ہوم << مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس: سہولت یا خاموش خطرہ؟ محمد کامران خان

مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس: سہولت یا خاموش خطرہ؟ محمد کامران خان

مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس کا استعمال آج کے دور میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تعلیمی اداروں، دفاتر، آن لائن سروسز، اور عام صارفین سب ہی ان پر بھروسا کرنے لگے ہیں۔ مگر اس سہولت کے ساتھ ساتھ کچھ خطرناک غلطیاں اور حدود بھی وابستہ ہیں جنہیں نظرانداز کرنا ایک سنجیدہ مسئلہ بن سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس دراصل زبان کے نمونوں پر تربیت یافتہ ماڈلز ہوتے ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی جملے کا اگلا ممکنہ حصہ پیش گوئی کے ذریعے مکمل کریں۔ یہ تربیت کروڑوں اربوں الفاظ پر مشتمل مواد پر کی جاتی ہے جو انٹرنیٹ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ مواد انسانی تعصب، غلطیوں، پرانی معلومات، اور بعض اوقات جھوٹی خبروں سے بھرا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چیٹ بوٹس بعض اوقات ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جو سراسر من گھڑت ہوتی ہیں، لیکن لہجہ اور انداز ایسا ہوتا ہے کہ صارف کو یہ بات سچ لگتی ہے۔

سب سے نمایاں غلطی جو اکثر سامنے آتی ہے، وہ ہے "ہالوسینیشن" یعنی چیٹ بوٹ کی جانب سے ایسی معلومات کا گھڑنا جو حقیقت میں موجود نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر، بعض صارفین نے دیکھا ہے کہ چیٹ بوٹ ایسے عدالتی فیصلے یا کتابوں کے حوالے دے دیتا ہے جو کبھی لکھے ہی نہیں گئے۔ ایک مشہور مثال ایک وکیل کی ہے جس نے عدالت میں جو دلائل دیے وہ چیٹ جی پی ٹی سے حاصل کیے گئے تھے اور ان میں دیے گئے فیصلے سراسر فرضی نکلے، جس پر عدالت نے نہ صرف کیس مسترد کیا بلکہ وکیل پر جرمانہ بھی عائد کیا۔ یہی نہیں، بعض خبریں ایسی بھی شائع ہو چکی ہیں جن میں چیٹ بوٹ نے کسی زندہ مشہور شخصیت کی موت کی خبر دے دی تھی، جو بعد میں غلط ثابت ہوئی۔
یہ مسئلہ صرف تحریری مواد تک محدود نہیں۔ تصاویر بنانے والے ٹولز جیسےکہ مڈ جرنی یا ڈال -ای بعض اوقات انسانوں کی ایسی تصاویر بنا دیتے ہیں جن میں چہرے بگڑے ہوتے ہیں، یا ہاتھوں میں انگلیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح ترجمہ کرنے والے ٹولز ثقافتی یا لسانی نزاکتوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور غلط ترجمے سے بہت ساری ٖغلط فہمیوں کو جنم دے سکتے ہیں۔ یہ ترجمہ درحقیقت لفظ بہ لفظ ہوتا ہے یا جملہ بہ جملہ جیسا کہ ہم پنجابی میں کسی شخص کو کہتے ہیں کہ "اے بڑا استاد اے" تو دراصل ہمارا مقصد اس کی چالاکی، ہوشیاری اور بعض اوقات منفی پہلو پر فقرہ کسنا ہوتا ہے مگر مصنوعی ذہانت کی یہ ٹولز زبان کی گہرائی اور الفاظ کے پس منظر سے کافی حد تک لا علم ہیں تو ممکن ہے وہ انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے اس بات کو یوں بیان کر دے کہ "ہی از ا ےگریٹ ٹیچر" جس کا مطلب سمجھنے والے کو یہی لگے گا کہ مذکورہ شخص ایک عظیم استاد ہے جبکہ ہم نے بات اس کے صریح مخالف کی ۔
