صنم کدے تھے جو دلوں میں جگہ کیے ہوئے تھے۔ اور اسی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ شریعت کے ہر نئے حکم پر مسلمان دل سے ”اٰمنا و سلمنا“ کہتا جا رہا تھا۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہم نبوی انقلاب لانا تو چاہتے ہیں، لیکن اس انقلاب سے پہلے کی جو انفرادی ریاضت ہے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیا کوئی قوم جو اندرونی طور پر زنگ آلود ہو چکی ہو، بیرونی دنیا میں کوئی چمکتا ہوا انقلاب لا سکتی ہے؟ کیا ایک ایسا معاشرہ جو خود تاریکی میں بھٹک رہا ہو، زمانے کو روشنی کا راستہ دکھا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! معاشرہ فرد سے وجود میں آتا ہے اور فرد ہی اس کی اصل اکائی ہے۔ فرد میں انقلاب کے بغیر معاشرے میں انقلاب کا آنا، ایں خیال است و محال است و جنوں۔ روسی مفکر اور ادیب لیو ٹالسٹائی نے کہا تھا:
“Everyone thinks of changing the world, but no one thinks of changing himself.”
آپ نے محض نعرے نہیں دیے، بلکہ ایک ایسا عملی نظامِ تربیت قائم کیا جس نے افراد کو اندر سے بدل کر رکھ دیا اور یہی وہ جماعت تھی جس نے بعد میں عدل و انصاف کی بنیاد پر ایک ایسی عظیم ریاست قائم کی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اپنی سیاسی اور معاشرتی حالتِ زار پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہماری ترجیحات کا توازن بگڑ چکا ہے۔ ہم بیرونی دکھاوے، سیاسی داؤ پیچ، اور کھوکھلے نعروں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔
علامہ اقبال کا فقیہانِ حرم سے بھی یہی شکوہ تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ نعرے بےجان ہو چکے ہیں اور ہماری تحریکیں بانجھ ہو چکی ہیں۔ کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں؟
تبصرہ لکھیے