اب ہمارے معاشرے، ماحول، اور ہمارے ڈیٹا کی تربیت بہ نسبت باقی اقوام کے کافی حد تک کم ہے جس کی وجہ ہماری جانب سے انٹرنیٹ پر دی جانے والی معلومات، ہمارے علاقے کی انٹرنیٹ پر مکمل معلومات، سیٹلائیٹ ڈیٹا کی کمی اور ان تمام عناصر کے باعث چونکہ کافی کم ہے اسی لئے اکثر اوقات جو ماحولیاتی، انسانی یا علاقائی معلوماتی وہ امریکہ کی فراہم کر سکتا ہے اتنی درستی کے ساتھ وہ معلومات پاکستان یا پاکستان کے کسی چھوٹے شہر یا علاقے سے متعلق نہیں فراہم کر سکتا۔ اسی لئے اس کی رائے کو ہمارے ماحول کے مطابق مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔

طلباء کے لئے ایک اور ذاتی تجربہ بھی بیان کرتا چلوں کہ بہت سے عام اور حتیٰ کہ نمایاں چیٹ بوٹس بھی ریاضی میں نہایت کمزور واقع ہوئے ہیں جس کمزوری کووقتی طور پر فارمولوں کی بیک وقت مختلف اقسام، ایک ہی کا ریاضیاتی مسئلہ مختلف طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے کی بنا پر میں نظر انداز کر رہا ہوں پر یہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ گزشتہ سال ایک ریاضی کے مقابلے میں اس سے مدد لی اور مقابلے کا پرچہ اس سے تیار کروایا۔ خود اس کی درستی دیکھے بغیر شائع کر دیا اور بعد میں بہت شرمندگی اٹھانا پڑی کیونکہ مکمل پرچہ ہی غلط اورمن گھڑت کثیر الانتخابی سوالات پر مشتمل تھا جن کے تمام جوابات میں درست کوئی بھی نہیں تھا۔ اب اس میں کافی بہتری آئی ہے مگر محتاط رہنا لازم ہے۔
تیسرا اہم مسئلہ پرانی اور ادھوری معلومات کا ہے۔ عام اور مفت چیٹ بوٹس کسی مخصوص وقت تک کی معلومات پر تربیت یافتہ ہوتے ہیں، جیسے 2024 کے اختتام تک۔ اس کا مطلب ہے کہ 2024 کے بعد کی معلومات ان کے پاس نہیں ہوتی، جب تک انہیں کسی بیرونی تازہ ڈیٹا بیس سے جوڑا نہ گیا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ چیٹ بوٹ سے کسی تازہ ترین سائنسی دریافت، قانونی ترمیم، یا سیاسی پیش رفت کے بارے میں پوچھیں گے، تو وہ یا تو جواب گھڑ لے گا یا پرانی معلومات کی بنیاد پر غلط تجزیہ دے گا۔یہ بات ممکنات میں سے ہے اور گزشتہ کچھ عرصے تک یہ بوٹس ایسے ہی کام کرتے رہے ہیں مگر اب جدت اور تیزی ، مارکیٹ میں طرح طرح کے چیٹ بوٹس کی موجودگی میں بہتر ہونے کا مقابلہ اور ان تمام پہلوؤں کی بنیاد پر تمام صفِ اول کے مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس درست اور تازہ ترین معلومات دینے کی کوشش کرتے ہیں اور براہ راست انٹرنیٹ سرچ سے جڑ چکے ہیں۔ ایک اور بڑی کمی ان چیٹ بوٹس میں تنقیدی سوچ، تخلیقی حل، اور انسانی جذبے کی عدم موجودگی ہے۔ اگر کوئی مسئلہ پیچیدہ ہو اور اس میں مختلف زاویے ہوں تو بوٹ جذبات یا سیاق و سباق کو نہ سمجھتے ہوئے ایک سیدھا اور سطحی جواب دے گامثال کے طور پر اگر آپ کسی ذاتی مسئلے پر مشورہ مانگیں، تو غیرمتعلق یا غیرحساس جواب دے سکتا ہے حالانکہ حال ہی میں بلوچستان سے ایک جرگہ کا فیصلہ درست کرنے کی مثال سامنے آئی ہے مگر یہ مکمل طور پر منحصر ہے کہ کون سا چیٹ بوٹ استعمال کیا گیا تھا اور اس چیٹ بوٹ کا بھی کون سا ورژن۔ یہ چیز خاص طور پر صحت، جذباتی مدد، یا قانونی امور میں خطرناک ہو سکتی ہے، جہاں صرف معلومات نہیں بلکہ فہم، احساس اور تجربہ درکار ہوتا ہے۔ چیٹ بوٹس انداز میں حد سے زیادہ اعتماد، رسمی گرامر اور قائل کرنے والے جملے استعمال کرتے ہیں جس سے صارفین کے لیے درست یا غلط کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے ۔ تربیت کے دوران، ماڈلز کو ایسے جوابات پیدا کرنے پر اکسایا جاتا ہے جو سیکھے ہوئے پیٹرن سے مطابقت رکھتے ہوں، نہ کہ حقائق کی درستگی پر۔ اہم بات یہ ہے کہ معیاری تربیتی عمل کے اندر کوئی براہ راست فیڈ بیک لوپ نہیں ہوتا جو ماڈل کو حقائق کے لحاظ سے غلط چیز پیدا کرنے پر سزا دیتا ہو۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حقائق کی تربیت کیوں نہیں دی جاتی، در اصل ان ماڈلز کی تربیت انٹرنیٹ پر موجود معلومات سے ہوتی ہے جن میں مبالغہ، سچائی، جھوٹ، عوامی رائے اور خصوصاً کثرت رائے شامل ہوتا ہے جبکہ درست حقائق کے لئے باقاعدہ صرف ایک اور مکمل جامع رپورٹ پر تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ہر موضوع پر الگ سے دینا مشکل ہے۔ اس کی مثال لیتے ہیں کہ اگر آپ ایک چیٹ بوٹ سے کسی چیزکے بارے میں دریافت کریں گے تو وہ انٹرنیٹ پر موجود معلومات، عوامی رائے اور خبروں پر مبنی معلومات کے ذریعے اپنی رائے قائم کرے گا نا کہ درست حقائق کی تلاش کرے گا جیسا کہ ہماری آبادی اور بھارت کی آبادی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اگر کوئی ایسا موضوع جو ہم دو قوموں کے درمیان ہے تو اس کے نتائج وہ کثرت رائے سے اخذ کرے گا جو کہ بھارت کی رائے کے مطابق ہو سکتے ہیں مگر ہو سکتا ہے حقیقت میں ہم درست ہوں۔
ہمیں اس سلسلے میں کیا کرنا چاہئے اور کیسے خود کو بچاتے ہوئے درست معلومات کا انتخاب کریں۔ سب سے پہلے تو اگر کوئی صارف چیٹ بوٹ کو ذاتی معلومات جیسے نام، شناختی کارڈ نمبر، فون نمبر، پتہ، بنک کی تفصیل، یا ادارے کے رازدارانہ کاغذات بتا دے تو یہ ایک سنگین خطرہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اکثر چیٹ بوٹس صارف کے پیغامات کو تجزیے اور تربیت کے لیے محفوظ کرتے ہیں بلکہ اپنے سرورز پر اپ لوڈ بھی کرتے ہیں تاکہ آئندہ وہ معلومات کام میں لا سکیں۔ اگر کبھی یہ ڈیٹا لیک ہو جائے تو نہ صرف شناخت کی چوری، بلکہ ذاتی معلومات، بینک اور پیسے کے نقصان کے علاوہ اور قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔
چیٹ بوٹس سے سوال کرتے وقت کچھ باتوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے، جیسے کہ اپنے یا کسی اور کی شناختی معلومات دینا، مالی معلومات یا لاگ ان تفصیل دینا،کسی کی نجی زندگی کے بارے میں سوال کرنا،قانونی، طبی، یا مالی فیصلے ان پر چھوڑنا، جذباتی یا ذہنی مشورے لینا، چیٹ بوٹ کو دھوکہ دینے یا الجھانے کی کوشش کرناوغیرہ، یہ سب نہ صرف آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں بلکہ چیٹ بوٹ کی کارکردگی پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں۔ اگرچہ اے آئی چیٹ بوٹس عام معلومات فراہم کر سکتے ہیں، لیکن وه لائسنس یافتہ پیشہ ور افرادہر گز نہیں ہیں سو ان کی کسی بھی مالی، قانونی یا صحت کے مثائل سے متعلق رائے کو مکمل نہ سمجھا جائے ۔
ان تمام خطرات کے باوجود چیٹ بوٹس ایک زبردست سہولت ہیں، بشرطیکہ ان کا استعمال سمجھ داری سے کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صارف ہر حاصل شدہ معلومات کی تصدیق کرے۔اے آئی چیٹ بوٹس میں موجود اندرونی حدود اور غلطی کے امکانات کے پیش نظر، صارفین پر ان نظاموں سے حاصل کردہ تمام معلومات کا تنقیدی جائزہ لینے اور تصدیق کرنے کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تصدیق کے لیے کچھ قابلِ بھروسا ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں جیسے کہ سرکاری ویب سائٹس، معتبر اخبارات اور علمی ادارے، ریسرچ جرنلز اور مستند کتابیں، مختلف ذرائع سے ایک ہی بات کی تصدیق کرنا، لٹریچر کا اصل ماخذ دیکھنا، اور "فرضی حوالوں" سے ہوشیار رہنا وغیرہ۔اس کے علاوہ عام صارفین، طلباء، محقیقین یا اساتذہ جب اس کا استعمال کرتے ہیں تو اس کی درستی معلوم کرنے کے لئے مختلف ٹولز بھی دستیاب ہیں جو کہ آپ کی اے آئی سے لی گئی معلومات کو جانچتے اور اس کی درستی ماپتے ہیں مثال کے طور پر، وائز کیوب اے آئی فیکٹ چیکر، متن کو علمی ٹرپلٹس(موضوع، فعل، مفعول) میں تقسیم کرکے اور ان دعووں کو مختلف ذرائع سے احتیاط سے تصدیق شدہ حقائق پر مشتمل وسیع علمی گراف کے خلاف کراس ریفرنس کرکے اے آئی سے تیار کردہ مواد کی درستگی کی توثیق کرتا ہے۔
تصدیق کے لیے تجویز کردہ حکمت عملی واحد نہیں بلکہ متعدد، الگ الگ طریقوں پر مشتمل ہیں: کراس چیکنگ، ماخذ کی تصدیق، لیٹرل ریڈنگ۔ کوئی بھی ایک طریقہ کافی نہیں ہے کیونکہ اے آئی کی غلطیاں کثیر جہتی ہیں، جن میں حقائق کی غلطیاں، منطقی تضادات، تعصبات، پرانی معلومات، اور من گھڑت ذرائع شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک سادہ کی ورڈ سرچ ایک وسیع پیمانے پر پھیلائی گئی غلط فہمی کی تصدیق کر سکتی ہے، جبکہ ذرائع کی جانچ سے من گھڑت حوالہ جات کا انکشاف ہو سکتا ہے۔ لیٹرل ریڈنگ بہت ضروری ہے کیونکہ اے آئی قابل اعتبار ذرائع کے انداز کی نقل کر سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مؤثر اے آئی حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے ایک نفیس، کثیر سطحی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو پہلے سے درکار ڈیجیٹل اور معلومات کی خواندگی کی اعلیٰ سطح کا مطالبہ کرتا ہے۔ صرف "گوگل کرنا" کافی نہیں ہے؛ صارفین کو ایک منظم تحقیقاتی طریقہ کار استعمال کرنا چاہیے۔ یہ اے آئی ڈویلپرز کے لیے ایک جاری چیلنج کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ وہ زیادہ مضبوط ماخذ کی خصوصیت اور حقیقی وقت کے علم کے انضمام کو اپنے مصنوعات میں شامل کریں تاکہ صارف پر بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اے آئی ایک سہولت ہے، متبادل نہیں۔ یہ نہ انسان ہے، نہ عالم، نہ ماہر نفسیات، اور نہ ہی کوئی پیش گو۔
اس سے بات کرتے وقت ہمیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ صرف ایک تربیت یافتہ ماڈل ہے جو زبان کے اندازے لگاتا ہے مطلب آپ کی کہی گئی بات کو اپنے ڈیٹا بیس کے مطابق جوڑتا اور اس سے قریب ترین الفاظ واپس پیش کرتا ہے، سچ اور جھوٹ کی تمیز کے بغیر۔ ہمیں اپنی عقل، شعور، اور تحقیق کو مقدم رکھنا ہوگا۔ اگر ہم احتیاط اور فہم کے ساتھ ان کا استعمال کریں تو یہ ٹیکنالوجی ایک بہترین مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ہم اندھا اعتماد کریں تو یہی سہولت ایک خاموش خطرہ بن سکتی ہے۔